تہذیبی روایات کا مکالمہ

تہذیبی روایات کا مکالمہ

۱۹۷۹ء میںایران کا اسلامی انقلاب کئی پہلوؤںسےامت مسلمہ اور خصوصاً اسلام کی تحریکی فکر رکھنےوالےافراد کےلیےنفاذ اسلام کی ایک نوید بن کر ابھرا۔ تاریخی نقطہ نظر سےعلاماتی (symbolic) خلافت عثمانیہ کےزوال سےجو دور شروع ہوا،اس میںامت مسلمہ اپنےمستقبل اور اختیار و قوت کےدوبارہ حصول کےلیےمسلسل سرگرداںرہی۔ چالیس کی دہائی سےمسلم ممالک میںسیاسی آزادی کا دور شروع ہوا اور یہ امید بندھی کہ پاکستان،انڈونیشیا،مشرق وسطیٰ کےبہت سےممالک،سیاسی آزادی کےساتھ ثقافتی اور نظریاتی آزادی بھی حاصل کر لیںگے،لیکن یہ امیدیںبڑی حد تک ناتمام رہیں۔ اس پس منظر میںایرانی انقلاب اسلامی قوتوںکےلیےغیر معمولی طور پر اپنی جدوجہد پر اعتماد میںاضافہ کا باعث بنا۔ تحریکات اسلامی کےقائدین نےنہ صرف ذاتی بلکہ اجتماعی طور پر ایران میںطاغوتی ملوکیت کےخاتمہ اور اسلامی نظام کےقیام کےعزم کو خوش آ۔مدید کہتےہوئےنمائندہ افراد کےوفد کی شکل میںتہران جا کر امام خمینی کو اپنی حمایت کا یقین دلایا۔ یورپ اور امریکہ میںبسنےوالےمسلمانوںنےیہ جاننےکےباوجود کہ وہ ایک غیر اسلامی معاشرہ  میںزندگی گزار رہےہیں،اسلامی انقلاب کی کھل کر حمایت کی۔
یہ انقلاب ان قوتوںکےلیےسخت تشویش کا باعث بنا جو ایران کو اپنی بین الاقوامی سیاست کا سب سےزیادہ مستحکم ستون سمجھتےتھے۔ فرانس کو چھوڑتےہوئےیورپ و امریکہ کےبیشتر ممالک نےاسےلادینی جمہوریت،اباحیت اور مغرب زدگی کےلیےایک ’’بنیاد پرست‘‘ خطرہ قرار دیتےہوئےپورےخطےکےلیےایک نئی حکمت عملی وضع کرنی شروع کی۔ اسی دوران ایرانی طلبہ کی جانب سے(پا سدارانِ انقلاب کےتعاون سے) امریکی سفارت خانےکےعملےکو یرغمال بنانےکےواقعہ نےایران کےخلاف امریکی جذبات کو مشتعل کرنےاور ایران میںامریکہ کےخلاف نفرت اور غصہ کو بھڑکانےمیںجلتی پر تیل کا کام کیا۔ ممکن ہےکہ یہ واقعہ بعض قوتوںکےلیےایک منطقی ضرورت ہو لیکن اس ایک واقعہ کےاثرات معاشی،سیاسی اور جذباتی سطح پر ایران کےحوالےسےپورےعالم اسلام پر پڑے۔ اس مفروضہ کو حقیقت مانتےہوئےکہ اسلام اور مغربی سامراجی طاقتوںکےدرمیان کوئی مکالمہ،تبادلہ خیال،اظہار قوت کےعلاوہ نہیںہو سکتا،نہ صرف ایران بلکہ دیگر مسلم ممالک کےخلاف  بھی معاشی اور سیاسی پابندیوںکا حربہ استعمال کیا گیا۔
اس حکمت عملی کا ردعمل واضح تھا۔ چنانچہ ہر دو جانب سےزبانی جنگ اور موقع ملنےپر ایک دوسرےکو زک پہنچانےکی کوششیںہوتی رہیںلیکن اس کےساتھ ساتھ اس دوران میںنہ صرف مغربی سامراج بلکہ خود ایران میںزمینی حقائق کےپیش نظر ایک نئی حکمت عملی وضع کرنےپر بھی غور ہوتا رہا۔ داخلی حالات نےاس بات  کی اجازت نہ دی کہ یہ عمل سرعت سےہو،لیکن نئی صدی کےآغاز پر صدر خاتمی کی ایرانی قیادت نےغیر معمولی ہمت کا مظاہرہ کرتےہوئےچھوٹےاور بڑے’’شیاطین‘‘ کےساتھ بھی مکالمہ کو ممکن قرار دیتےہوئےاس عمل کےآغاز کی طرف پیش قدمی کا اعلان کیا۔
مغربی سامراج اور اہلِ فکر نےبھی اس دوران اپنےموقف پر واضح نظرثانی کی کوشش کی۔ چنانچہ ایران کی قیادت کومخاطب کرتےہوئےکہا گیا کہ ’ماضی کی تلخ یادوںکو دفن کیا جائےاور اگر ایران نئی صدی میںکوئی تعمیری کردار ادا کرنا چاہتا ہےتو عالمگیریت (globalization)کی حقیقت کو مانتےہوئےاپنےرویہ میںتبدیلی کرے،نعروںکی نفسیات سےاپنےآپ کو آزاد کرے،اپنےتیل کےذخائر پر بےجا اعتماد و فخر پر نظرثانی کرے،اپنےعوامی کی معاشی ضروریات کو پورا کرنےکےلیےمغرب کےساتھ تجارتی تعاون پر غور کرےاور خاص طور پر خود پیدا کردہ اندرونی معاشی اضمحلال کو کسی بیرونی ’’شیطان‘‘ کےسرمنڈھنےکی کوشش ترک کرے‘۔ مغربی پالیسی سازوںکا کہنا یہ ہےکہ تیل فروخت کرنےوالی اقوام کو تیل خریدنےوالی اقوام کی خواہشات کا احترام کرنا ہو گا اور [نام نہاد] جدید معاشی نظام (N.E.O)میںاپنا مقام پیدا کرنےکےلیےاسےاپنی انا کا مسئلہ بنائےبغیر بعض بنیادی سمجھوتے(adjustment)کرنےہوںگے۔
ابھی حال ہی میںایران کی وزارتِ خارجہ کےزیر اہتمام تہران میںمنعقدہ ایک بین الاقوامی کانفرنس میںشرکت کےدوران میںنےمحسوس کیا کہ ایران کےپالیسی ساز تحمل اور صبر کےساتھ مغربی مفکرین کےان خیالات کو سننےکےبعد ایک نسبتاً زیادہ عملی (pragmatic) حکمت عملی وضع کرنےپر آمادہ نظر آ رہےہیں۔اسلامی فقہ کا ایک مستقل مضمون سیاست شرعیہ ہےجس کا مقصد بھی یہ ہےکہ بدلتےحالات میںشریعت کےابدی،کلی اور جامع اصولوںکی مدد سےکس طرح ایک نئی صورت حال کا حل تلاش کیا جائے۔ مصلحت عامہ کا اصول بھی (جسےمصالح مرسلہ بھی کہا جاتا ہے) وسیع ترحکمت کےپیش نظر،شریعت کی بالادستی قائم رکھتےہوئے،ایک صورت حال کا حل تلاش کرنےمیںمدد کرتا ہے۔
بہ ایںہمہ اس طرح کی صورت حال میںچند بنیادی سوالات زیادہ اہمیت اختیار کر جاتےہیں۔ اولاً ایک نظریاتی انقلاب کی مدعی جماعت کےلیےاصل اہمیت طویل المیعاد ہدف و حکمت عملی کی ہےیا قلیل المیعاد اور فوری حصول منفعت کی؟ اور کسی فوری اور قلیل المیعاد مقصد کےحصول کےلیےکس حد تک اصل ہدف کو وقتی طور پر نظرانداز کیا جا سکتا ہے؟ ثانیاً عملیت پسندی (pragmatism) کی سرحدیںکہاںتک ہیں؟ ایک حدیث نبویؐ میںجہاںحلال اور حرام کےبیّن ہونےکےساتھ ساتھ مشابہات سےاعراض کا حکم دیا گیا ہے،اس کی روشنی میں’’اضطرار‘‘ اور ’’ضرورت‘‘ کی حدود کا تعین کس طرح کیا جائےگا؟ ثالثاً مادی طور پر ایک مستحکم فریق کےساتھ مادی طور پر ایک غیر مستحکم فریق کےمکالمہ اور احترام مفادات کی شکل کیا ہو گی؟
یہ امر بھی غور و فکر کا متقاضی ہےکہ عالمگیریت (globalization) اور یک قطبی (unipolar) قوت ہونےکی دعوےدار ریاست کےساتھ معاشی تعلقات کا تانا بانا کیا صرف معیشت کےمیدان تک محدود رہےگا یا غالب معاشی قوت کی ثقافت اس کی اقدار حیات،اس کا طرزِ زندگی اور مقصد حیات،محسوس اور غیر محسوس اثرات بھی معاشی سرگرمی اور تعلقات کےہمراہ سرحدیںپار کر کےکم ترقی یافتہ ممالک پر اثر انداز ہوںگے؟ حقیقت واقعی یوںہےکہ ابلاغ عامہ کےانقلاب نےجغرافیائی سرحدوںکو اضافی بنادیا ہےاور ثقافتی اثرات،ایسےمقامات پر بھی جن کےنظریاتی ثقل کو بطور مثال پیش کیا جاتا ہے،دیکھنےمیںآ رہےہیں۔ ایک معمولی مشاہدہ جو میںنےخود کانفرنس کےدوران کیا تھا کہ بعض ایرانی خواتین روایتی ’’مانتو‘‘ (سیاہ چادر) تو لازماً استعمال کر رہی تھیں،جس سےوہ تمام شرعی تقاضےپورےہو رہےتھے،جو ایک مسلمان خاتون کی پہچان کہےجا سکتےہیں،لیکن گزشتہ دس سال کےعرصہ میںاس چادر کی پیمائش میںقابل محسوس فرق واقع ہوا ہے۔ انقلاب کےفوراً بعد یہ ٹخنوںبلکہ پاؤںتک تھی جب کہ آج یہ نصف پنڈلی پر آ گئی ہےجس کی بنا پر jeans جو پہلےمکمل طور پر چھپ جاتی تھی،غیر ثقافت کےاثرات کی چغلی کرتی نظر آتی ہے۔ (یہاںیہ بات واضح کر دینےکی ضرورت ہےکہ شریعت نےحجاب کےدائرہ میںجینز پہننےکی ممانعت نہ پہلےکی تھی نہ اب کرتی ہے،یہاںصرف اس پہلو کی طرف اشارہ مقصود ہےکہ وہ شدت جو بہرصورت دین کا جزو پہلےبھی نہ تھی اب وسعت میںتبدیل ہوتی نظر آتی ہےاور اس بنا پر ان طبقات کی پریشانی،جو دین کو غلو اور شدت ہی کےتناظر میںدرست سمجھتےہیں،کسی تعارف کی محتاج نہیں۔)
ایرانی طرز عمل اور طرز فکر میںمحسوس یا غیر محسوس طور پر سامنےآنےوالی اس تبدیلی کےمثبت اور منفی اثرات نہ صرف ایران بلکہ ان تمام افراد پر پڑیںگےجو ایران کےانقلاب کو ایک شیعی انقلاب کےتصور سےبلند ہو کر عالمی تناظر میںاسلام اور طاغوت کی کشمکش کا مظہر سمجھتےرہےہیں۔ واضح رہےکہ قدامت پسند لیکن با اختیار حلقوںمیںایسی کسی تبدیلی کی مضبوط مخالفت بھی موجود ہے۔ خود تحریکات اسلامی کےلیےبھی یہ صورت حال لمحہ فکریہ فراہم کرےگی کہ نظریہ سےمکمل وفاداری اور اصولیت کےباوجود وہ کون سےدائرےہیںجہاں’’عملیت‘‘ اختیار کرنی ہو گی اور کس طرح ایک ایسی حکمت عملی وضح کی جائےگی جو تحریکات اسلامی کی نظریاتی اساس اور امتیاز کو تحلیل کیےبغیر ان کےدور رس اہداف کےحصول میںمددگار ہو سکے۔
اسلام کا مزاج اصلاً دعوتی اور اصلاحی ہےاس لیےمکالمہ اس کی بنیادی ضروریات میںشامل ہے۔ حتیٰ کہ اسلام کےسخت ترین دشمن سےبھی مکالمہ کےذریعہ تعلق پیدا کرنا فرائض دعوت میںشامل ہے۔ اس کی واضح مثال اﷲ تعالیٰ کا اپنےسچےرسول حضرت موسیٰ علیہ اسلام سےیہ کہنا ہےکہ جاؤ اور فرعون کو دعوت اسلام دو،وہ حد سےگزر گیا ہے،اور یہ بات بھی واضح فرما دی تھی کہ اس مکالمہ کا مزاج اور انداز متشدد نہ ہو بلکہ ’’قولِ لیّن‘‘ انتہائی مناسب اور نرم انداز گفتگو اختیار کیا جائےتاکہ وہ ہدایت کی طرف آ سکے۔ گویا شرک اور طاغوت سےنفرت تو کی جائےگی لیکن مشرک اور طاغی کو مسلسل مکالمہ کےذریعہ حق کی دعوت دی جاتی رہےگی،یہاںنفرت شرک سےہےمشرک سےنہیں۔
مغرب سےجس مکالمہ کی طرف صدر خاتمی نےاپنی متعدد گفتگوؤںمیںاشارہ کیا ہے،ہمیںاس کی اخلاقیات کےتعین کےلیےبھرپور طور پر،قرآن و حدیث سےمدد لینی ہو گی اور واضح اصول اور نظریاتی بنیادوںپر اس کےخدوخال کا تعین کرنا ہو گا۔ اسلام کا دعوتی مزاج مطالبہ کرتا ہےکہ اسلامی فکر و عقیدہ،ثقافت اور معاشرت کی ترویج و تحفظ پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہ کیا جائے،ہاںفکر و عقیدہ کی مکمل آزادی کےساتھ دیگر اقوام اور تہذیبوںکےساتھ پُر اعتماد طور پر مکالمہ و تبادلہ خیالات اسلامی دعوت کےمنشور کا لازمی جزو ہے۔ چنانچہ اہل کتاب کےحوالہ سےقرآنی تعلیم کا خلاصہ یہ ہےکہ آؤ اےاہل کتاب ہم کیوںنہ ایک مشترک بنیاد سےاس مکالمہ کا آغاز کریںاور دیکھیںکہ کن معاملات میںتعاون ہو سکتا ہےاور کن معاملات میںاختلاف کےباوجود ایک احترام کا تعلق قائم کیاجا سکتا ہے۔ اس مکالمہ کو نظری سطح سےآگےبڑھاتےہوئےمعاشرتی سطح پر قیامت تک کےلیےعملاً قائم کر دیا گیا اور نہ صرف اہل کتاب کےساتھ بیٹھ کر کھانا کھانےکو،جو مکالمہ اور تبادلہ خیالات کا ایک موثر ذریعہ ہے،جائز قرار دیا گیا  بلکہ ان کےساتھ معاشرتی تعلق،جس میںسب سےزیادہ قریبی تعلق شوہر اور بیوی میںہو سکتا ہے،ممکن قرار دیا گیا۔ چنانچہ مسلمان مرد کو کسی اہل کتاب خاتون سےنکاح کی اجازت اس جانب ایک مثبت اور عملی اقدام کی حیثیت رکھتی ہے۔ یاد رہےکہ اس کےساتھ ساتھ اسلام کی نظریاتی سرحدوںکی حفاظت اور عقیدہ کےتحفظ کےلیےایک مومنہ کےکسی اہل کتاب مرد سےنکاح کی ممانعت بھی کر دی گئی ہے۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے