آج کا پاکستان اور ’’بیانیہ جنگ‘‘
ذرائع ابلاغ کے عہد میں ’بیانیہ جنگ‘ کی اہمیت افواج، گولیوں اور بموں کی جنگ سے کہیں زیادہ ہو چکی ہے۔ تصورات حقیقت کی دنیا سے زیادہ اہمیت کے حامل ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ آئی پی ایس کے ڈائریکٹر جنرل خالد رحمٰن کی اس تقریر کا موضوع تحا جو انہوں نے 21اگست2013ء کو کراچی یونیورسٹی میں کی۔ Pakistan Today & War of Narratives پروگرام میں میزبانی کے فرائض دفتر کلیہ فنون اور شعبہ ابلاغِ عامہ نے ادا کیے جس میں جامعہ کراچی کے دیگرشعبوں کے اساتذہ اور طلبہ کی کثیر تعداد نے بھی شرکت کی۔ ان میں کلیہ فنون کے سربراہ ڈاکٹر ملاحت کلیم شیروانی، شعبہ ابلاغِ عامہ کے چیئرمین ڈاکٹر طاہر مسعود، پروفیسر انعام باری، ایسوسی ایٹ پروفیسر ثمینہ قریشی، ڈاکٹر محمدطہٰ ٰ اور ڈاکٹر شفیق الرحمن شامل تھے۔
خالد رحمن کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ ذرائع ابلاغ میں پاکستان کے لیے ایک ناکام ریاست ہونے کی جو اصطلاح استعمال کی جارہی ہے وہ دراصل اسی ’بیانہ جنگ‘ کا ایک حصہ ہے۔ پاکستانی معاشرے اور ریاست کی اچھائیوں کو دانستہ لوگوں کی نظروں سے اوجھل کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستانی ذرائع ابلاغ کا غیر محتاط رویہ ملک دشمنوں کے لیے مددگار ثابت ہورہا ہے۔ انہوں نے اپنی دلیل کی حمایت میں مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ اور ممبئی کے ہوٹل پر حملہ جیسے واقعات پر بھارتی ذرائع ابلاغ نے ایک پروپیگنڈہ جنگ کا طویل عرصہ سے بھر پور آغازکر رکھا ہے جس میں ان حقائق کو توڑ موڑ کر اپنے مفادات پورے کیے جا رہے ہیں جو ان کی بیان کردہ رام کہانیوں سے مطابقت نہیں رکھتے۔ یہی سب کچھ امریکہ نے عراق اور افغانستان کے معاملے میں کیا تھا۔
مزید مثالوں کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہالی وڈ میں خود ساختہ قصے کہانیوں پر مبنی فلمیں بنا کر انتہائی گہرے شعوری اثرات مرتب کرنے کے لیے مسلمانوں کو دہشت گردی پر مبنی برائی کا نمائندہ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے حالانکہ ان کہانیوں کا سرے سے کوئی تعلق مشرق سے بنتا ہی نہیں۔ خاص طور پر ان فلموں میں عربوں کو نمبر ایک عوام دشمن بنا کر پیش کیا جا تا ہے جو سفاکی، بے رحمی اور غیر مہذب رویوں کے باعث مہذب مغرب کو دہشت زدہ کر رہے ہیں۔تاریخ: 21اگست 2013ء
انہوں نے تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے خلاف اس ’بیانیہ جنگ‘ کا مقصد پاکستانی قوم کے اعتماد کو متزلزل کر دینا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کچھ بین الاقوامی کرداراسٹریٹیجک اہمیت کے پیشِ نظر اس خطے کا کنٹرول سنبھال لینا چاہتے ہیں۔ چنانچہ وہ پاکستانی معاشرے میں موجود کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے میں مصروف ہیں اور پاکستانی قوم کو زبان، رنگ، نسل، فرقہ بندی، سیاسی گروہ بندی، اقتصادی طبقہ واریت حتیٰ کہ نظریۂ زندگی کے اختلافات میں الجھا دینا چاہتے ہیں۔
انہوں نے اس سنگین مسئلے کو سمجھنے کے لیے سنجیدہ کوشش پر زور دیا اور قومی سطح پر ایک ایسی ہمہ جہت حکمتِ عملی وضع کرنے کی ضرورت کا احساس دلایا جس سے ان حالات کا مقابلہ کیا جا سکے۔
نوعیت: لیکچر
موضوع: Pakistan Today & War of Narratives
مقرر: خالد رحمٰن
مقام: جامعہ کراچی
جواب دیں