تحقیق کے مغربی فلسفے اور اسلامی اسلوب ِتحقیق کی اساسیات
اسلامی ماڈل کے بنیادی اصول
محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی پہلی وحی کی پانچ آیتیں اس ضمن میں انتہائی اہم ہیں:
’’پڑھو(اے نبیؐ) اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا۔جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی۔پڑھو، اور تمہارا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا۔ انسان کو وہ علم دیا جسے وہ جانتا نہ تھا۔‘‘ ۹
یہاں پہلی آیت میں ’ اِقراء ‘ یعنی پڑھو کہہ کرعالم طبیعی سے متعلق علم کی بات کائنات اور انسان کے خالق کے حوالے سے کی گئی ہے۔ دوسری آیت میں خون (علق) کا ذکرزندگی کے تعلق سے ہے۔تیسری آیت قاری کو خدا کی مرکزیت کے تصور(توحید) کی جانب واپس لاتی ہے۔ چوتھی آیت میں’ قلم‘ ٹیکنالوجی کے علم کی علامت ہے۔اور پانچویں آیت علم کے تمام دائروں کے خدا سے مربوط ہونے کے تصور کا اعادہ کرتی ہے۔
اسی طرح قرآن میں کہا گیا ہے کہ جب اللہ نے انسان کو پیدا کیا تو ’’اس نے آدم (یعنی نسل انسانی کے پہلے فرد) کو تمام چیزوں کے نام سکھائے۔‘‘ ۱۰ ۔ مطلب یہ کہ اشیاء کے مفہوم اور حقیقت سے طبیعی اور تصوراتی دونوں پہلوؤں سے آگہی عطا کی گئی۔اس کے ساتھ ساتھ انسانوں کو فیصلے اور انتخاب کی آزادی بھی دی گئی ہے۔مزید یہ کہ اشیاء کے علم اور ان کی تصوراتی اور طبیعی حقیقت کے ادراک کے ساتھ انسانوں کو ہدایت یعنی رہنمائی کی نعمت سے بھی سرفراز کیا گیا ہے۔
اس طرح ہمیں ایک ایسا نمونہ یا پیراڈائم دیا گیا ہے جو سب سے پہلے خدا کی مرکزیت سے آگاہ کرتاہے۔یہی علم باقی تمام علوم کا سرچشمہ ہے۔اب اصل بات یہ ہے کہ خالق اور مخلوق میں تعلق کی نوعیت کیا ہونی چاہیے۔اس تعلق کی پہلی جہت خالق کو تسلیم کرنا ہے۔ یعنی آدمی اکیلا نہیں ہے، اور آدمی ، انسانیت، دنیااور کائنات کو خدا سے مربوط کرکے ہی سمجھا جاسکتا ہے۔ طبیعیات، حیاتیات اور ٹیکنالوجی کی دنیا سمیت علم کے تمام شعبوں اور ان کی سرگرمی کے تمام دائروں کی ابتداء اسی سے ہوتی ہے۔لیکن یہ الگ الگ خانوں میں بٹے ہوئے نہیں ہیں، یہ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔اور انہیں باہم جوڑنے والا اصول ’ہدایت‘ ہے، جیسا کہ قرآن میں کہا گیا ہے :
’’․․․․اس کے بعد میری طرف سے جب کوئی ہدایت تمہارے پاس پہنچے توجو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے، ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا۔ ‘‘ ۱۱
اس سے واضح ہے کہ زمین پر انسان کی زندگی کا آغاز بے خبری اور تاریکی میں نہیں ہوا۔
علم کے مختلف شعبوں کو باہم جوڑنے اور سمجھنے کے لیے انسانوں کو تین چیزیں عطا کی گئیں: ۱) عقل ، استدلال کی صلاحیت، سوچنے، جانچنے پرکھنے، اپنانے اور پیروی کرنے کی اہلیت، ۲) طبیعی و مادّی شعبوں کا علم، آگہی اور اطلاع کی صلاحیت،۳) علم کی ایک برتر شکل جس کا نام ہدایت ہے، اور موجودہ علم الوجود کی رو سے جس سے حقیقت کا ادراک مراد ہے۔حقیقت اور ہدایت کا ادراک ان سب کو مربوط کرتا ہے۔ یہ ہے ایک کلی، مربوط ، خدا اور ہدایت کی مرکزیت کے تصور پر مبنی اسلوب جو قرآن پیش کرتا ہے۔
انسان کو یہ صلاحیتیں عطا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ اسے طبیعی، حیاتیاتی، اور تکنیکی دنیا میں تلاش و جستجو کی دعوت دیتا ہے۔اس حوالے سے قرآن کی یہ آیات نہایت اہم ہیں:
’’کیا یہ لوگ اونٹوں کو نہیں دیکھتے کہ کیسے بنائے گئے ؟ آسمان کو نہیں دیکھتے کہ کیسے اٹھایا گیا؟پہاڑوں کو نہیں دیکھتے کہ کیسے جمائے گئے؟اور زمین کو نہیں دیکھتے کہ کیسے بچھائی گئی؟‘‘ ۱۲
ان آیات میں پورا زور جس بات پر دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ جانوروں، پہاڑوں، آسمان، زمین اور اس کے گردوپیش کو دیکھو ۔ قرآن انسان کو بار بار دعوت دیتا ہے کہ جس ماحول میں وہ رہتا ہے اس پر غور وفکر کرے،اپنا تعلق اپنے گردوپیش کی دنیا سے جوڑے،مناظر قدرت کا مشاہدہ کرے، قوموں اور تہذیبوں کے عروج و زوال کے اسباب کا جائزہ لے،اور پھر طے کرے کہ اسے دنیا میں کس طرح رہنا اور کیا طرز فکر و عمل اختیار کرنا چاہیے۔جدید علمی اصطلاحات کی رُو سے قرآن قادر مطلق اللہ رب العالمین کی تخلیق کردہ دنیا کی حقیقتوں کو سمجھنے کے لیے تجربی طریق کار تجویز کرتا ہے۔ نماز کے لیے قرآن کے اس حکم کی رو سے کہ ’’ تم جہاں کہیں بھی ہو اپنا رخ مسجد الحرام کی طرف پھیر دو‘‘ ۱۳ ، درست سمت کے تعین کے لیے جغرافیہ کے علم کا حصول ناگزیر ہوجاتا ہے۔اس سے واضح ہے کہ مسلم دور میں مختلف شعبوں میں علمی ترقی حقیقی دنیا میں رہنے کا فطری تقاضا تھی۔ اس بناء پر تجربی طریق کار، مشاہدہ، تجربہ، توثیق، اور نتائج کی بنیاد پر تصدیق مسلمانوں کی منہاجیات کا لازمی حصہ بن گئے۔اور یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ ثقافت اور تاریخ کے لیے قیمتی خدمات انجام دینے والے مسلمان مفکرین، علماء وفضلاء، محققین اور تکنیکی ماہرین نے اپنی علمی کاوشوں میں ہدایت الٰہی، انسانی عقل و دانش، اور تجربی طریق کار تینوں سے استفادہ کیا۔
اس پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے انسانی تاریخ میں علم و دانش کے چار ممتاز اسالیب(Paradigm) کی نشان دہی مفید ہوگی۔ پہلا اسلوب خدائی ہدایت پر مشتمل معرفت پر مبنی ہے۔یہ ایک بلند تر ذریعہ ہے، وہ ذریعہ جس نے کائنات کو تخلیق کیا،علم کے اُس حصے میں انسان کی شرکت جو خالق کی فکر پر مشتمل ہے، زمین پر انسان کے کردار کے لیے بنیادی اہمیت اور افادیت کی حامل ہے۔تمام مذہبی، بالخصوص اسلامی، اسلوب کا آغاز اسی سے ہوتا ہے۔دوسرا اسلوب جو باطنی علم کی حیثیت سے معروف ہے،اس کی بنیاد وجدان پر ہے۔تیسرا اسلوب استدلال اور عقل پر مبنی ہے، اس تصور کے ساتھ کہ کائنات کی ایک حقیقت ہے اور اس حقیقت کا ادراک عقل کی مدد سے ممکن ہے۔عقل ، حواس خمسہ کے ذریعے روبہ عمل آتی ہے جبکہ وجدان اِن سے بالاتر ہے۔ عقل ایک صلاحیت کا نام ہے،ایک قوت جسے تجربے، خبر اور علم کے ذریعہ کی حیثیت سے انسان استعمال کرتا چلا آرہا ہے۔ریاضی اور جیومیٹری کا تمام تر ارتقاء اس مفروضے کی بنیاد پر ہوا کہ یہ ایک ایسی چیز ہے جو وجود رکھتی ہے، لیکن صرف عقل ہی کے ذریعے ہم اسے اپنی گرفت میں لاسکتے ہیں۔چوتھا اسلوب تجربی جہت ہے جس میں اطلاع، حقائق اور علم کو مشاہدے اور تجربے کے عمل سے دریافت کیا جاتا ہے ، جس میں قیاس یا مفروضے کی تصدیق یا تردید تجربہ سے حاصل شدہ نتائج کے ذریعے کی جاسکتی ہے، اور جس میں اس طریق کار کی بناء پر پیش گوئی ممکن ہے۔
فی الحقیقت آج کا المیہ یہ ہے کہ یہ چار بڑے اسلوب اس مفروضے کے ساتھ ایک دوسرے سے الگ تھلگ رکھے گئے ہیں کہ ان میں سے ہر ایک خود کفیل ہے۔اس معاملے میں اسلام کا کردار یہ ہے کہ وہ علم کی ان چاروں راہوں کو تسلیم کرتا، انہیں ایک لڑی میں پروتا ، اور ایک ایسا بلند محرابی(Overarching) بندوبست ایجاد کرتا ہے جس میں خدائی ہدایت کا مقام سب سے بلند ہے جبکہ وجدان،عقل، استدلال اور تجربہ اس چھتری تلے اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ان میں سے ہر ایک دوسرے کی مدد اور تکمیل کرتے ہوئے اسلامی اسلوب کو ایک کل بناتا ہے۔
اس جامع اور ہمہ گیر اسلوب کا اطلاق اپنی تحقیقی کاوشوں پر کرکے مسلمانوں نے اسلامی دور کی پہلی صدی کے دوران ہر میدان میں طبعی اورسماجی علوم(Natural and social sciences) کو ترقی دی۔فی الحقیقت انہوں نے قرآنی علوم سے ابتداء کی،اور قواعد، زبان، تفسیر، حدیث، تاریخ، علم الرجال، اصول فقہ یعنی اصل ذرائع سے قانون اخذ کرنے کا پورا عمل،نیز متعدد دوسرے علوم کو پروان چڑھایا۔ اس کے بعد یونان سے فکری چیلنجوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا اور معتزلہ اور اشاعرہ کی علمی تحریکوں نے ان کا کامیابی سے مقابلہ کیا جس کی نتیجے میں اسلامی فلسفے کی بنیادیں مضبوط ہوئیں۔ خدائی ہدایات اور تقاضوں کی تکمیل کے عمل میں مثلاً قرآن کو تحریر کرنے کے لیے مسلمانوں نے کاغذ سازی ور قلم سازی کو ترقی دی، روشنائی کو چمک دار اور دیرپا بنانے کے لیے کیمیائی تجزیے کیے، اور یوں طبعی علوم( نیچرل سائنس) کی ترقی میں حصہ لیا۔ امام غزالی، ابن خلدون، ابن تیمیہ جیسے مفکروں نے اپنے اپنے انداز میں ان علوم کو ترقی دی جنہیں آج عمرانی علوم( سوشل سائنس) کی حیثیت حاصل ہے۔ابن خلدون کو اب عمرانیات اور فلسفہ تاریخ کا بانی تسلیم کیا جاتا ہے۔کتاب الخراج۱۴ معاشیات کے موضوع پر پہلی کتاب ہے جو امام ابویوسف نے لکھی ۔
اسلام کے فلسفیانہ فریم ورک میں تمام تر مسلم فکر وعمل کا پہلا اصول اور ماخذ توحید یعنی اللہ کی یکتائی ہے۔پروفیسر اسماعیل راجی الفاروقی کی کتاب ’’ توحید: انسانی فکر اور زندگی پر اس کے اثرات‘‘۱۵ (Al Tamhid: Its Implications for Thought and Life) اس حوالے سے بہت اہم ہے کیونکہ یہ فکر و خیال اور معاشرے دونوں پر توحید اور اس کے اثرات کی وضاحت کرتی ہے۔ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے بھی اس موضوع پر بڑی خوبصورتی کے ساتھ کام کیا ہے۔ پہلے شاعری میں منظم انداز میں’ اسرار خودی‘ اور پھر ’رموز بے خودی‘ میں ۱۶ ۔ پہلی نظم فرد اور دوسری معاشرے سے متعلق ہے۔اقبال کی یہ دونوں عظیم الشان نظمیں بنیادی فکری تشکیل میں اہم پیش رفت ہیں اور دونوں توحید پر مبنی اسلامی اسلوب فراہم کرتی ہیں۔ ’’ فکر اسلامی کی تشکیل جدید ‘‘ ۱۷(The Reconstruction of Religious Thought in Islam) کے موضوع پر اقبال کے خطبات میں سے پہلے چار خطبوں میں بھی توحید کی مرکزیت اور فکر وخیال، منہاجیات، معاشرے، معیشت اور سیاست وغیرہ پراس کے اثرات واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
خدا کی وحدت کے عقیدے کے ساتھ دوسرا تصوروحدتِ تخلیق کا ہے۔تخلیق کے اس عمل کے نتیجے میں ایک پابند ِقانون کائنات وجود میں آئی جہاں خاص اسلوب و طریقے، یکسانیتیں، مستقبل کے اندازے اور متغیرات کام کرتے نظر آتے ہیں۔ تیسری چیز حقیقت کی یکتائی ہے جو علم کی وحدت کی جانب لے جاتی ہے اور پھر آخری چیز وحدت انسانی ہے۔اسلامی اسلوب کے یہ بنیادی اصول ہیں۔
ان اصولوں کے تحت، استخلاف کا اہم تصور، جس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کوزمین پر یہ مشن دے کر بھیجا گیا ہے کہ وہ دنیا کو ترقی دے اور تمام ذرائع اور وسائل کو عدل ، پاکبازی اورمساوات کے قیام، اور غلط و صحیح ، حلال و حرام اورنیک و بد کو الگ الگ کرنے کے لیے استعمال کرے۔ اس طرح اسلام کے تحت پوری انسانی زندگی کا محور یہ اخلاقی انتخاب بن جاتا ہے جبکہ مادی وسائل سے استفادے کی آزادی بھی حاصل رہتی ہے۔ یوں استخلاف کا یہ تصور موجودہ زندگی کا رشتہ آنے والی زندگی سے جوڑتے ہوئے،اس دنیا میں بھی اور اس کے بعد کی دنیا یعنی عالم آخرت میں بھی بہترین نتائج کے حصول کے لیے انسان کی رہنمائی کرتا ہے۔دنیا کا رشتہ آخرت سے جوڑنے کے اس عمل کو ایک حدیث میں بڑی خوبصورتی کے ساتھ یوں بیان کیا گیا ہے: ’’دنیا آخرت کی کھیتی ہے‘‘۔ اس لیے آخرت کو جانے والا راستہ ، اس دنیا سے الگ یا غیر متعلق نہیں ہے۔اِس دنیا کو بہتربنا کر ہی آخرت کی بہتری حاصل کی جاسکتی ہے۔استخلاف کا تصور حسن خلق، اخلاقیات، پسندیدہ اور ناپسندہ، اور حلال و حرام کو اس اسلوب کے اہم ترین عناصر میں شامل کرتا ہے۔ نیچرل سائنس کا دائرہ ہو یا سوشل سائنس کا، اقدار، اخلاقیات،بھلائی کا انتخاب،سماجی ذمہ داری،فرد کی سماجی جواب دہی،یہ سب اس اسلوب کے لازمی اجزاء ہیں۔
اس لیے سیکولرازم کا وہ حصہ جو اس دنیا کی ترقی پر توجہ مرتکز کرتا ہے، وہ اسلامی اسلوب کے ساتھ کسی تنازع کا سبب نہیں بنتا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام ہماری دُنیوی زندگی کے طبیعی، جسمانی اور مادّی پہلوؤں سے تعلق رکھتا ہے۔اختلاف قابل مشاہدہ اشیاء پر سیکولر اسلوب کے طرز عمل کی بناء پر جنم لیتا ہے کیونکہ اسلام قابل مشاہدہ اور نادیدہ یا غیب دونوں کو ساتھ لے کر چلتا ہے۔یہ بات نہایت اہم ہے کہ قرآن کی پہلی سورۃ ’الفاتحہ‘ میں ہمیں سکھایا گیا ہے کہ ہماری سب سے بڑی ضرورت ہدایت یعنی رہنمائی ہے۔اس میں بندے اپنے رب سے درخواست کرتے ہیں کہ’ــ ہمیں سیدھا رستہ دکھا‘ ۱۸۔ جبکہ دوسری سورۃ ’البقرہ‘ میں اس کا جواب یوں دیا گیا ہے:
’’․․․․قرآن نازل کیا گیا جس میں انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے،اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔‘‘۱۹
تاہم اس رہنمائی سے فائدہ اٹھانے کی پہلی شرط غیب یعنی اَن دیکھی کو ماننا ہے۔جیسا کہ قرآن کی بالکل ابتداء میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ قرآن ان لوگوں کے لیے ہدایت ہے جو’’ غیب پر ایمان لاتے ہیں۔‘‘ ۲۰ لیکن غیب کا مطلب کوئی پراسرار یا ناقابل فہم چیز نہیں ہے۔غیب سے مرادہے وہ دائرہ جو قابل مشاہدہ نہیں مگر حقیقت ہے، اور جو قابل پیمائش نہیں مگر وجود رکھتا ہے۔ ہدایت کے حوالے سے ’قابل مشاہدہ ‘اور’ نادیدہ‘ دونوں مل کر کلی حقیقت تک پہنچاتے ہیں۔سیکولر اسلوب کا کلیدی عنصر ان میں سے ایک کو دوسرے سے الگ کردینا ہے، لیکن اسلامی اسلوب میں یہ دونوں باہم مربوط، لازم و ملزوم اور ناقابل علاحدگی ہیں۔ جبکہ’ قابل مشاہدہ‘ اور ’نادیدہ‘ کی علاحدگی کی وجہ سے جدید دنیا کے باسیوں کو بہت سے مسائل کاسامنا کرنا پڑرہا ہے۔
جواب دیں