ماہرین کی رائے میں ‘امن۲۰۲۱ ‘ سے غیرروایتی سمندری تحفظ کےخطرات سے نمٹنے کے لیے باہمی تعاون کے طریقہ کارمیں بہتری آئے گی

ماہرین کی رائے میں ‘امن۲۰۲۱ ‘ سے غیرروایتی سمندری تحفظ کےخطرات سے نمٹنے کے لیے باہمی تعاون کے طریقہ کارمیں بہتری آئے گی

کثیر القومی سمندری مشق ‘امن۲۰۲۱’ کی میزبانی پاکستان کے اس ارادے کی عکاسی کرتی ہے کہ وہ بحر ہند کے علاقے میں غیرروایتی سمندری تحفظ کے خطرات سے نمٹنے میں باہمی تعاون کے طریقہ کارکی تعمیر کا خواہش مند ہے جن میں سمندری قزاقی کے اضافے کو روکنے، ماحولیاتی اور سائبر نظام سمیت سیٹلائٹ مواصلات کے نظام کو درہم برہم کرنے کے امکانات پر نظر رکھنے اور سمندری پولیسنگ جیسے کہ غیر قانونی ماہی گیری، اسمگلنگ، منشیات اور انسانی سمگلنگ کے معاملات شامل ہیں۔

یہ وہ نکات ہیں جن پرسمندری امور کے ماہرین اور سیکیورٹی تجزیہ کاروں نے ایک ویبینار میں زور دیا جس کا عنوان تھا ‘Security Cooperation in the Western Indian Ocean Region and Significance of AMAN 2021’ اور جس کی میزبانی انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (IPS) نے 4 فروری ۲۰۲۱ کی تھی۔

اس تقریب کی صدارت سابق ڈپٹی چیف آف نیول سٹاف وائس ایڈمرل (ر) افتخار احمد راؤ اور نائب صدارت آئی پی ایس کے چیئرمین خالد رحمان نے کی۔ آئی پی ایس کی ریسرچ فیلو اور نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز (NUML) میں اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر ملیحہ زیبا خان نے ویبینار میں سہولت کار کے فرائض انجام دیے۔ دیگر مقررین اور مباحثے میں شریک افراد میں قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ ڈیفینس اینڈ سٹریٹیجک اسسٹڈیز کی انچارج ڈاکٹر شبانہ فیاض، بحری امور کے ماہر اور بحریہ یونیورسٹی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر اظہر احمد، نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں شعبہ بین الاقوامی امور کے سربراہ ڈاکٹر خرم اقبال، وائس ایڈمرل (ر) آصف ہمایوں، ریئر ایڈمرل (ر) سلیم اختر، مرزا حامد حسن اور انیلا شہزاد شامل تھے جبکہ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف میری ٹائم افیئرز (NIMA)، میری ٹائم اسٹڈی فورم (MSF) اور دیگر متعلقہ اداروں اور تنظیموں کے متعدد محققین اور تجزیہ کاروں نے اس آن لائن مباحثے میں بھر پور حصہ لیا۔

وائس ایڈمرل (ر) راؤ نے کہا کہ امن مشقوں کی شکل میں بحر ہند میں پاکستان کی طرف سے امن کے لیے اٹھائے گئے اقدامات نے علاقے اور علاقے سے باہر کے تمام بڑے ممالک کے لیے سازگار ماحول پیدا کیا ہے۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ ہندوستان بحر ہند میں غاصبانہ مقاصد کے ساتھخود کو ایک سمندری علاقائی طاقت سمجھنے کی کوشش کر رہا ہے اور وہ بحر ہند میں تزویراتی اہمیت کے حامل مقامات پہ اپنا اثر ورسوخ بڑھانے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ تاہم انہوں نے مزید کہا کہ چین کی فوجی اور معاشی طاقت کی وسعت کی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہے۔

امن مشقوں میں روس کے بحری جہازوں کی طرف سے پہلی دفعہ شرکت پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس کی بے حد سیاسی اہمیت ہے اوراس سے پاکستان اور روس کے مابین دوطرفہ تعلقات کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔

ڈاکٹر خرم نے فورم کو آگاہ کیا کہ چین اور امریکہ کے مابین بڑھتا ہوا مقابلہ جو پہلے بحر الکاہل تک ہی محدود تھا اب بحر ہند تک جا پہنچا ہے جس نے خطے میں طاقت کے توازن کو تبدیل کر دیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہندوستان ایشیاء میں امریکہ کی سجائی ہوئی شطرنج کا سب سے اہم مہرا ہے جس کے ذریعے وہ انڈو پیسیفک میں سجے کھیل میں غلبہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ہندوستان کےیہ توسیع پسندانہ مقاصد پاکستان کے لیے پریشانی کا باعث ہیں جو خطے میں امن و استحکام کو فروغ دینے میں اپنا کردار ادا کررہا ہے۔ چناچہ فریقین میں کسی کی حمایت کرنے کی بجائے پاکستان بحر ہند میں تناؤ کو دور کرنے کے لیے ایک پُل کی حیثیت سے کام کر رہا ہے۔

ڈاکٹر اظہر کا خیال تھا کہ اگرچہ بحر ہند میں بحری قزاقی کی لعنت ختم ہوگئی ہے تاہم بحری جہازوں کی حرکت سے باخبر رہنے کے طریقہ کار کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ سمندری سیکیورٹی ایجنسیوں اور ساحلی محافظوں کے کردار اور صلاحیت کو بڑھانا اہمیت کا حامل ہو گا۔ اس سلسلے میں پاک بحریہ کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان اس وقت بحری قزاقی حملوں کا جواب دینے کے لیے تشکیل دی جانے والی ایک کثیر القومی سمندری ٹاسک فورس ‘ کمبائنڈ ٹاسک فورس 151’ کی کمانڈ کر رہا ہے۔ ان کی رائے میں بحری قزاقی کا حل پریشان حال ممالک میں جغرافیائی سیاسی استحکام میں مضمر ہے اور اس کی مثال صومالیہ ہے۔

ڈاکٹر شبانہ نے بتایا کہ بحر ہند کے خطے میں مقابلہ اور تعاون دونوں ہی موجود ہیں جہاں تزویراتی دائرے میں ہندوستان چین دشمنی ایک کھلا راز ہے۔ نیلے پانی کی بحریہ بننے کی آرزو میں ہندوستان نے امریکہ کی حمایت حاصل کی ہے جو بڑھتے ہوئے چینی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ ان کے بقول بھارتی عزائم کا جواب دینے کے واسطے پاکستان اجتماعی تحفظ کے لیے ترکی ، چین اور روس کے ساتھ تعاون کررہا ہے۔

اجلاس کے اختتام پر خالد رحمٰن نے امن ۲۰۲۱ کو پاکستان کی کامیابی کی داستان قرار دیا جس میں پاکستان کو درپیش خطرات کے باوجود خطے میں پرامن بقائے باہمی کا پیغام دیا گیا ہے۔ انہوں نے امن ۲۰۲۱ کو پاکستان کے دشمنوں کی ناکامی قرار دیا جو عالمی سطح پر پاکستان کو الگ تھلگ رکھنا چاہتے تھے۔ انہوں نے اس مشق کو بحری سفارت کاری کا ایک اقدام قرار دیتے ہوئے سراہا۔

اس موقع پر آئی پی ایس پریس کی حال ہی میں شائع کردہ کتاب ‘ایلیمنٹ آف بلیو اکانومی’ بھی نمائش کے لیے پیش کی گئی جس کے مصنف وائس ایڈمرل (ر) افتخار احمد رائو ہیں۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے