سیّد علی شاہ گیلانی : کاوشیں اور میراث

سیّد علی شاہ گیلانی : کاوشیں اور میراث

سید علی گیلانی کی یاد میں تقریب سےپروفیسر خورشید، راجہ ظفرالحق اور دیگر کا خطاب

تحریک آزادی کشمیر  کی تاریخ میں سید علی گیلانی کا نام ایمانداری، غیر متزلزل عزم، جدوجہد اور وژن کے ایک مجسم نمونے کے طور پر لکھا جائے گا۔ وہ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی اور مزاحمت کی تحریک کا مجسم مظہر تھے اور اس کےلیے ان کا جذبہ، نظریہ اور بصیرت افروز نگاہ اپنی مثال آپ تھی ۔انہوں نے نہ صرف کشمیر کامقدمہ ہمیشہ بڑی وضاحت کے ساتھ پیش کیا بلکہ اپنے تمام لوگوں کو کشمیر کی آزادی اور کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے مقصد کے لیے یکجا کیا، جس کی انہیں بھاری قیمت  بھی چکانی پڑی۔ اگر پاکستان کے حکمرانوں نے تحریک آزادی کشمیر  اور سید علی شاہ گیلانی کے مشن سے غفلت برتی تو تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔

یہ وہ کلمات ہیں جو  ممتاز دانشور، ماہر اقتصادیات، سینئیر سیاستدان،  انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز  (آئی پی ایس ) کے بانی چیئرمین اور اب سرپرست اعلیٰ  پروفیسر خورشید احمد نےمورخہ 1 ستمبر 2022 کو  سید علی شاہ گیلانی کی پہلی برسی کے موقع پر یادگاری ریفرنس سے خطاب کے دوران ادا کیے جو آئی پی ایس اور لیگل فورم فار کشمیر (ایل ایف کے)  نے باہمی اشتراک سے  منعقد کیا۔

اجلاس سے دیگر مقررین کے علاوہ سینئیر سیاستدان راجہ ظفر الحق؛ پروفیسر ڈاکٹر محمد کلیم عباسی، وائس چانسلر آزاد جموں اینڈ کشمیر  یونیورسٹی؛ ڈاکٹر عاصمہ شاکر خواجہ، ایگزیکٹو ڈائریکٹر سنٹر فار انٹرنیشنل سٹریٹجک سٹڈیز مظفرآباد؛ شیخ عبدالمتین، جنرل سیکرٹری، آل پارٹیزحریت کانفرنس (اے پی ایچ سی)  ، ایمبیسیڈر (ر) سید ابرار حسین، وائس چیئرمین آئی پی ایس ؛  پروفیسر ڈاکٹر محمد مشتاق، چیئرمین، شعبہ قانون، میرپور یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (مسٹ)، ایڈووکیٹ ناصر قادری، ڈائریکٹر، ایل ایف کے اور فرزانہ یعقوب، جنرل سیکرٹری، آئی پی ایس ورکنگ گروپ براِئے کشمیر نے بھی خطاب کیا جبکہ  آئی پی ایس کے سینئر ریسرچ فیلوبریگیڈیئر (ر)ڈاکٹر سیف ملک نے تقریب  میں نظامت کے فرائض ادا کیے۔

پروفیسرخورشید احمد نے کشمیر میں روابھارتی مظالم اور اس کے غیر قانونی قبضے کامقابلہ کرنے والےسیدعلی شاہ گیلانی کی استقامت، ثابت قدمی اور مزاحمت کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان کے اس وژن کی نشاندہی کی کہ مرکزی مسئلہ -جس کے لیے کشمیریوں نے اپنی جانیں وقف کیں اور قربانیاں دیں کشمیریوں کا حق خودارادیت اور آزادانہ استصواب رائے ہے جس کے بغیر مسئلہ کشمیر حل نہیں ہو سکتا۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا  کہ کس طرح ماضی اور حال کی پاکستانی قیادت نے اس عظیم رہنما کے مشن اور پاکستان کے سب سے اہم اور دیرینہ مسئلے کے بارے میں اپنی ذمہ داریوں سے غفلت برتی ہے۔ جس کا ایک ہی نعرہ تھا ”ہم پاکستانی  ہیں ، پاکستان ہمارا ہے“ اور جو آج بھی کشمیرکی وادیوں اور اس کی آزادی کےلیے لڑنے والوں کے دلوں میں گونجتا ہے۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ کشمیر کی آزادی کے بغیر پاکستان کی آزادی کا ایجنڈہ نامکمل ہے  اور اس کی تکمیل کے لیے پاکستان کی جانب سے  ایک واضح بیانیے اور نظریے کا ہونا بہت ضروری ہے۔مقبوضہ کشمیرمیں بڑھتی ہوئی بھارتی بربریت اوراس کے جنگی جرائم اس  بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ اس پر متحد ہو کر ایک واضح موقف اختیار کیا جائے۔

پروفیسر خورشید احمد نےاپنا نقطۂ نظر بیان کرتے ہوئےکہا  کہ پاکستان کو کشمیریوں اور آزادی پسندوں کے موقف کا مکمل دفاع کرنا چاہیے، جن پر بین الاقوامی سطح پر تشدد بھڑکانے اور طاقت کے استعمال کا الزام لگایا جا رہا ہے۔ جبکہ، اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق حق خودارادیت کے لیے طاقت کے استعمال کو دہشت گردی اور تشدد کا لیبل نہیں لگایا جا سکتا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اور اس کے عوام کا فرض ہے کہ وہ بین الاقوامی سطح پر کشمیر کے لیے مسلسل اور تعین کیے گئے نقطہ نظر کےمطابق جدوجہد کریں اور سید علی شاہ گیلانی کےاس مشن کو منطقی انجام تک پہنچائیں جس کے لیے کشمیری طویل عرصے سے جدوجہد کر رہے ہیں۔

راجہ ظفر الحق نے  خاص طور پر اگست میں آرٹیکل 360 کی منسوخی کے بعد پاکستان کے  متذبذب اور غیر سنجیدہ کردار پر  مایوسی کا اظہار کیا۔ جبکہ،  بھارت کے اندر سےمختلف سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کی  ایک واضح مخالفت سامنے آئی۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی سطح پر ایسےکئی موقع  آتے ہیں کہ جہاں پاکستان کو فعال طور پر کشمیر یوں کے مؤقف کادفاع کرنا چاہیے۔

خالد رحمٰن نے اپنے اختتامی کلمات میں بُرے طرزِ حکمرانی کوتمام باتوں کی جڑ قرار دیا  جس کے باعث دنیا بھر میں مسائل موجود ہیں۔ ایسے ماحول میں انصاف کے لیے جدوجہد آسان نہیں ہے اور علی  شاہ گیلانی ان تمام پہلوؤں  کو سمجھتے تھے۔ انہوں نے  کہاکہ کشمیر کے اس دیرینہ مسئلے کی وجہ سے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ ایک حقیقی خطرہ ہے۔ جہاں تک اس کے حل کا تعلق ہے، مثالی حل یہی ہے کہ معاملہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق طے کیا جائے۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے