‘اسلام اور انسانی خدمات: امکانات اور مسائل’

‘اسلام اور انسانی خدمات: امکانات اور مسائل’

انسانی ہمدردی اور خدمتِ خلق کو دینِ اسلام میں مرکزی حیثیت حاصل ہے: انسانی خدمات پر کانفرنس سے ممتاز علماء، فلاحی تنظیموں کے سربراہان کا خطاب

 IPS-ICRC PR 24112021

انسانی ہمدردی اور خدمتِ خلق کو دینِ اسلام میں مرکزی حیثیت حاصل ہے: انسانی خدمات پر کانفرنس سے ممتاز علماء، فلاحی تنظیموں کے سربراہان کا خطاب

خدمتِ خلق اسلام کا آفاقی پیغام ہے جو رنگ و نسل سے بالاتر ہے اور دین کے بنیادی ترین اجزاء میں شامل ہے۔ اللّہ کے احکامات اور قران کی تعلیمات میں انسانیت کی خدمت پر خصوصی زور دیا گیا ہے جبکہ سنّتِ رسول ﷺ میں بھی ہمیں اسکی اہمیت مقدم ملتی ہے۔ 

ان خیالات کا اظہار ممتاز علماء، محققین اور مختلف فلاحی تنظیموں کے سربراہان نے ‘اسلام اور انسانی خدمات: امکانات اور مسائل’ کے عنوان سے ہونے والی دو روزہ قومی کانفرنس میں کیا جس کا انعقاد انٹرنیشنل کمیٹی آف دی ریڈ کراس [آئ سی آر سی] اور انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز [آئ پی ایس] نے مورخہ 24-25 نومبر 2021 کو مشترکہ طور پر کراچی کے ایک نجی ہوٹل میں کیا تھا۔

مذکورہ کانفرنس میں ملک بھر سے جامعات، مدارس اور سماجی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے محققین نے شرکت کی اور اپنے مقالے پیش کیے جبکہ اس میں کئی ملکی اور بین الاقوامی سماجی تنظیموں کے سربراہان  اور نمائندے بھی شریک تھے۔

صدر مجلس اور تنظیم المدارس پاکستان کے سربراہ مفتی منیب الرحمٰن دو روزہ کانفرنس کے پہلے دن مہمانِ خصوصی تھے۔ کانفرنس کے موضوع کے مطابق متعدد علماء کرام جن میں فیصل آباد سے مولانا یاسین ظفر، کراچی سے مفتی عبدالمنعم ، کشمور سے مولوی عبداللہ کھوسو، پشاور سے محمد رفیق شنواری، سرگودھا سے ڈاکٹر محمد طارق رمضان اور اسلام آباد سے ڈاکٹر اشفاق احمد نے اپنے تحقیقی مقالے پیش کئے، جبکہ چئیرمین آئ پی ایس خالد رحمٰن ، وائس چئیرمین آئ پی ایس سابق سفیر سید ابرار حسین ، آئی سی آر سی کے علاقائی مشیر برائے اسلامی قانون اور فقہ ڈاکٹر ضیاء اللہ رحمانی، مولانا ڈاکٹر احمد بنوری، جامعہ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹائون کراچی، تنظیم اسلامی پاکستان کے سربراہ شجاع الدین شیخ اور معروف ماہر تعلیم اور اسکالر ڈاکٹر سید محسن نقوی سمیت دیگر مقررین نے بھی تقریب سے خطاب کیا۔

2 IPS-ICRC PR 25112021 4 IPS-ICRC PR 25112021 2

کانفرنس کے اختتامی روز الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان کے صدر محمد عبدالشکور، صوبائی سیکرٹری ہلالِ احمر پاکستان کنور وسیم، وائس چانسلر رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی، اسلام آباد پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد ، اور جامعہ رشیدیہ کراچی کے مہتمم مولانا مفتی عبدالرحیم نے علیحدہٰ علیحدہٰ نشستوں کی صدارت کی۔ اس موقع پر کراچی سے ڈاکٹر شہزاد چنّا اور راحیلہ خان ایڈووکیٹ، اسلام آباد سے ڈاکٹر عمر سلیم، ڈاکٹر ملیحہ زیبا خان اور حافظ اسامہ حمید، اور لاہور سے اقصیٰ تصغیر نے اپنے مقالے پیش کیے، جبکہ مقالے پیش کرنے کے بعد ہونے والی گفتگو میں مولانا حنیف جالندھری، ناظمِ اعلیٰ، وفاق المدارس العربیہ ُپاکیستان، عمیر حسن، ہیڈ آف اسلامک ریلیف یوکے، عبدالشکور، الخدمت فاونڈیشن،  ڈاکٹر فیاض عالم، دعا فاؤنڈیشن، ڈاکٹر شاہدہ نعمانی، شعور ویلفیئر ٹرسٹ، اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن عمیر صدیقی، دارالعلوم کراچی سے مولانا ڈاکٹر زبیر اشرف عثمانی، ڈاکٹر سید عزیز الرحمان اور پاکستان اسلامِک میڈیکل ایسو سی ایشن [پیما] کے سابق صدر پروفیسر ڈاکٹر سہیل اختر نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

کانفرنس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر مجلس اور تنظیم المدارس پاکستان کے سربراہ مفتی منیب الرحمٰن نے کہا کہ غم کی گھڑی میں ضرورت مندوں کی مدد کرنا نہ صرف قرآن میں اللہ کا حکم ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم کردہ سنت بھی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس بات پر پیغمبر اکرم ﷺنے اپنے الوداعی خطبہ میں بھی زور دیا تھا جو مسلمانوں کو مساوات اور انسانی ہمدردی کا درس دیتا ہے۔

انسانی خدمات کے حوالے سے علمائے کرام کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے مفتی منیب کا کہنا تھا کہ دنیا میں مظلوم کی مدد کرنا اور اس کے حق میں آواز اٹھانا ہر مسلمان مذہبی رہنما اور اسکالر کی بنیادی ذمہ داری ہے۔

انہوں نے امریکہ اور یورپی برادری پر بھی زور دیا کہ وہ کابل میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان پر عائد مالی پابندیاں اٹھا لیں، تاکہ کسی ایسے انسانی المیے سے بچا جا سکے جو جنگ زدہ ملک کواپنی لپیٹ میں لے سکتا ہو۔

مفتی منیب کا مزید کہنا تھا کہ کچھ طاقتیں انسانی خدمت کی آڑ میں اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ اس طرح کے اقدامات اس عظیم مقصد کو نقصان پہنچائیں گے اور اُن انسانی ہمدردی کے کارکنوں کے لیے مایوسی کا سبب بنیں گے جو آنے والی نسلوں کے لیے ایک بہتر دنیا تشکیل دینے کے لیے حقیقی طور پر کوشاں ہیں۔

کانفرنس کے دوسرے دن خطاب کرتے ہوئے مولانا محمدحنیف جالندھری کا کہنا تھا کہ جیّد علماء کے مطابق اللّہ کی بندگی، رسول کی اطاعت اور خلقِ خدا کی خدمت ہی دراصل اسلام کی  صحیح تشریح اور خلاصہ ہے۔ اس کی زندہ مثال اسلام کی بنیاد پر کام کرنے والی ایسی کئی فلاحی تنظیمیں ہیں جو انسانی خدمت کو اپنا فریضہ سمجھ کر اسے عوامی سطح پر اجتماعی طور پر ادا کر رہی ہیں۔ ان تنظیموں میں وہ دینی مدارس بھی شامل ہیں جو نہ صرف لاکھوں غریب، یتیم اور مسکین طلباء کو دینی تعلیم فراہم کر رہے ہیں بلکہ ان کی کفالت کا ذریعہ بھی بنے ہوئے ہیں۔ اس موقع پر خود اپنے وفاق کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک بھر سے تقریبا 23000 مدارس وفاق المدارس العربیہ سے منسلک ہیں جس سے 25 لاکھ سے زائد طلباء مستفید ہو رہے ہیں، اور یوں وفاق المدارس العربیہ سمیت ملک میں موجود دیگر وفاق اور مدارس بہت بڑی سماجی تنظیم کا کردار ادا کر رہے ہیں۔

جامعتہ الرشید کے مہتمم مفتی عبدالرحیم نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انسانی مسائل کا حل سیرت کی تعلیم میں ہے۔ لوگوں کو جذباتیت سے نکال کر حقیقت اور علم کی طرف لانا ضروری ہے۔ قوم کی ترقی کے لیے ہر طرح کی عصبیت کا خاتمہ ناگزیر ہے۔

اقلیتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان میں رہنے والی اقلیتیں غیر محفوظ ہونگی تو بیرونی دنیا میں رہنے والے مسلمان بھی تکلیف اور پریشانی کا شکار رہیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلام میں انسانی ہمدردی کی ایک مثال اس بات سے بھی ملتی ہے کہ جنگ کی حالت میں بھی کافروں سے کیے گئے معاہدات پر نا صرف عمل کیا گیا بلکہ ان کی مشکلات میں بھی مدد کی گئ۔ مفتی عبدالرحیم کا کہنا تھا کہ مدارس اور این جی اوز  کے درمیان غلط فہمیوں سے بھری ایک خلیج حائل ہے جس کے لیے دونوں کو آپس کی غلط فہمیاں دور کر کے اپنی اپنی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے۔

الخدمت فاونڈیشن کے صدر عبدالشکور نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ الخدمت فاونڈیشن سمیت دیگر سماجی خدمت کی تنظیمیں جو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں انسانی خدمت کے لیے سرگرمِ عمل ہیں وہ پاکستان اور پاکستان سے باہر حالتِ جنگ اور حالتِ امن دونوں صورتوں میں عوام الناس کو مسلم یا غیر مسلم سمیت بغیر کسی تفریق یا کسی ذاتی مفاد کے خدمات فراہم کر رہی ہیں۔

نیشنل ہونیورسٹی اف ماڈرن لینگویجز سے تعلق رکھنے والی آئ پی ایس کی نان ریزیڈنٹ فیلو ڈاکٹر ملیحہ زیبا خان نے اس موقع پر ایک دلچسپ مقالہ پیش کیا جس میں سمندروں کی حدود میں دی جانے والی انسانی خدمات پر روشنی ڈالی۔ ان کا کہنا تھا کہ زمین کا تقریبا تین چوتھائ حصّہ پانی پر مبنی ہے اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد ایک عرصے سے سمندری تجارت، ماہی گیری، اور سیکیورٹی وغیرہ کی غرض سے ان بحری راستوں کا استعمال کر رہی ہے۔ سمندر میں ان مختلف مقاصد کے تحت لوگوں کی اتنی بڑی تعداد میں موجودگی ان کے لیے مختلف قسم کے خطرات کو بھی جنم دیتی ہے جن میں سونامی اور سمندری طوفان جیسی قدرتی آفات کے ساتھ ساتھ انسانی اسمگلنگ، بحری قذاقی اور دیگر جرائم، یا کشتیوں، بحری جہازوں یا  ماہی گیروں کو پیش آنے والے حادثات جیسی غیر قدرتی آفات بھی شامل ہیں۔ اس سب کے ساتھ ساتھ سمندری مخلوق کے تحفظ کی بھی خاص اہمیت ہے۔ ان سب امور کی دیکھ بھال کے لیے سمندر میں پاکستان میری ٹائم سیکیورٹی ایجنسی جیسے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی خدمات خصوصی طور پر قابلِ ذکر ہیں۔

کانفرنس کے اختتام پر خالد رحمٰن، چیئرمین انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد اور ڈاکٹر ضیاء اللہ رحمانی، آئی سی آر سی کے علاقائی مشیر برائے قانون اور فقہ، نے شرکاء کا شکریہ ادا کیا اور امید ظاہر کی کہ دیگر تعلیمی ادارے خصوصاً یونیورسٹیاں بھی اس موضوع پر کانفرنسیں منعقد کریں گی۔

3 IPS-ICRC PR 25112021 21

 

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے