‘مسلم فلانتھراپی اور تعاون کے ماڈلز میں رجحانات’

‘مسلم فلانتھراپی اور تعاون کے ماڈلز میں رجحانات’

امریکی مسلمان، امریکہ کی کل آبادی کا محض 1% ہونے اور اپنے مقامی غیر مسلم ہم وطنوں سے کم دولت مند ہونے کے باوجود تقریباً 4.5 بلین ڈالر سالانہ عطیہ کرتے ہیں، جو کہ مقامی آبادی کے عطیات سے زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ قدامت پسند مسلمان خدمتِ خلق میں تنوع بھی زیادہ رکھتے ہیں۔ اگرچہ اس کے محرک عوامل ، بشمول انسانی ہمدردی اور سماجی بہبود کے، متفرق ہو سکتے ہیں، لیکن مسلم خدمتِ خلق کے اس وسیع تر پھیلاو کے پیچھے ایک بڑی وجہ ان کے مذہبی عقائد اور اقدار ہیں۔

مسلم فلانتھراپی انیشی ایٹو، انڈیانا یونیورسٹی للی فیملی اسکول آف فلانتھراپی کے ڈائریکٹر اور انڈیانا یونیورسٹی میں فلانتھراپک اسٹڈیزکے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر شارق صدیقی کے مطابق یہ وہ تحقیقی نتائج ہیں جو امریکہ میں مسلمانوں کے خدمتِ خلق کے رجحانات کی عکاسی کرتے ہیں۔ وہ 19 اکتوبر 2022 کو ‘مسلم فلانتھراپی اور کوآپریشن ماڈلز کے رجحانات’ کے عنوان پر گفتگو کرنے کی غرض سے آئی پی ایس کا دورہ کر رہے تھے۔

مسلم انسان دوستی پر تحقیق کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر صدیقی نے اظہار کیا کہ یہ تحقیقی نتائج اور انسان دوستی کے رجحانات غیر منافع بخش اور مخیر حضرات اور تنظیموں کو اِن معلومات سے آراستہ کرتے ہیں تاکہ لوگوں کو مسلمانوں کی خدمتِ خلق کے بارے میں آگاہ کیا جا سکے، اور معاشرے کے چیلنجوں کا جواب دیا جا سکے۔ اس سے مزید سوالات کی راہ ہموار ہوتی ہے جنہیں مسلم غیر منافع بخش تنظیموں کو تجرباتی تحقیق تیار کرنے کے لیے ترجیح دینی چاہیے۔

ڈاکٹر صدیقی نے مسلم انسان دوستی پر تحقیق کرنے کے لیے تنظیموں کے درمیان تعاون کے ماڈل کے بارے میں بھی اپنے خیالات پیش کیے۔ انہوں نے اس بات پر اصرار کیا کہ آزاد تحقیق کے لیے کافی وسائل کی ضرورت ہوتی ہے، جب کہ مسلم غیر منافع بخش تنظیموں کے پاس اضافی مینڈیٹ کے ساتھ وسائل بہت محدود ہیں۔ یہ مسلم تنظیموں کے بند ہونے اور دیگر مسلم اور بین المذاہب تنظیموں کے ساتھ ان کے تعاون کی کمی کی ایک اہم وجہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عمومی طور پر بین المذاہب تنظیمیں بھی مسلم تنظیموں کے ساتھ تعاون نہیں کرتیں کیونکہ ان کو ان تعاون کے شعبوں کے بارے میں علم نہیں ہے جن میں مسلم تنظیمیں ان کی مدد کر سکتی ہیں، نیز ان کو اسلامو فوبیا اور دہشت گردی کی مالی امداد سے چلنے والی سرگرمیوں میں ملوث ہو جانے کا خوف بھی رہتا ہے۔ مزید یہ کہ مسلم تنظیمیں اتنی نمایاں دکھائی بھی نہیں دیتی جتنا کہ ان کو ہونا چاہیے۔

ڈاکٹر صدیقی نے مسلم غیر منافع بخش اداروں کے درمیان آپس میں تعاون بڑھانے پر بھی زور دیا۔ اس سلسلے میں انہوں نے 25 مسلم تنظیموں کے درمیان تعاون کے ماڈل کی ایک مثال کے طور پر اپنی طرف سے پیش کردہ کمیونٹی کولیبریٹو انیشی ایٹو کو شیئر کیا تاکہ اسلامی علم کی تعمیر پر مبنی تحقیق کو ایک ایسے نقطہ نظر کے ساتھ آگے بڑھایا جا سکے جو ہر قسم کے فلانتھراپک خیالات کو آگے لاتا ہے۔

مزید برآں، انہوں نے مذہبی انسان دوستی کے طریقہ کار کو اس طرح اپنانے پر بھی زور دیا کہ مقامی غیر رسمی خدمتِ خلق ، ثقافتی سرگرمیاں، اور اسلامی روایتی اقدار کو مسلم فلانتھراپی میں شامل کیا جائے کیونکہ یہ عصری مسائل کو حل کر سکتے ہیں اور معاشرے کی پائیداری کو بہتر بنا سکتے ہیں۔

ان کے مطابق یہ مستقبل کے اس وقت کے لیے خاص طور پر اہم ہے جب حکومتیں ریگولرائزیشن میں اضافہ کریں گی اور خود کو نجی رقم کے فنڈر اور ڈائریکٹر کے طور پر دیکھیں گی۔ اگرچہ اس سے رسمی شعبہ قانونی حیثیت حاصل کرے گا اور ضوابط سے منافع حاصل کرے گا، لیکن غیر رسمی فلانتھراپی پر اس سے منفی اثرات پڑ سکتے ہیں۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے