تحقیق کے مغربی فلسفے اور اسلامی اسلوب ِتحقیق کی اساسیات
تعارف
نظریۂ حقیقت(Theory of reality) سے متعلق وجودیاتی(Ontological) سوالات تحقیق کے کام میں بنیادی اہمیت رکھتے ہیں کیونکہ اس سوال کا جواب کہ موجودات دنیا کی حقیقت کیا ہے،مختلف فلسفوں کو جنم دیتا ہے جو ایک شخص کے عالمی زاویہ نگاہ پر اثر انداز ہوتے اور نتیجتاً مطالعہ کے دائرے کو صرف ان چیزوں تک محدود کرتے ہیں جن کے بارے میں وہ سمجھتا ہے کہ عملاًوہی وجود رکھتی ہیں، اور یہی چیز اس کے علمی موقف کا تعین کرتی ہے۔مثال کے طور پر وجودیاتی سوال سے تعلق رکھنے والے دو مخالف فلسفوں یعنی ایک ماورائے طبیعات یا مذہبی اوردوسرے حقیقت کے تجربی مفہوم کو لیجیے۔ ان میں سے پہلے کی رو سے دنیا کی وضاحت صرف خداکی منشاء اور منصوبے کے نتیجے کی حیثیت سے کی جاسکتی ہے۔جبکہ دوسرا فلسفہ یہ ہے کہ فی الحقیقت صرف وہی چیزیں وجود رکھتی ہیں جو براہ راست قابل مشاہدہ ہوں۔ تجربی فلسفیانہ فریم ورک (Empiricist philosophical framework) نے جدید دانشورانہ ذہن کو نمایاں طور پر متاثر کیا۔ خاص طور پر نشاۃ ثانیہ، اصلاحات اور روشن خیالی کے ادوار میں۔اس کے نتیجے میں چرچ اور اہل سائنس کے وجودیاتی مواقف کے مابین تنازع ابھرا،اور بالآخر سائنس کی دنیا نے اس فلسفے کو اپنا لیا کہ انسانی برہان ودانش اورناقدانہ طرز فکر، دنیا کی سماجی اور طبیعاتی حقیقت کو سمجھنے کے تنہا قابل اعتماد ذرائع ہیں۔ یہ جدید مغربی فلسفے ایک مخصوص سماجی- سیاسی،ثقافتی اور تہذیبی ماحول میں پروان چڑھے لیکن بعد میں انہیں ہر ثقافتی اور تہذیبی پس منظر کے حامل تحقیق کاروں کی جانب سے اپنا لیا گیا۔
اس پس منظر میں اس مقالے میں جس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ کیا مغربی فلسفوں کا وجودیاتی فریم ورک اتنا جامع ہے کہ فطری و آفاقی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ہرجگہ قابل اطلاق ہو ، اور اس سماجی پیچیدگی کا احاطہ کرسکے جس کا مشاہدہ تحقیق کار اپنی تحقیق کے دوران کرتے ہیں۔یہ گفتگو نظریہ سازی ( تھیورائزیشن) کے مغربی ماڈل کے بنیادی موضوعات اور ان کے نتائج کو سامنے لانے کی ایک کوشش ہے۔نیز یہ کہ تحقیق کے اسلامی اسلوب کی اساسیات بھی، علم کے تمام شعبوں میں مستحکم وجودیاتی موقف اور علمی رویوں کو فروغ دینے کی جامع حکمتِ عملی تجویز کرتی ہے۔
جواب دیں