لادینیت، بنیاد پرستی اور ترقی

لادینیت، بنیاد پرستی اور ترقی

مغرب کی فکری اور ثقافتی تاریخ کےمنطقی اور ارتقائی ادوار میںروایتی مذہب پرستی سےانحراف وبغاوت کی تحریک میںلادینیت (secularism)عقلیت(rationalism)  اور علمیت(scientism) کا کردار غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ بظاہر جو خلا روایتی مذہب پرستی کےزوال سےپیدا ہوا وہ لادینیت،عقلیت اور سائنسی فکر نےفلسفیانہ اور عملی سطح پر پُر کیا۔ نتیجتاً مغرب کی مذہبی فکر بھی،جو صدیوںسےاندھےعقیدےکی قائل تھی،اپنےبنیادی معتقدات کی تقویت کےلیےفلسفہ اور معقولات کی طرف مائل ہوئی۔ دور جدید میںڈیکارٹس،برکلےاور ولیم جیمس جیسےمفکرین نےواضح طور پر مذہبی فکر کو فلسفیانہ بنیادیںفراہم کیں۔ لیکن جلد ہی سائنسی اور لادینی تصورات نےمعاشی،معاشرتی،سیاسی،تعلیمی،ثقافتی اور قانونی سرگرمیوںکو مذہبی اثرات سےپاک کرنا شروع کیا اور مذہب محض ہفتہ میںایک دن گرجا کی رسمی عبادت تک محدود ہو کر رہ گیا۔
سولہویںصدی سےیورپ میںلادینیت کےفروغ نےنہ صرف یورپ بلکہ مغربی ذہن میںیہ بات راسخ کر دی کہ تہذیبی ترقی اور معاشی کامیابی کا راز مذہب کی بندشوںسےآزادی اور لادینیت کو اپنا مذہب بنانےمیںہے۔ چنانچہ ترقی اور جدیدیت کی راہ میںروایت پرستی اور مذہب کو اپنی سب سےبڑی رکاوٹ سمجھتےہوئےمعاشرتی،معاشی اورسیاسی سرگرمیوںکو نئےتصور حیات کی روشنی  میںترتیب دیا گیا۔ یہی فکر مغربی استعمار کےساتھ ان تمام خطوںمیںپہنچی جو ان کےزیرنگیںآئے۔ چنانچہ شمالی افریقہ،ایشیا اور مشرق وسطیٰ میںجہاںکہیںبھی مغربی سامراج کا تسلط ہوا،لادینی نظامِ تعلیم اور نظامِ معیشت ومعاشرت کو فروغ دیا گیا اور مقامی تہذیب وروایات کو ترقی کےعمل میںایک رکاوٹ قرار دیتےہوئےحقارت کی نگاہ سےدیکھا گیا۔ کل تک جو شخص اپنی عربی اور فارسی دانی یا ترکی اور سواحلی زبانوںپر عبور کےسبب عالم سمجھا جاتا تھا مغرب کےلائےہوئےنظام تعلیم ومعاشرت وسیاست کےپیمانوںسےایک ان پڑھ،غیر ترقی یافتہ،پسماندہ اور ماضی پرست انسان قرار پایا۔
مغربی مستشرقین اوران کےمسلم تلامذہ نےلادینیت کو ایک نسخہ کیمیا اور ترقی کےعمل کےلیےلازمی شرط کےطور پر پیش کرنا شروع کیا اور دیکھتےدیکھتےبہت سےمسلم ممالک کےسربراہان نے،جن میںاکثر مغربی تعلیم یافتہ اور مغربی تہذیب کےدلدادہ تھے،مغربی لادینیت کو اپنےممالک میںنافذ کرنےکےلیےاقدامات شروع کر دیے۔ ترکی،مصر،شام،عراق،شرق اردن،الجزائر،مراکش،تیونس ،ایران غرض اکثر مسلم ممالک نےسیکولرزم کو قدامت پرستی،جمود،رجعت پسندی اور مذہبیت سےنجات حاصل کرنےکا واحد راستہ سمجھتےہوئےلادینی نظریۂ حیات کو ریاستی سطح پر رائج  ونافذ کرنا شروع کیا۔
اس تاریخی فکری تناظر میںاگر معروضی طور پر دیکھا جائےتو مغرب نےجن اقدار کو رجعت پسند،قدامت پرست،غیرعقلی اور غیر منطقی قرار دیا وہ دراصل مغربی عیسائیت کا وہ نظام کلیسا تھا جس نےعقل،تجربہ،مشاہدہ،تجزیاتی اور تحلیلی فکر کو رد کرتےہوئےاپنی فکر کو چند الٰہیاتی موضوعات تک محدود کر لیا تھا۔ چنانچہ حضرت عیسیٰ کا مصلوب ہونےاور دفن ہوجانےکےتین دن بعد حواریوںکےساتھ کھانےمیںشرکت کرنےکےبعد غائب ہو جانا،ان کی شخصیت میںروح القدس ’’بیٹے‘‘ اور خدا کا یوںحلول کر جانا کہ تینوںمیںتفریق  و تقسیم باقی نہ رہےاور ایک ’’وحدانیت‘‘ وجود میںآجائے،حضرت عیسیٰ  ؑکی ذات کےذریعے’’نجات‘‘   (redemption) کاحصول اور دیگر الہیاتی موضوعات جن کی کوئی عقلی توجیہ بظاہر ممکن نہ تھی عیسائیت کی غالب فکر بنےہوئےتھے۔ جدید فکر نےانہی موضوعات کو نشانۂ تنقید بناتےہوئے،سائنس،مادہ،اور عقل کی تثلیث سےکلیسا کےتصور تثلیث کو تبدیل کرتےہوئے،ان تینوںعناصر سےمرکب لادینیت کو اس کےمتبادل کےطور پر میدان عمل میںپیش کیا۔ کلیسا کےاندھےعقیدہ کےمقابلہ میںلادینیت کےمادی اثرات زیادہ قابل محسوس تھےاس لیےجدید انسان نےبآسانی لادینیت کو بطور ایک نئےنظریہ حیات کےاحساس فخر و کامیابی کےساتھ قبول کر لیا۔
کلیسا کی گرفت سےنکلنےکےبعد مغرب میںجو سائنسی اور مادی ترقی ہوئی اسےاس عمل کا منطقی نتیجہ سمجھتےہوئےایک عمومی تصور کی شکل دےدی گئی اور نہ صرف مغرب بلکہ تمام انسانوںکےلیےاسےایک کلیہ قرار دیتےہوئےمذہب کو ماضی پرستی  اور سائنس ومادیت کو روشن مستقبل کےلیےلازم سمجھ لیا گیا۔ مغرب کی اس فکر کو ترکی،مصر،الجزائر،اور ایران کےساتھ ساتھ خود برصغیر میں بھی متعارف کیا گیا۔ برصغیر پاکستان میںاس غرض سےمغربی سامراج کےزیر تسلط نظام تعلیم و معیشت  ومعاشرت کو بتدریج تبدیل کیا گیا جب کہ بعض دیگر مقامات پر زیادہ سرعت کےساتھ یہ تبدیلی عمل میںلائی گئی۔ ترکی ا س کی نمائندہ مثال ہے۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے