وفاقی بجٹ 2020-21: تاثرات اور محاصلات

وفاقی بجٹ 2020-21: تاثرات اور محاصلات

 وفاقی بجٹ 2020-21 جدّت پسندانہ تخلیقی سوچ اور کسی جامع حکمتِ عملی سے عاری ہے۔ ماہرینِ معاشیات

ملک بھر میں کورونا وائرس کا اچانک اتنا تیز پھیلاوّ  گورننس کی کمزوری کو عیاں کرتا ہے جبکہ پیٹرول، گندم اور چینی کے حالیہ بحرانوں نے بھی حکومتی دعووں کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ حالیہ پیش  کیا جانے والا وفاقی بجٹ 2020-21  وباء کے باعث لوگوں کی کم توقعات کے باعث حکومت کے لیے ملک کو درپیش دیرینہ مسائل کی تصحیح کرنے کا ایک نادر موقع تھا  لیکن روز مرّہ معمولات کی طرز پر تیار کیے جانے والا کسی جدّت پسندانہ ، تخلیقی سوچ اور جامع حکمتِ عملی سے عاری یہ بجٹ لوگوں کی کم ترین توقعات پر پورا  اترنے میں بھی بری طرح ناکام رہا ہے۔

ان خیالات کا اظہار مقررین نے  16 جون 2020 کوانسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز  [آئی پی ایس]، اسلام آباد کے منعقد کردہ ایک ویبینار میں کیا  جس کا عنوان تھا ‘وفاقی بجٹ  2020-21: تاثرات اور محاصلات’ ۔ اس آن لائن نشست کی صدارت انسٹیٹیوٹ کے ایگزیگٹیو پریزیڈنٹ خالد رحمٰن نے کی جبکہ شرکاء میں پلاننگ کمیشن آف پاکستان کے چیف اکنامسٹ ظفرالحسن الماس، بین الاقوامی انسٹیٹیوٹ براِئے اسلامی معاشیات کے ایکٹنگ ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر عتیق الظفر خان، سینٹر فار پروموشن آف امپورٹس فرام ڈویلیپنگ کنٹریز سے ظہیرالدین ڈار، قائدِ اعظم یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر انور شاہ، سابق وفاقی سیکریٹری برائے بجلی و پانی مرزا حامد حسن، راولپنڈی چیمبر آف کامرس کے سابق صدر امان الّلہ خان، اور آئی پی ایس کے سینیر ریسرچ فیلوز سابق سفیر تجمّل الطاف اور سید محمد علی شامل تھے۔

موجودہ حالات میں حکومت کو درپیش معاشی مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے ظفرالحسن الماس کا کہنا تھا کہ اٹھارویں ترمیم کے مطابق صوبوں کو ان کا مالیاتی حصّہ دینے کے بعد حکومتِ پاکستان کے پاس لگ بھگ 3.7 ملین روپے بچتے ہیں جو کہ قرضوں کی اقساط اور سود دینے کے لیے بھی ناکافی ہیں، اور یوں حکومت اس دفع اپنے سال کا آغاز منفی ایک ٹریلین روپے سے کرے گی۔ دوسری طرف اپنی تمام محصولات میں سے صوبوں کو اٹھارویں ترمیم کے مطابق ایک بڑا حصّہ دے دینے کے بعد بھی صوبے کورونا اور ٹڈِی دل جیسی قدرتی آفات سے تمٹنے کے لیے وفاقی حکومت کی طرف ہی دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال میں برآمدات بری طرح متاثر ہوِئی ہیں جبکہ بیرونِ ملک سے بھیجی جانے والی رقوم میں بھی واضح کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ اس کے علاوہ دیگر کئی چھوتے اور درمیانے درجے کے وباء سے متاثرہ کاروبار بھی سہارے کے لیے حکومت کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ ان حالات میں حکومت کے لیے مشکلات کئی گنا بڑھ گئی ہیں۔ البتہ گزشتہ سال کے مقابلے میں بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ ایک مثبت پیش رفت ہے جبکہ مہنگائی اور کم شرح سود کی ذریعے بھی عوام کو کچھ ریلیف ملنے کی امید ہے۔

حکومتی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے حامد حسن کا کہنا تھا کہ موجودہ مشکل حالات میں بجٹ سے کسی نے بہت زیادہ توقعات وابسطہ نہیں کی تھیں لیکن تخلیقی اور جدّت پسندانہ سوچ کی کمی کی بدولت یہ بجٹ ان کم ترین توقعات پر بھی پورا نہیں اتر سکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس بجٹ میں ٹیکس کے ایسے اہداف رکھے گئے ہیں جو موجودہ حالات میں غیر حقیقی ہیں، توانائی کے شعبے میں جو سبسڈی کم کی گئی ہے اس سے بجلی کے ٹیرف میں اضافہ ہو گا، جبکہ پیٹرول کے لیوی میں اضافہ کا مطلب ہے کہ حکومت بین الاقوامی منڈی میں تیل کی قیمت میں کمی کا زیادہ فائدہ عوام کو پہنچانے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ ٹڈی دل کی وجہ سے ہونے والے گندم کی فصل کے 2 ملین سے زیادہ کے نقصان کا مطلب ہے ملکی ضروریات پورا کرنے کے لیے اب گندم بھی درآمد کرنی پڑے گی، جبکہ اس بجٹ میں موسمیاتی تبدیلیوں جیسے اہم موضوع کو بھی نظر انداز کیا گیا ہے جبکہ آنے والے مون سون میں سیلاب کے خطرات بھی لاحق ہیں۔

ڈار کا کہنا تھا کہ ٹیکس کے حصول میں بہت سے ایسے دیرینہ مسلے ہیں جو رکاوٹ بن رہے ہیں۔ ان میں بالخصوص کھپت سے متعلق ایسے ٹیکس ہیں جن میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ منافع نہ دینے والے سیکٹرز پر کیے جانے والے اخراجات پر بھی نظرِ ثانی کی ضرورت ہے۔ ان کا خیال تھا کہ صحت اور تعلیم کے شعبوں میں بھی بجٹ پر نظرِ ثانی کرنی پڑے گی کیونکہ یہ دونوں شعبے معاشی سرگرمیوں کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کا یہ بھی خیال تھا کہ بجٹ اہم ترین معاشی سرگرمی ہے لیکن اسے اس دفعہ محض ذمہ داری پوری کر دینے والے انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ انہوں نے اس خطرے کا بھی اظہار کیا کہ اگلے مالی سال میں مہنگائی بہت بڑھ سکتی ہے جبکہ موجودہ حالات اور حکومت کی غیر حقیقی پالیسیوں کی بنا پر ٹیکس کی حصولی میں بھی کمی آ سکتی ہے۔

ڈاکٹر عتیق الظفر نے تعلیمی بجٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ حکومت نے تعلیم کے بجٹ میں کچھ اضافہ کیا ہے لیکن پچھلے سال کی کمی کو پورا کرنے کے لیے یہ ناکافی ہے۔ آنہوں نے کہا کا وباء کی وجہ سے تعلیمی ادارے بھی مشکلات کا شکار ہیں جبکہ اس صورتحال میں ایچ ای سی بھی اپنی پالیسیوں اور بھرتیوں میں سیاسی مداخلت کی وجہ سے متنازعہ نظر آتا ہے۔

ڈاکٹر شاہ کا کہنا تھا کہ وباء کی وجہ سے ہونے والی بیروزگاری کی وجہ سے لوگوں کے اخراجات میں کمی آئی ہے۔

محمد علی کا اصرار تھا کہ پاکستان کو بھی اپنے بجٹ بنانے کے عمل کو بین الاقوامی دنیا میں تیزی سے تبدیل ہوتے حالات کے مطابق ڈھالنا چاہیے جس کہ مطابق بین الاقوامی ما لیاتی اداروں سے بھی سوالات پوچھے جا سکیں۔

خالد رحمٰن نے نشست کے اختتام پر ملک کے دیرینہ مسائل کو حل کرنے کے لیے جدّت بسندانہ اور تخلیقی سوچ اپنانے پر زور دیا۔ ان کا خیال تھا کہ موجودہ بجٹ کو سنجیدہ نہ لینے کی وجہ سے آنے والے مالی سال میں کئی چھوتے بجٹ پیش کیے جانے کا امکان بڑھ گیا ہے۔ ان کا یہ بھی خیال تھا کہ احساس جیسے سوشل سیکیورٹی پروگرام اچھے ضرور ہو سکتے ہیں لیکن مستقل حل نہیں ہو سکتے۔ اس کےبجائے بہتر ہو کہ لوگوں کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے اور خود کفیل بنانے کی غرص سے ان کی استعدادِ کار میں اضافے کے پلان اور طریقہ کار متعارف کیے جائیں۔ دریں اثناء انہوں نے یہ بھی تجویز دی کہ نجی طور پر کام کرنے والی خیراتی تنظیموں کی بھی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے جنہوں نے کورونا وباء کے اس مشکل وقت میں بہت  مستعد اور موثر کردار ادا کیا ہے۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے