تحریکات اصلاح اور تجدید و احیائےدین کی صدی

تحریکات اصلاح اور تجدید و احیائےدین کی صدی

سنہ دو ہزار عیسوی کےآغاز کا استقبال بڑےاہتمام کےساتھ مغربی دنیا میںکیا گیا۔ بہت سےجرائد نےاپنےاپنےخصوصی تجزیاتی شمارےنکالےجن میںبیسویںصدی میںعلم و فن،سائنس اور ماحولیات کےحوالےسےجائزہ لےکر آئندہ دس سال میںمتوقع تبدیلیوں کی طرف نشان دہی کی گئی۔ مسلم دنیا میںبھی شروع ہونےوالی صدی عیسوی کی کسی مذہبی اہمیت نہ ہونےکےباوجود اس طرح گفتگو کی گئی جیسےدنیا پتھر کےدور سےاچانک ایٹمی توانائی کےدور میںداخل ہونےوالی ہو۔ بلاشبہ ہر آنےوالی صدی بلکہ ہر نیا لمحہ اپنےساتھ نئےمطالبات لاتا ہےاور اہل دانش کو دعوت دیتا ہےکہ وہ خود احتسابی کےعمل کےساتھ ماضی کا جائزہ اور مستقبل کےاندیشوںاور رجحانات کا تعین کریں۔ نئی صدی عیسوی کےآغاز پر گفتگو کرتےوقت یہ بات آغاز میںہی واضح ہو جانی چاہیےکہ اسلامی آثار و روایات میںاس کی نہ کوئی اہمیت ہےنہ مقام،ہاںاسرائیلی،اسماعیلی اور بہائی روایات میںہر صدی یا ہزار سال کےحوالےسےپیشین گوئیاںپائی جاتی ہیں۔
ہماری نگاہ میںتکمیل پانےوالی صدی کا ایک اہم پہلو یہ ہےکہ اس میںامت مسلمہ کو مغربی استعمار سےسیاسی حریت کا موقع ملا اور استقلال کےبعد عملاً تمام مسلم ممالک بلکہ خود ان ممالک میںبھی جو کل تک مسلم دنیا کو استحصال کا نشانہ بنائےہوئےتھے،اسلامی،احیائی اور اصلاحی تحریکات کا قیام عمل میںآیا۔ چنانچہ مصر،شام،فلسطین،عراق،ترکی،برصغیر پاک و ہند،الجزائر،سوڈان،ایران اور انڈونیشیا میںتحریکات اصلاح نےمغربی استعماری نظام کی روایت کو تبدیل کرنےکےلیےمثبت اور تعمیری حکمت عملی وضع کرتےہوئےاسلامی نظام معیشت و سیاست اور معاشرت و قانون کو نافذ و رائج کرنےکےلیےفکری اور عملی سطح پر اپنی جدوجہد کا آغاز کیا۔ یوںیہ صدی تحریکات اصلاح و تجدید و احیائےدین کی صدی قرار دیےجانےکی مستحق ہے۔
اس صدی میںخصوصاً برصغیر پاکستان،مصر،ترکی اور سوڈان میںاسلامی نظام حیات کےنفاذ میںنہ صرف تعلیم یافتہ افراد اور اصحاب دانش نےبلکہ عوام الناس نےآگےبڑھ کر حصہ لیا اور گزرنےوالی صدی کےنصف تک یہ فکر عالمی سطح پر پھیل گئی۔ ان تحریکات اصلاح نےمغربی سامراج کی سیاسی،معاشی،قانونی اور ثقافتی غلامی کےخلاف علمی اور عملی طورپر جہاد کےساتھ امت مسلمہ کی فکری قیادت کا بیڑا اٹھایا چنانچہ بیسویںصدی سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ،امام حسن البنا شہیدؒ،عبدالقادر عودہ شہیدؒ،استاذ قطب شہیدؒ،امام خمینیؒ،علی شریعتیؒ،مالک بن نبی استاذ سعید نورسی،ڈاکٹر محمد ناصر جیسےاصحاب علم و فضل کی فکر سےمعطر رہی۔ گو بعض علماء نےروایتی فکر خصوصاً تاریخ نگاری میںاہم اضافےکیےاور مسلمانوںکی فکری تاریخ کو تحقیق اور سلیقےکےساتھ پیش کیا لیکن وہ کوئی عصری اصلاحی اور اجتہادی تحریک برپا نہ کر سکے۔ ایںسعادت بزور باز و نیست ۔۔ تانہ بخشند خدائےبخشندہ۔
ہماری نگاہ میںتحریکات اصلاح کی سب سےنمایاںخصوصیت دعوت و اصلاح کےمیدان میںاجتہاد کےاصول پر عمل درآمد ہے۔ چنانچہ ان تحریکات نےاپنا شعار قرآن و سنت سےبراہِ راست استدلال کو بنایا۔ جس طرح امام ابن تیمیہ نےروایتی چار مصادر شریعہ پر غور کرتےوقت صرف اولین دو مآخذ کو بنیاد بنا کر فقہ میںتدوین کا کام کیا تھا بالکل اسی طرح ان تحریکات نےمعاشی،سیاسی،معاشرتی اور ثقافتی دائروںمیںاجتہاد کو اپنا اصول قرار دیا۔ سیاسی جدوجہد کےپس منظر میںکہیںان تحریکات نےمروجہ نظام میںرہتےہوئےنظام کی تبدیلی چاہی اور کہیںمعیشت،سیاست،تعلیم اور قانون میںمتبادل نظام کےلیےدیگر ذرائع کو استعمال کرنا چاہا۔ پاکستان،سوڈان،الجزائر،اردن اور ترکی اس کی واضح مثالیںہیں۔ بنیادی طور پر دستوری ذرائع انقلاب کو ماننےکےباوجود تحریکات اصلاح نےبعض صورتوںمیںاپنےکارکنوںکو مدافعانہ فنون (Marshall Arts)کی تعلیم اور جسمانی تربیت کےمواقع فراہم کرنےکےساتھ عملاً جہاد میںحصہ بھی لیا چنانچہ اخوان المسلمون نےسیاسی طور پر انتخابات میںاور عملی طور پر جہاد فلسطین میںسرگرمی سےحصہ لیا جس کی بنا پر مصر کی فوجی حکومت نےانہیںفوج کا ممکنہ حریف سمجھتےہوئےانتقام کا نشانہ بنایا۔
الجزائر کی جنگ آزادی میںفرانسیسی سامراج کی مخالفت کرتےہوئےوہاںکی تحریک اسلامی نےبھرپور جدوجہد کی لیکن پاکستان،سوڈان اور ترکی میںتحریکات اسلامی نےقوت کےاستعمال سےمکمل طور پر احتراز کرتےہوئےدستوری ذرائع کو استعمال کیا۔ ان تحریکات اصلاح کا دین و سیاست کو دو الگ بلکہ متضاد دائرےسمجھنےکی روایت سےانحراف ایک اجتہادی عمل تھا اور اسی بنا پر روایتی مذہبی گروہوںاور جماعتوںنےان تحریکات اصلاح کےسیاسی جھکاؤ کو ’’دین کی سیاسی تعبیر ‘‘ یا ’’تعبیر کی غلطی‘‘ سےمنسوب کیا۔ ہمارےخیال میںروایت پرست مذہبی فکر کےعلمبرداروںکا ایسا کرنا روایت پرستی کےتناظر میںایک فطری اور منطقی عمل کہا جا سکتا ہے۔
امت مسلمہ کےسیاسی اور عسکری زوال کےنتیجہ میںجو رجحانات اٹھارہویںصدی اور بیسویںصدی میںسطح پر ابھرےان میںکم از کم تین قابل ذکر ہیںاولاً یہ تصور کہ زوال کا اصلی سبب فرد کےنفس کا فتنہ ہےاس لیےاگر فرد کا تزکیہ ہو جائےتو معاشرہ خود بخود اصلاح حاصل کر لےگا۔ ثانیاً یہ نظریہ کہ اسلام بحیثیت ایک مذہب،باطل نظام اور اس کےاہل کاروںکےساتھ تعاون کرنےسےنہیںروکتا اس لیےجب تک کسی خطہ میںمسلمانوںکو ’’مذہبی آزادی‘‘ حاصل ہے،نظام حکومت سےٹکر لینا،اسےتبدیل کرنا یا متبادل نظام پیش کرنا ایک ایسی سیاست ہےجو اسلام کی روح کےمنافی ہے۔ ایک تیسرا تصور یہ ابھرا کہ اسلام ایک جامع اخلاقی نظام ہےاور اسلامی اخلاق کا دائرہ کار محض مسکرا کر نرم انداز میںبات کرنےتک محدود نہیںبلکہ معاشی،اخلاقی،معاشرتی عدل اور ذمہ دارانہ اور دیانتدارانہ سیاست اور غیر استحصالی معیشت کےقیام و نفاذ کی کوششوںتک پھیلا ہوا ہے۔ اس لیےنظام کی تبدیلی کےبغیر تنہا ایک فرد بھی اپنےمعتقدات،معیشت اور ثقافت پر عمل نہیںکر سکتا۔ یہی رجحان تھا جسےتحریکات اصلاح نےعلمی اور عملی طور پر اختیار کیا۔ اس رجحان میںروایتی مذہب اور انفرادی تصور مذہبیت سےبغاوت کےآثار واضح ہونےکی بنا پر روایتی مذہبیت کی نمائندہ جماعتوںاور مشائخ و علماء نےوہ مصر ہو یا شام،پاکستان ہو یا سوڈان،اس رجحان کی مخالفت کی۔ چنانچہ تبلیغی جماعت کی فکر سےوابستہ افراد نےخصوصاً اور دینی مدارس سےوابستہ افراد نےعموماً اپنی روایت پرستی،تقلید،اپنےمشائخ و علما کی غیر مشروط پیروی،جسےعموماً سلف کی محبت سےتعبیر کیا گیا،کی بنا پر اصلاحی تحریکات کےاجتہادی مسلک کو سخت نا پسندیدگی کی نگاہ سےدیکھا اور روایتی مذہب سےانحراف قرار دیا۔
اصل سبب یہ تھا کہ غالباً روایت پرست طبقات کےنزدیک ان کےعلاوہ کسی اور کا اجتہاد کرنا ایک ناقابل قبول جسارت تھا۔ ان کا سرمایہ افتخار،روایت پرستی کی روح کےمطابق اسلاف کےعمل و فکر سےمکمل مطابقت پیدا کرنا تھا جبکہ تحریکات اصلاح،قرآن و سنت کو رہنما اور خلافت راشدہ اور دور صحابہ کو بطور ایک مثال تسلیم کرتےہوئےاجتہاد کی مدعی تھیں۔
عوام الناس پر ان رجحانات کےعموماً تین ردعمل ہوئے۔ ایک طبقہ نےروایت پرستی کےزیر اثر تحریکات اصلاح کو محض سیاسی نعرہ اور اسےحصولِ اقتدار کی ہوس سےتعبیر کیا۔ دوسرےطبقہ نےدور جدید میںتجدید اور احیائےدین کو مغرب میںمذہب کےانجام کےپیش نظر ناقابل قبول عمل سمجھا لیکن ایک محدود مگر جدید تعلیم یافتہ طبقےاور دینی  تعلیم یافتہ افراد کی ایک قلیل تعداد نےتحریکات اصلاح کو اس دور کی ضرورت سمجھتےہوئےاس میںشمولیت یا اس کی حمایت کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ پاکستان ہی نہیںمصر،شام،سوڈان،ترکی،الجزائر اور دیگر ممالک میںبھی بڑی حد تک ردعمل کی نوعیت یہی رہی۔
تحریکات اصلاح و تجدید کی جانب سےقرآن و سنت کی طرف رجوع کرنےکی دعوت کو مغربی مستشرقین نےایک بالکل مختلف زاویےسےدیکھا۔ ان کےخیال میںقرآن و سنت کی طرف بلانےکی ہر دعوت رجعت پسندی،ماضی پرستی بلکہ بنیاد پرستی کی دعوت تھی اس لیےتحریکات اجتہاد و جہاد اور اصلاح کو پہلےبنیاد پرستی سےمنسوب کیا گیا اور پھر بنیاد پرستی کی تمام منفی صفات کو ان تحریکات کےساتھ منسلک کر دیا گیا۔ مغربی مستشرقین کےلیےتحریکات اصلاح و جہاد کا سیاسی منہج غیر معمولی پریشانی کا باعث رہا چنانچہ ان تحریکات اصلاح کےحوالےسےیہ بات کہی گئی کہ اگر یہ برسراقتدار آجائیںگی تو مغربی جمہوریت کا تقدس خاک میںمل جائےگا۔ حریت نسواںکی تحریک ماضی کی طرف پلٹ جائےگی۔ اسلام کو بطور ایک آلہ واردات کےاستعمال کیا جائےگا اور فکری آزادی پر قدغن کےساتھ دیگر مذاہب کےماننےوالوںکی حریت غلامی اور استحصالی میںتبدیل ہو جائےگی۔ سیکولرازم پر اپنےایمان با الغیب کےاظہار کےساتھ مغربی مستشرقین نےاسلام کو سیکولر عقیدہ کا متشدد دشمن بنا کر پیش کیا جس کےنتیجہ میںمغرب کےایک قاری کےذہن میںاسلام کی شبیہ ایک تہذیب دشمن اور مغرب کش انتہا پسند مذہب کی بنا دی گئی۔
دوسری جانب جمہوریت اور سیکولرازم سےاپنی تمام تر محبت و عقیدت کےباوجود مغربی سیاست کاروںاور مستشرقین نےمسلم ممالک میںان تمام فرمانبرداروںکی کھلم کھلا بلکہ بےحیائی کےساتھ حمایت کی اور ہر ممکن امداد فراہم کی،جو فوجی آمریت یا موروثی بادشاہت کےعلمبردار تھے۔ چنانچہ اردن،مراکش،سعودی عرب،ایران اور امارات میںغیر جمہوری موروثی نظام کےہر علمبردار کی مکمل پشت پناہی کےساتھ مصر،عراق،شام،ترکی،الجزائر وغیرہ میںفوجی آمروںکو برسراقتدار لانےاور قائم رکھنےکےلیےہر حربہ استعمال کیا گیا۔ تاریخ کےایک غیر جانب دار طالب علم کےلیےیہ دو رخا پن اخلاقی اور عقلی طور پر ناقابل تعبیر ہے۔ اسےاس بات پر دکھ ہوتا ہےکہ دوسروںکو جمہوریت کا سبق دینےوالوںکو کبھی آئینےمیںاپنی صورت دیکھنےکا خیال تک نہ آیا۔ چنانچہ اگر الجزائر میںجمہوریت کی آمد کا امکان ہوا بھی تو امریکی سامراج نےجمہوری قوتوںکو فوج کی آمرانہ قوت کےذریعےبرسوںپیچھےدھکیل دیا۔ اس صدی کےجن دیگر اہم واقعات نےمغرب اور اسلام کےتعلقات پر اثر ڈالا ان میںایران میںبادشاہت کےخلاف انقلاب اور امریکی سفارت کاروںکا یرغمال بنایا جانا قابل ذکر ہے۔ عالمی طور پر مسلمان اور اسلام کی تصویر کشی میںاس واقعہ کا کردار بڑا اہم رہا۔ انقلاب کےبیس سال بعد نئی صدی کےآغاز میںمغربی مفکرین اور سیاست کار آخر کار مذہبی رواداری رکھنےوالےایرانی قائدین سےتعلقات استوار کرنےپر آمادہ نظر آ رہےہیں۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے