ماہنامہ’’ تجزیات(اسلام آباد) کےبارہ شمارے
ماہنامہ ’’تجزیات‘‘ (اسلام آباد) نےجنوری ۲۰۰۹ء سےجناب محمد عامر رانا اور جناب سجاد اظہر کی ادارت میں اپنےاشاعتی سفر کا آغاز کیا۔ اس سےتین ماہ پہلےرانا صاحب کی ادارت میں پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز (اسلام آباد) کےسہ ماہی مجلےConflict and Peace Studies کا پہلا شمارہ شائع ہوا تھا۔ اگرچہ ’’تجزیات‘‘ کی پرنٹ لائن سےیہ بات واضح نہیں کہ اس کا مذکورہ ادارےسےکوئی باضابطہ تعلق ہےیا نہیں، تاہم ادارےکی دلچسپیوں اور ’’تجزیات‘ ‘کےمشتملات میں اشتراک موجود ہے۔’’نقطۂ نظر‘‘ کےسائز میں۱۰۴ سے۱۳۸ صفحات تک کی کم وبیش ضخامت کےآٹھ شمارےہمارےپیشِ نظر ہیں۔ ہر شمارہ چہار رنگےٹائیٹل ڈیزائن اور کارڈبورڈ کی جلد کےساتھ نہایت اعلیٰ معیار ِ طباعت پر پیش کیا گیا ہے۔ ہر شمارےکےمشتملات موضوعاتی اعتبار سےچند اجزاء میںمنقسم ہیں،اور ہر جزو ِ شمارہ بلیک اینڈ وائٹ ،مگر پُرمعنی تصویر کےحامل separator سےالگ کیا گیا ہے۔
’’تجزیات‘‘ کےاوّلیںشمارےمیںجناب سجاد اظہر نےواضح کیا ہےکہ وطن عزیز بحرانی دور سےگزر رہا ہے، اور بحران کا حل،مختلف زاویہ ہاےنظر رکھنےوالوںکا باہم ایک دوسرےکو نیچا دکھانےکی خواہش میںنہیں،بلکہ ان کےدرمیان مکالمےکو فروغ دینےمیںہے، نیز مکالمےکےدوران میںاُن سوالوںکو پیش نظر رکھنےکی ضرورت ہےجولڑائی جھگڑےمیںبوجوہ تشنۂ جواب رہ جاتےہیں۔ اس سلسلےمیںنہایت انکسار کےساتھ انہوںنےاپنےرویےکا تعین ان الفاظ میںکیا ہے:
ہم اس تشنگی کو ختم نہیںتو حتی المقدور کم کرنےمیںضرور کامیاب ہوںگے۔ ہمارا شمار لڑنےوالوںمیںنہیں،صلح جوؤںمیںہو گا۔ ہم جلتی پر تیل ڈالنےوالےنہیںہوںگے،بلکہ اس آگ پر پانی ڈالنےوالےاور اسےچراغِ راہ میں بدلنےوالےہوںگے۔ (شمارہ جنوری ۲۰۰۹ء ،ص ۶)
’’تجزیات‘‘ کےایک مستقل فیچر ’’راہِ حق‘‘ کےقلم کار جناب مجتبیٰ محمد راٹھور نےاپنی پہلی تحریر میں ادارتی زاویہ نظر کی تائید ان الفاظ میں کی ہے:
بحث ومناقشہ اورتبادلۂ خیالات ان اہم عوامل میں سےہیں جو فکر ونظر کےنکھار اور سلامتی، نیز حقیقت تک رسائی کی راہ میں حائل رکاوٹوں اور غلطیوں کےازالےمیں مدد دیتےہیں۔ بحث و مناقشہ اور تبادلۂ خیالات سےمسئلےکےتمام پہلو واضح ہوجاتےہیں۔ اس کےحدود متعین ہوجاتےہیں،کچھ نئی آراء سامنےآتی ہیںجو سوال کا اطمینان بخش جواب تلاش کرنےاورمسئلےکےکامیاب حل تک پہنچنےمیںمدد دیتی ہیں۔ غور وفکر ہی تعلیم و تعلّم کا اہم طریقہ ہےاور یہ قوتِ فکر ہی انسان کو حیوان سےممتاز کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نےہمیںحکم دیا ہےکہ حصولِ علم ومعرفت کےاہم وسیلہ کےطورپر ماہرین سےمشورہ کیا جائے۔ ارشاد ربانی ہے: ’’سوتم اہل کتاب [کذا: اہلِ ذکر] سےپوچھ لو۔ اگر تم علم نہیںرکھتے۔‘‘ (الانبیاء،آیت نمبر۷)۔ اس آیت سےسوال کی اہمیت اجاگرہوتی ہے،اور اہلِ علم کا مقام بھی واضح ہوتا ہے،اس لیےہر انسان کو بنیادی طورپران تمام خصوصیات کا علم ہونا چاہیےجو اسےدوسرےانسانوںسےممتاز کریں۔ ماہنامہ ’’تجزیات‘‘ کی بنیاد غور وفکر اور فکر ونظر پر رکھی گئی ہےتاکہ معاشرےمیںپیدا ہونےوالےنت نئےمسائل کا حل تلاش کیا جا سکےاور اس کےساتھ ساتھ دینِ اسلام کےان روشن پہلوؤںکو ا جاگر کیا جائےجن سےمعاشرےمیںامن وسلامتی کو فروغ مل سکے۔ (شمارہ جنوری ۲۰۰۹ء،صفحات ۹۔۱۰)
مغربی میڈیا میں جن اصطلاحات کا چلن ہے، انہیں ہمارےہاںکسی تحفظ اور غور وفکر کےبغیر قبول کر لینےکا رجحان عام ہے۔ کچھ عرصہ پہلےتک برصغیر کےمسلم اہل دانش کو اصلاح پسند، روایت دوست اور بنیاد پرست طبقوں میں تقسیم کیا جاتا تھا۔ قطع نظر اس تقسیم کےدرست یا نادرست ہونےکے، اصلاح پسندوں کےبالمقابل کل کےروایت دوست علماء اور بنیاد پرست اہلِ علم کو آج مجموعی طورپر بنیاد پرست قرار دیا جانےلگاہے، پھر بنیاد پرست کی جگہ شدت پسند اور عسکریت پسند کی متبادل اصطلاح استعمال کی جانےلگی، اور اب اس سےآگےبڑھ کردہشت گرد کی اصطلاح چُن لی گئی ہے۔
اس حوالےسے’’تجزیات‘‘ نےتسلسل کےساتھ تحریریں شائع کی ہیں۔ پہلےشمارے(جنوری) میں جناب خالد احمد کی جون ۱۹۹۵ء کی ایک تحریر ’’بنیاد پرستی دراصل کیا ہے؟‘‘ نقل کی گئی ہے۔ یہ تحریر اصلاً ازہر منیر کےکتابچے’’بنیاد پرستی کیا ہے؟‘‘ کی تلخیص ہے۔ تلخیص نگار کےالفاظ میں جناب ازہر منیر نےاس کتابچےمیں’’امریکہ میں بنیاد پرستی کےتصور کی تاریخ کو واضح کرنےکی کوشش کی ہےاور اس عمل کےدوران اُنہوں نےہماری بنیاد پرستی کےکچھ بنیادی اوصاف کو منکشف کر دیا ہے‘‘۔ (ص ۱۲)
’’بنیاد پرستی‘‘ کی منفی اصطلاح امریکہ کےلبرل پروٹسٹنٹ مسیحیوں نےاپنےاُن ہم مذہبوں کےبارےمیں استعمال کی جو بائبل کےمتن کی تشریح روایت کےمطابق لغوی اعتبار سےکرتےتھے۔ پروٹسٹنٹ مسیحیت کی اس اصطلاح کو کسی دوسرے مذہب کی تفہیم وتشریح میں استعمال کرنا چنداں درست نہیں۔ مغربی ذرائع ابلاغ اور بعض اہل علم نےبنیاد پرستی کی اصطلاح کو اسلام اور دوسرے مذاہب کےپیروکاروں کےلیےبھی بےدھڑک استعمال کیا ہے، مگر اب وہاں کےعلمی حلقوں میں یہ احساس پیدا ہو گیا ہےکہ پروٹسٹنٹ مسیحیت کی اس ’’کلامی‘‘ اصطلاح کو اسلام جیسےادیان کےلیےاستعمال کرنا درست نہیں(دیکھیے: Mark Juergensmeyer, The Cold War? Religious Nationalism Confronts the Secular State برکلے: یونیورسٹی آف کیلی فورنیا پریس،۱۹۹۳ء) ۔جہاں تک اسلام اور مسلمانوں کاتعلق ہے، کتنےلوگ ہیں جو قرآن حکیم کی تشریح وتعبیر میں لبرل اور عقلیت پسندانہ فکر کےداعی ہیں؟ ہمارےہاں سرسید احمد خان اور مولوی چراغ علی وغیرہ جیسےاکادکا جن اہلِ قلم نےیہ راستہ اختیار کیا تھا، اُن کےساتھ بعض دوسرےکاموں میں تعاون کرنےوالوں نےبھی اُن کےمذہبی خیالات اور تعبیرات کی تائید نہیں کی۔ قرآن مجید کی تشریح وتفہیم کےاعتبار سےامتِ مسلمہ بحیثیتِ مجموعی اُس تفریق کا شکار نہیں جس سےپروٹسٹنٹ مسیحیت کو گزرنا پڑا ہے۔
ہم امریکی پروٹسٹنٹ مسیحی بنیاد پرستوںکےخصائص کو وطنِ عزیز کی اکثریت پر چپکا کراپنےمعاشرےکی کیاخدمت انجام دےرہےہیں؟سیاسی پروپیگنڈےکی زبان کےبجائےاسےعلمی انداز میںدیکھنےکی ضرورت ہے۔
’’تجزیات‘‘ کےدوسرےشمارے(بابت فروری۲۰۰۹ء) میںجناب طارق رحمن کی ایک گفتگو کی تلخیص دی گئی ہےجس میںانہوںنےا س سوال کا جواب دیا ہےکہ ’’شدت پسندی ،دینی مظہر ہےیا لادینی؟‘‘ اُن کےنزدیک برصغیر کےنوآبادیاتی دور میںایک ’’چھوٹےسےگروپ‘‘ نےدینی حوالےسےجہاد کا راستہ اختیار کیا،مگرمغربی دُنیا میںانارکسٹوںنےاپنےنظریےکےمطابق خالصتاً ایک دُنیوی مقصد (ریاست کےخاتمے) کےلیےشدت پسندی اور دہشت گردی کی راہ اپنائی تھی۔ آج دینی اور لادینی دونوںطرز کےمحرکات شدت پسندی کو پروان چڑھا رہےہیں۔ اُن کی گفتگو کا ماحصل یہ ہےکہ ’’اگر ہم اپنےنظام سےاس مظہر [شدت پسندی] کےاثرات کو کم کرنا چاہتےہیںتو ہمیںپہلےاپنی غلطیوںاور کمزوریوںکو دُور کرنا ہو گا،اور پھر ان وجوہات کو ختم کرنا ہو گا جو غصے،غیرمنصفانہ رویےاور شکایات کو معاشرےمیںپھلنےپھولنےمیںمدد دیتےہیں۔‘‘ (ص ۱۰)
اسی شمارےمیںمدیراعلیٰ کےقلم سےایک تحریر ’’ردِنظریات کی بحث اور جواب طلب سوالات‘‘ میںاولاً یہ کہا گیا ہےکہ عمومی تأثر کےمطابق ’’اسلامی تشدد پسندی کا اس وقت ایک خاص قسم کےشدت پسند فرقےکےساتھ گہرا تعلق بن چکا ہے‘‘ (ص ۱۳)۔ اس گروہ کی شدت پسندی سےنمٹنےکےلیےبطور ردنظریات تصوف یا صوفی ازم کو بڑھاوا دیا گیا۔ اہل حدیث،دیوبندی اور بریلوی مکاتب فکر سےوابستہ تنظیموںکا جائزہ لینےکےبعد جناب مدیراعلیٰ اس نتیجےپر پہنچےہیںکہ ’’پاکستان میںمتبادل اسلامی نظریہ جیسا کہ صوفی ازم ہے،اس کو ترجیح دینےسےکوئی خاص کامیابی نہیںہوئی‘‘ (ص ۱۷) ۔ اور آخر میںلکھا ہےکہ ’’شدت پسندی کو ختم کرنےکےلیےایک مکمل لائحۂ عمل ترتیب دینےکےلیےضروری ہےکہ اس مسئلہ کےتمام نکات کو زیربحث لایا جائےاور مسلم معاشروںمیںردِنظریات کو فروغ دینےکےاثر ورسوخ پر بھی نظر ڈالی جائے۔‘‘ (ص۱۱)
اس تحریر میںیہ بنیادی تاریخی حقیقت پیش نظر نہیںرہی کہ سلفی نقطۂ نظر رکھنےوالےیا دارالعلوم دیوبند کےکلامی نقطۂ نظر سےاتفاق کرنےوالےہمیشہ شدت پسند نہیںتھے؟ اور اسی طرح تصوف کےسلسلوںسےوابستہ رہنےوالےجہاد کےمنّاد بھی رہےہیں۔ شمالی افریقہ کےسیدی محمد بن علی السنوسی (م۱۸۵۹ء) کی جماعت ہو یاداغستان کےامام شامل ،وہ تصوف سےاپنی بھرپور وابستگی کےباوجود آزادی کےتحفظ کےلیےلڑتےرہےہیں۔ حالیہ شدت پسندی کےاسباب میںداخلی خرابیوںاور کمزوریوںپر توجہ دینےکےساتھ اُن خارجی عوامل کو بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہےجو کمزور اور نحیف امتِ مسلمہ کو احتجاج پر مجبور کرتےہیں۔
تیسرےشمارے(بابت مارچ۲۰۰۹ء) میں’’غربت اورعسکریت پسندی کا جوڑ‘‘ تلاش کیا گیا ہے۔ مضمون نگار کےبقول ’’جوبات مختلف بحث مباحثوںکےبعد سامنےآئی ہے،اس سےپتا چلتا ہےکہ غربت اور معاشی بدحالی کی شرح نےانتہاپسندی کےپھلنےپھولنےمیںسب سےاہم کردار ادا کیا ہے‘‘ (ص۱۵)،تاہم انہوںنےجناب سہیل عباس کی کتاب کےحوالےسےبتایا ہےکہ ہری پور اور پشاور کی جیلوںمیںقید افغانستان کےطالبان کے۵۱۷ ہمدردوںکےکوائف سے: ’’یہ بات سامنےآتی ہےکہ جہادیوںکا تعلق پاکستان کےتمام سماجی طبقات سےہے۔ ۔۔۔[ان] لوگوںکی کثیرتعداد دینی مدرسوںسےفارغ التحصیل نہیںتھی،بلکہ عام ا سکولوںسےپڑھ کر[ آئی تھی] اور خواندگی کی اوسط شرح سےاُن کی تعلیم کا درجہ بلند تھا‘‘ (ص۱۶)۔ مضمون نگار نےدوسرےدوتجزیہ کاروںکرسٹائن فیر اور شنواری کی سروےرپورٹوںکا ذکر کیا ہےجن سےواضح ہوتا ہےکہ جہادیوںمیںبےروزگاروںکی تعداد پچاس فیصد ہے۔ اس کےبعد مضمون نگار نےوطنِ عزیز کےچاروںصوبوںمیںغربت کی شرح کےاعدادو شمار پیش کیےہیںجو سوشل پالیسی ڈیویلپمنٹ سنٹر کے۰۲۔۲۰۰۱ء کےفراہم کردہ ہیں۔ ان کےمطابق پنجاب کی ۲۶فیصد،سندھ کی ۳۱ فیصد،سرحد کی ۲۹ فیصد اور بلوچستان کی ۴۸ فیصد آبادی خطِ غربت پرہے۔
ایک دوسرےسروے(ورلڈ فوڈ پروگرام/ ایس ڈی پی آئی۔۲۰۰۳ء) کےمطابق ۱۲۰ اضلاع میں۶۲ فیصد دیہات کےلوگوںکی خوراک تک رسائی مخدوش تھی،اور اُن کی قوتِ خرید نہایت محدود تھی۔ (ص ۲۳)
غربت اور عسکریت پسندی کےدرمیان کیا تعلق ہے؟ مضمون نگار نےنتیجہ نکالا ہے:
سہیل عباس اور فےئر دونوںکےاعدادوشمار سےیہ بات سامنےآئی ہےکہ عسکریت پسند تنظیموںمیںشامل سب سےزیادہ لوگوںکا تعلق پشاور،ہری پوراور آزادجموںوکشمیر کےعلاقوںسےتھا جہاںغربت کی شرح نسبتاً کم ہےاور انسانی ترقی کا انڈکس بلند ہے،جب کہ بلوچستان سےعسکریت پسندوںکی تعداد نہ ہونےکےبرابر رہی،حالانکہ بلوچستان میںسیاسی صورتِ حال کبھی بھی اچھی نہیںرہی۔ ‘‘ (شمارہ مارچ ۲۰۰۹ء،ص۲۴)
وطنِ عزیز میںدہشت گردی کےہونےوالےواقعات کی رپورٹنگ کےساتھ ان کےمالہٗ وماعلیہ پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس سلسلےمیںایک امریکی طالب علم جوشوا۔ ٹی۔ وائٹ کی ایک تحریر ’’شدت پسندی ،اس کا تدارک اور ریاستی ذمہ داریاں‘‘ شاملِ اشاعت کی گئی ہے(شمارہ بابت اپریل۲۰۰۹ء )۔ بعد کےشماروںمیںعسکریت پسندی کی عملی صورتوںمیں’’ تحریک ِطالبان ‘‘ اور ’’القاعدہ‘‘ کےبارےمیںلکھتےہوئےوزیرستان اور سوات میںاُن کی عسکریت پسندانہ سرگرمیوںاور بالخصوص سوات میںطالبان کےساتھ حکومتِ سرحد کی بات چیت،معاہدوںاور اُن کےانجام پر گفتگو کی گئی ہے،اور ان امور کےمختلف پہلو وںپر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس سلسلےمیںجناب سلطان روم کی تحریر ’’سوات: حقیقت اور افسانےکےدرمیان‘‘ قابلِ مطالعہ ہے(شمارہ بابت جون ۲۰۰۹ء)،اگرچہ اُنہوںنےمذا کرات کےذریعےمسئلۂ سوات کا جو حل تجویز کیا تھا،اُس پر عمل نہ ہو سکا،تاہم آج کےحالات میںمعاشرتی بہبود اور عسکریت پسندی کےجراثیم ختم کرنےکےلیےگفت وشنید کا راستہ کھلا رہنا چاہیے۔
عسکریت پسندی اور شدت پسندانہ زاوےۂ نظر کےحوالےسےدینی مدارس وطنِ عزیز میں( اور مغربی اداروںمیںبھی) متعدد مطالعات کا موضوع بنےرہےہیں،’’تجزیات‘‘ نےبھی ایک شمارے(بابت جولائی۲۰۰۹ء) کا تقریباً آدھا حصہ اسی موضوع کےلیےوقف کیا ہے۔ ’’مدرسوںکی سیاسی اساس اور مختلف جہتیں‘‘ (محمد عامر رانا) ،’’پاکستانی مدارس کےمسائل‘‘ (کرسٹین فےئر) اور ’’دینی مدارس کےنصاب کی تشکیل جدید‘‘ (قبلہ ایاز) مسائل و معاملات کی تفہیم میںمدد دیتےہیں۔ کرسٹین فےئر کی بعض تاریخی معلومات درست نہیں،اوران سےحاصل کردہ نتائج سےبھی بدلائل اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ دینی مدارس کےحوالےسےحکومتی اور ذرائع ابلاغ کی سطح پر متعدد اصلاحی تجاویز پیش کی گئی ہیں،مگراس سےزیادہ اہم وطنِ عزیز کا پورا نظام تعلیم ہے۔اس میںدین اور دُنیا کی ثنویت کیوںہے؟ ہمارےجدید تعلیمی نصاب اور نظام میںیہ صلاحیت ہونا چاہیےکہ پاکستان کاہر مسلمان طالب علم دینِ اسلام کی مبادیات اچھی طرح جان لے،تاکہ مسلمان ہونےکےتقاضوںکو اپنی زندگی میںپورا کرسکے۔ اس کےبعد اگر کوئی طالب علم عالمِ دین بننا چاہےتو اس کےلیےاسلامی علوم میںاعلیٰ تعلیم کےلیےاُسی طرح ادارےموجود ہوںجیسےفنی تعلیم کےمتنوع ادارےکام کر رہےہیں۔ نوآبادیاتی دور میںدینی اور دنیوی تعلیمی اداروںکا قیام تو سمجھ میںآتا ہے،مگر حصولِ آزادی کےبعد مملکت خدادادِ پاکستان میںعمومی دینی تعلیم ایک طبقےہی کی نہیں،بلکہ پوری قوم کی ضرورت ہے۔ دومتوازی نظام ہاےتعلیم کی جگہ ایک نظامِ تعلیم پرغور وفکر کی ضرورت ہے،اور یہی مسئلےکا حل ہے۔
دینی جماعتوںکےحوالےسے’’تجزیات‘‘ میں’’جماعۃالدعوۃ۔ محض فلاحی ادارہ یا تحریک‘‘ اور ’’تبلیغی جماعت،اپنےکردار کےآئینےمیں‘‘ کےزیرعنوان مدیر اعلیٰ جناب محمد عامر رانا کےدومضامین شائع ہوئےہیں۔ پہلےمضمون میں’’جماعۃالدعوۃ‘‘ کےدائرۂ کار کےحوالےسےگفتگو کی گئی ہے،جیسا کہ مضمون کےعنوان سےظاہر ہے،اور یہ نتیجہ نکالا گیا ہےکہ ’’جماعۃالدعوۃ ایک مکمل تحریک معلوم ہوتی ہےجو خدمت اور جہاد سےلےکر سیاست تک میںاپنا کردار ادا کرتی رہی ہے۔‘‘ (شمارہ بابت جنوری۲۰۰۹ء،ص۲۲) دوسرےمضمون کا عنوان ،اس کےاصل مقصود سےہٹا ہوا ہے۔ تبلیغی جماعت کےخلاف اہل حدیث اور بعض دیوبندی علماء کےاعتراضات کا ذکر کیا گیا ہے،اور پھر جماعت کےبارےمیںمغرب کے’’شبہات اور تحفظات‘‘ پر گفتگو کی گئی ہے۔ مغرب کے’’شبہات وتحفظات‘‘ کےحوالےسےاہم پہلو سامنےآئےہیں۔ مضمون نگارکو شکوہ ہےکہ ’’پاکستان میںتبلیغی جماعت کےکردار اور اثرات کےحوالےسےاس نہج پر تحقیقی اور علمی کام نہیںہو سکا جس کی یہ متقاضی تھی۔ ۔۔۔البتہ بھارت میںاس موضوع پر چند تحقیقی مقالات لکھےگئےہیںجن میںسرفہرست یوگندرسکند کا مقالہ ہےجس پر انہیںڈاکٹر آف فلاسفی کی ڈگری بھی ملی۔ ۔۔۔‘‘ (شمارہ بابت جون۲۰۰۹ء،ص۱۴)۔ پاکستان میںتحقیق کا جو عمومی رجحان او ر معیار ہے،اس کےمطابق ہی تبلیغی جماعت پر لکھا گیا ہے،البتہ تبلیغی جماعت کےبارےمیںپاکستانی اہل قلم (جیسےمحمدخالدمسعود اور ممتاز احمدصاحبان) کی اہم تحریریںپاکستان سےباہر شائع ہوئی ہیں،اور ہندوستان نژاد یوگندر سکند کےجس مقالۂ تحقیق کا ذکر کیا گیا ہے،وہ بھی یونیورسٹی آف لنڈن میںپیش کیا گیا تھا ،البتہ اورینٹ لانگ مین کےاہتمام سےدہلی سےشائع ہوا۔ اس مقا لۂ تحقیق The Origin and Development of the Tablighi Jama’at (1920-2000):A Cross-Country Comparative Study (اُردو ترجمہ،سعودالحسن خان روہیلہ،’’ تبلیغی جماعت کا آغاز و نشو ونما: سہ ملکی تقابلی مطالعہ‘‘ ،کوئٹہ : غزنوی کتب خانہ،دسمبر ۲۰۰۰ء ) کی ’’کتابیات‘‘ سےبڑی حد تک واضح ہےکہ تبلیغی جماعت پر تجزیاتی لٹریچر مناسب مقدار میںموجود ہے،اور اس میںپاکستانی اہل قلم کا بھی حصہ ہے۔ ’’تجزیات ‘‘ کےمضمون میںتبلیغی جماعت کےکردار پر وقیع ماخذوںکےبجائےبحیثیتِ مجموعی اخبارات وجرائد کےمضامین اور کالموںپرانحصار کیا گیا ہے۔
شدت پسندی اور دہشت گردی کےمختلف مظاہر،نیز ان سےجنم لینےوالےمسائل پر تبادلۂ خیال کےساتھ ادارہ ’’تجزیات‘‘ نےجن دوموضوعات کوبالخصوص پسند کیا ہے،ان میںسےایک برطانیہ میںمقیم پاکستانی مسلمانوںکی سماجی صورتِ حال اور اس میںنوجوانوںکی مبےّنہ شدت پسندی ہے،دوسرا موضوع وطنِ عزیز کےذرائع ابلاغ میںشدت پسندی کےنفوذ یا عدم نفوذ کی بحث ہے۔
برطانیہ میںمقیم پاکستانی مسلمانوںکےحوالےسےمقالات کےعنوانات یہ ہیں: lمیرپور اور برطانیہ میںبٹےپاکستانی : معاشرتی ،ثقافتی اور مذہبی تناظر میں(شمارہ بابت جنوری۲۰۰۹ء،نیز بابت فروری۲۰۰۹ء lبرطانوی نژاد پاکستانی اور امریکہ کی تشویش (شمارہ بابت مارچ۲۰۰۹ء ) lبرطانیہ میںمسلمانوںکےپہلےقدم (شمارہ اپریل۲۰۰۹ء) lبرطانیہ میںپاکستانی طلبہ کی گرفتاری (شمارہ بابت مئی۲۰۰۹ء ) lبرطانوی نوجوان مسلمان،القاعدہ کا آسان ہدف (شمارہ بابت جون۲۰۰۹ء) lبرطانیہ ۔ مذہبی و شخصی آزادی (شمارہ بابت جولائی۲۰۰۹ء) lبرطانیہ میںپاکستانی امام (شمارہ بابت اگست۲۰۰۹ء)ان معلوماتی مضامین کےساتھ برطانیہ میںمقیم باخبر اور صاحب الرائےافراد کےانٹرویوز بھی شامل کیےگئےہیں۔ برطانیہ میںپناہ گزینوںکےمسائل کےحوالےسے’’یوکےامیگریشن ہیلپ‘‘ کےسربراہ،بریڈ فورڈ میںمسلمان کمیونٹی کےکاروباری،تعلیمی اور سماجی مسائل پر نظر رکھنےوالےرہنما ڈاکٹر محمد علی،برمنگھم کےلارڈ مےئر کونسلر عبدالرشید اور ایک کشمیری سیاست دان سے،جو برطانوی شہریت کےمالک ہیں،گفتگو کی گئی ہے۔
برطانیہ میںاسلام اور مسلمانوںکےحوالےسےگزشتہ ۲۰۔۲۵برسوںمیںخاصا لٹریچر مرتب ہوا ہے۔ برطانیہ کےتکثیری معاشرےمیںنہ مسلمانوںکےوجود کو نظرانداز کیا جا سکتا ہےاور نہ اُن کےمسائل ہی سےپہلوتہی کی جا سکتی ہے،چنانچہ برطانیہ میںحکومتی سطح پر بھی متعدد رپورٹیںسامنےآئی ہیں،جن میںمسلمانوںکےوجود کو ایک حقیقت کےطورپر تسلیم کیا گیا ہے۔ ’’تجزیات ‘‘ نے’’برطانیہ میںمسلمانوںکےپہلےقدم‘‘ کےزیرعنوان جو تحریر شائع کی ہے،اصلاً وہ دولت مشترکہ آفس لندن کےشائع کردہ کتابچے’’برطانوی مسلمان‘‘سےماخوذ ہے۔
’’تجزیات‘‘ میںجن افراد نےبرطانیہ میںمقیم پاکستان نژاد مسلمانوںکےمسائل،الجھنوںاور صلاحیتوںکےبارےمیںلکھا ہے،ان میںسےبعض اس موضوع پر ایک عرصےسےپڑھ لکھ رہےہیں،اُن کی تحریریںشائع شدہ ہیںاور وہ صورتِ حال سےبخوبی واقف ہیں۔ جناب سجاد اظہر،مدیر ’’تجزیات‘‘ ان میںسےایک ہیں۔ سجاد اظہر نےاپنی تحریر ’’برطانیہ میںپاکستانی امام‘‘ میںبتایا ہےکہ آج برطانیہ میں کم وبیش بیس لاکھ مسلمان آباد ہیں،ان میںسےتقریباً نصف کا تعلق پاکستان کےمختلف شہروںاور بالخصوص آزاد کشمیر او ر ضلع اٹک کی تحصیل حضرو سےہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہےکہ ’’برطانیہ میںپاکستانی اور بنگلہ دیشی مسلمانوںکی دوتہائی اکثریت خطِ غربت سےنیچےزندگی گزار رہی ہے۔‘‘ مسلم کونسل آف بریٹن کےاعدادوشمار کےمطابق برطانیہ میں۵۸۴ مساجد کام کر رہی ہیں،جب کہ ایک دوسرےذریعےکےمطابق ان مساجد کی تعداد نوسو کےقریب ہے۔ یہ مساجد زیادہ تر پاکستانی اور بنگالی مسلمانوںکی زبانوں،برادریوںاور علاقائی تعلق کےطورپر پہچانی جاتی ہیں،اور ان کےمنتظمین بھی اپنی علاقائی اور گروہی مذہبی شناخت کو اہمیت دیتےہیں۔ جہاںتک پاکستان نژاد مسلمانوںکی مساجد کا تعلق ہے،ان کےامام صاحبان پاکستان سےبغرضِ ’’امامت وخطابت‘‘ بلائےجاتےرہےہیں۔ یہ لوگ جناب سجاد اظہر کےذرائع کےمطابق بالعموم کوئی زیادہ پڑھےلکھےنہ تھے۔ مقامی زبان،کلچر اور مسلمان کمیونٹی کو درپیش مسائل کےبارےمیںاُن کا کوئی وژن نہیںتھا۔ نتیجہ یہ ہےکہ نہ تو وہ اپنےمقتدیوںکی صحیح رہنمائی کرسکے،اور نہ مستقبل میںذمہ داریاںاٹھانےوالےبچوںکو مناسب تعلیم وتربیت فراہم کرسکے۔ مضمون نگار کی رائےمیں’’مساجد میںپڑھنےکےلیےجانےوالا بچہ مولوی سےاس لیےنالاںہےکہ اس کو مسجد میںوہ ماحول میسر نہیںجوسکول میںہےاورسکول کا ماحول اس ماحول سےقطعی مختلف ہےجو اس بچےکو پاکستان سےآئےہوئےمولوی صاحبان فراہم کرتےہیں۔‘‘ (شمارہ بابت اگست۲۰۰۹ء،ص ۹۱)
مضمون نگار نےان ’’بہروپیوں‘‘ کا ذکر بھی کیا ہےجو امام اور عالم کےطورپر برطانیہ گئے،اورپھر شیطانی کاموںمیںالجھ گئے۔ برطانوی پریس میںجس طرح ان کےکرتوتوںکو اچھالا گیا،اُس سےنہ صرف برطانیہ میںمقیم پاکستانی مسلمانوںکےامیج کو نقصان پہنچا،بلکہ ائمۂ دین کی شہرت بھی داغ دار ہوئی۔
مضمون نگار نےان مساجد کےانتظام وانصرام کا چندا ںذکر نہیںکیا جہاںنسبتاً بہتر اور باخبرعلماء فریضۂ امامت وقیادت انجام دےرہےہیں۔ بعض مسلمان قائدین نےبرطانیہ کےمذہبی منظرنامےمیںادارہ سازی،مکالمہ بین المذاہب اور رنگ ونسل اور زبان وعلاقہ سےبالاتر ہوکر اسلام کا پیغام اپنوںاور غیروں،سب کو پہنچایا ہے،اور ان کی خدمات کا اعتراف مذہبی اور علمی دونوںسطحوںپر کیا جا رہا ہے۔ اگر آخرالذکر پہلو پیشِ نظر رکھا جاتا تو مضمون میںimam bashing کا جو غالب تاثر ہے،وہ درست تناظر میںآ جاتا۔
پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کےمنصوبوںمیںذرائع ابلاغ کےرویوںپر غور وفکر شامل ہے،اس لیے’’تجزیات‘‘ کےپہلےشمارےمیں’’انگریزی پریس سے‘‘ کےزیرعنوان ماہنامہ ’’نیوز لائن‘‘ (کراچی) کی ایک خصوصی رپورٹ کا ترجمہ پیش کیا گیا،نیز انسٹی ٹیوٹ کی تیسری میڈیا ورکشاپ کی کار روائی شائع کی گئی ہے۔ میڈیا ورکشاپ میںاس امر پرزور دیا گیا کہ ’’پاکستانی میڈیا شدت پسندوںاور اُن کی کار روائیوںکو جس طرح بڑھا چڑھا کر پیش کرتا رہا ہے،اس سےنہ صرف شدت پسندگروہوںکو تقویت مل رہی ہے،بلکہ یہ شدت پسندی کےرجحان میںاضافےکا بھی سبب بن رہا ہے‘‘ (شمارہ بابت جنوری۲۰۰۹ء،ص ۱۰۷)۔اس میڈیا ورکشاپ کی بازگشت اگلےشمارےمیںبھی سنائی دیتی ہے۔ میڈیا میںشدت پسندی کےحوالےسےانٹرویوز پر مبنی ایک رپورٹ،اور سروےکےنتائج بھی پیش کیےگئےہیں۔ جون ۲۰۰۹ء کےشمارےمیںماہنامہ ’’ہیرالڈ‘‘ کی ایک رپورٹ کا ترجمہ شائع کیا گیا ہے،جس میںایک بارپھر اس مسئلےپر روشنی ڈالی گئی ہےکہ ’’میڈیازیراثر ہےیا با اثر‘‘۔
وطنِ عزیز کے’’روشن خیال‘‘ حکمرانوںکو کسی مشورہ دینےوالےنےمشورہ دیا تھا کہ مدارس اور ان سےوابستہ علماء،اور بعض سیاسی قوتیںنفاذِ شریعت کی دعوت دےکر معاشرےمیںشدت پسندی کا باعث بن رہی ہیں،اُن کےاثرات کم کرنےکےلیےمدرسےکی جگہ خانقاہ کےتصورات کو فروغ دیا جائے(اس امر کی جانب گزشتہ سطور میںبھی کچھ ذکرآ چکا ہے)،کیوںکہ صوفی کی خانقاہ میںہرطرح کےلوگ جاتےہیںاور وہ کسی سےکوئی تعرض نہیںکرتا۔ حکمرانوںکو ایسےصوفی تو نہ مل سکےجو اپنےذاتی تقویٰ اور للہیت کےتحت لوگوںکےلیےمراجع کا کردار ادا کرتے،اُنہوںنےکچھ سیاست دانوںاور ’’باذوق اشراف‘‘ پر مشتمل صوفی کونسلیںقائم کیںاور موسیقی کی مخلوط محفلیںمنعقد کر کےبہ زعم خود عامۃالناس کو صفائےقلب کا راستہ دکھایا۔ ان محفلوںسے،جن میںشوبز کےچمکتےدمکتےستاروںکی چکاچوند بھی ہوتی تھی،تصوف کی جانب عامۃالناس کا رجوع معلوم! اسی سلسلےمیںبعض اہلِ قلم اور ’’تجزیات‘‘ جیسےجرائد نےشدت پسندی کی مذمت کےساتھ تصوف اور اس کےمختلف پہلوؤںپر مضامین شائع کیے۔ ’’تجزیات‘‘ کےایک شمارے(بابت اپریل۲۰۰۹ء) کے۳۲ صفحات دومضامین ’’اسلام پر صوفی ازم کےاثرات‘‘ اور ’’کشمیر کےبڑےصوفی مراکز‘‘ کےلیےمختص ہیں۔ اول الذکر مضمون جولین بالڈک (Julian Baldick) کی تالیف Mystical Islam (لندن: آئی۔بی۔ ٹورِس،۱۹۸۹ء)کی تلخیص پر مشتمل ہے۔ جناب مصنف نےیہ ثابت کرنےکی کوشش کی ہےکہ مسلم تصوف مسیحی پس منظر میںوجود میںآیا تھا،جس نےمسلم معاشرےمیںبتدریج اپنا مقام پیدا کیا۔ تصوف کا ارتقاء دکھانےکےلیےتاریخی تناظر میںمختلف صوفی شخصیتوںکےبارےمیںایک ایک دو دو پیراگراف قلم بند کیےہیں۔ جناب مصنف اپنےزاوےۂ نظر میںکتنےواضح ہیں؟ اس پر دو رائیںہو سکتی ہیں،مگر تلخیص نگار کےبارےمیںکسی دوسری رائےکی گنجائش نہیںکہ اُن کا اخذ واقتباس اور تلخیص کا معیاربہت کمزوراور ناقص ہے،نیز اُنہیںمسلم تاریخ یا صوفیہ سےچنداںکبھی کوئی لگاؤ نہیںرہا۔وہ نہ تو مسلم متصوفین سےواقف ہیں(تستری،خراز،حلاج،سلمی،قشیری اور ابن الفارض کو بالترتیب تستوری،خاراز،حالاج،سالانی،قشائری اور ابن فرید لکھا گیا ہے۔ ذوالنون مصری اور عین القضاۃ ہمدانی کو تو انہوںنےنئےنام ذوالنورین اور قرۃالعین بخش دیےہیں) اور نہ ان کی کتابوںیا اصطلاحات سے۔ (’’کتا ب المواقف‘‘،’’کتاب اللمع‘‘ اور ’’نظم السلوک‘‘ کو بالترتیب کتاب الموافق،کتاب العلومیہ اور نظم السلوق قلم بند کیا گیا ہے،’’شطح‘‘ کو ’’شاتو‘‘ اور ’’رباط ‘‘کو ریبات پڑھا گیا ہے۔)
دوسرا مضمون ’’کشمیر کےبڑےصوفی مراکز‘‘ اس تناظر میںشاملِ اشاعت کیا گیا ہےکہ’ ’آج دنیا میںکشمیر کی پہچان انتہاپسندانہ سرگرمیوںکےحوالےسےہورہی ہے۔ ۔۔۔ زیرنظر مضمون میںکشمیر کےبڑےصوفیاء اور اُن کی تعلیمات کا جائزہ لیا گیا ہےجس سےیہ مقصود ہےکہ ماضی میںیہاںشدت پسندی نہیںتھی اور اگر اب آ رہی ہےتو اس کو حالاتِ حاضرہ کےپس منظر میںدیکھنےکی ضرورت ہے‘‘ (شمارہ اپریل ۲۰۰۹ء،ص ۹۳)۔ مضمون میںسےّد علی ہمدانی،میاںمحمد بخش (صاحبِ ’’سیف الملوک‘‘) ،للّہ عارفہ،شیخ نورالدین ولی،سائیںسخی سہیلی سرکار،قاضی فتح اللہ (گلہار شریف)،پیر سےّد نیک عالم شاہ اور پیر چناسی کا تعارف دیا گیا ہے۔
تصوّف کےحوالےسےکوئی تیسری مستقل بالذات تحریر تو شائع نہیںہوئی،البتہ ’’پنجاب کےصوفی دانش ور‘‘ اور ’’پنجاب دی صوفیانہ روایت‘‘ کےلکھنےوالےقاضی جاوید سےایک انٹرویو میںیہ سوال پوچھا گیا ہےکہ ’’موجودہ صورت حال میںصوفیا [کذا: صوفیہ]کی تعلیم کی کیا اہمیت ہےاور اس کےلیےکون سا راستہ اختیار کیا جا سکتا ہے؟‘‘
ہم پر یہ واضح نہیںکہ جناب قاضی صاحب ذاتی طورپر اسلام اور اس کی تعلیمات کو کتنی اہمیت دیتےہیں،تاہم ایک پڑھےلکھےشخص کےطورپر اُنہوںنےصوفیہ کی آ ڑمیںاپنےلبرل عزائم اور خواہشات پوری کرنےوالوںکےطرزِعمل پر پانی پھیردیا ہے:
جس بات کو ہم صوفیا کی تعلیم کہتےہیں،وہ بجائےخود ایک مبہم بات ہے۔ مختلف صوفیاےکرام کی تعلیمات مختلف رہی ہیں۔ وہ کئی گروہوںا ور مکاتبِ فکر میںمنقسم رہےہیںاور ان کےخیالات کا کوئی ایسا مجموعہ موجود نہیںجو ہم آہنگ ہو،تضادات سےپاک ہو اور جس پر ہم صوفیا کی تعلیم کا لیبل بےدریغ لگا سکیں۔ آپ چوںکہ جنوبی ایشیا کے،یعنی متحدہ ہندوستان کےتناظر میںگفتگو کر رہےہیں،اس لیےمیںیہ عرض کر وںگا کہ یہاںبہت سےصوفی ایسےرہےہیںجو مذہبی تقسیموںسےبالاتر ہوکر عالم گیر محبت اور انسانوںکی برابری کی تعلیم دیتےہیں۔ آج ہم اُن کا بہت چرچاکرتےہیںاور سمجھتےہیںکہ ان کی تعلیمات کےاحیاء سےان نفرتوںپر قابو پایا جا سکتا ہےجنہوںنےبدقسمت خطےکو گھیر رکھا ہے۔۔۔،مگر یہاںایسےصوفی بھی موجود رہےہیںجو انسانوںکو ایک دوسرےکےنزدیک لانےکی بجائےاُن میںفاصلوںکو بڑھانےپر زور دیتےتھے۔ تصوف کی داخلی دنیا میںوہ کوئی چھوٹےموٹےلوگ نہ تھے،یعنی ایسےنہ تھےکہ جن کو نظرانداز کیا جا سکے۔ (شمارہ بابت جولائی۲۰۰۹ء،صفحات ۱۱۴۔ ۱۱۵)
صوفیہ کےمختلف طرزہاےعمل کےذکر اور تصوف کو اس کےتمام ترتانےبانےکےساتھ عہدِ حاضر میںزندہ کرنےکو ناممکن العمل قرار دینےکےبعد قاضی صاحب نےفلسفۂ وحدت الوجود کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ اُن کےنزدیک ’’وحدت الوجود کا نظریہ ہےجو آج ہمیںدرکار ہےتاکہ ہم میںبرداشت کا حوصلہ پیدا ہو سکے،ہم دوسروںکےساتھ مل جل کر رہنا سیکھ سکیں،اونچ نیچ اور امتیازات کو رد کر سکیں۔‘‘
قاضی صاحب نےاس امر پر زور دیا ہےکہ تقسیم ہند کےبعد حکومتِ ہندوستان نےہندو۔مسلم تفریق کم کرنےکی کوشش کی،مگر پاکستان نےاس کےبرعکس رویہ اختیار کیا۔ ہندو ۔ مسلم تفریق پاٹنےکےلیےاگر ہندوستانی قیادت نےیہ کہا کہ ’’اہل وطن اگر کسی سبب سےایک دوسرےسےالگ ہوگئےہیںتو وہ پھر یک جان ہو جائیںگے‘‘،تو کیا اس کا نتیجہ پاکستان کےوجود سےانکار کےمترادف نہ تھا؟ اس پر مستزاد اگر عملی اقدامات بھی ایسےاٹھائےگئےہوںجو پاکستان کےلیےمشکلات پیدا کرنےوالےتھے،تو پاکستان میںکون باور کرسکتا تھا کہ ہندوستانی قیادت ہندو۔مسلم خلیج کم کرتےہوئےپاکستان کےساتھ پُرمحبت تعلقات قائم کرنےکی خواہش مند تھی۔
’’تجزیات‘‘ کےزیرنظر آٹھ شماروںمیںچار کتابوںDescent into Chaos (احمد رشید)،Recovering the Frontier State (رسول بخش رئیس)،’’تہذیبی نرگسیت‘‘ (مبارک حیدر) اور ’’طالبانائزیشن : افغانستان سےفاٹا،سوات او رپاکستان تک‘‘‘ (عقیل یوسف زئی) پر تبصرےشائع ہوئےہیں،اور Probing the Jihadi Mindset (محمد سہیل عباس) کی تلخیص پیش کی گئی ہے۔ پانچوںکتابیں’’تجزیات‘‘ کےدائرہ ٔ مطالعات کےتحت منتخب کی گئی ہیں،اوران پر نقد ونظر سےزیادہ ان کےمندرجات کےتعارف پر اکتفاء کیا گیا ہے۔ ’’تہذیبی نرگسیت‘‘ (مبارک حیدر) میںاٹھائےگئےسوالوںسےقطع نظر ،غالباً اس کا لب ولہجہ خاصا سخت ہےکہ تعارف کنندہ کو لکھنا پڑا: ’’یہ بھی حقیقت ہےکہ جب افراد کو کچھ سمجھانا مقصود ہوتو اُن کی عزتِ نفس کی پاسداری کی جائے۔ ان کےنظریات اور عقائد کی ہتک اور تذلیل نہ کی جائے،خاص کر مذہب کی اہمیت،اس کےماننےوالوںکےلیےان کا کل سرمایہ ہوتی ہے،جس پر تنقید وہ برداشت نہیںکرتے۔ ۔۔۔ [غلط رویوںکی نشان دہی] کےلیےجو راستہ بھی اختیار کیاجائے،اس میںمیانہ روی اور انسانیت کےمعیار موجود ہوںتاکہ وہ خودبخود ایسےافراد کو لمحۂ فکریہ مہےّا کریں،جو ان کےعقائد کو مزید پختگی نہ دےاور نہ ہی تنقید برائےتنقید کا باعث بنے،کیوںکہ بعض اوقات خالص تنقید بھی نرگسیت کےمرض کی پیدائش کا باعث بن سکتی ہے۔‘‘ (شمارہ بابت مئی۲۰۰۹ء،صفحات ۱۱۷ ۔ ۱۱۸)
’’تجزیات‘‘ میںتحریروںکا ایک بڑا حصہ اخذ واقتباس کےذیل میںآتا ہے۔ اخبارات وجرائد میںشائع شدہ کالم (انگریزی کی صورت میںاُن کےترجمے) ،غیرملکی اہل قلم کی تحریروںکےتراجم اور بعض کتابوںکی تلخیصات اسی قبیل میںآتی ہیں۔ یہ تحریریںصحافیانہ تحقیق اور تلاش وتفحص اور رائےعامہ کےسرویز (surveys) پر مشتمل ہیں،اور ذاتی تجربات ومشاہدات کی روشنی میںتاثرات پر بھی،تاہم ادارۂ ’’تجزیات‘‘ کو یہ احساس رہا ہےکہ تحریروںمیںحوالوںکی شدید کمی پائی جاتی ہے،چنانچہ آٹھویںشمارے(بابت اگست۲۰۰۹ء ) میںیہ ’’ضروری وضاحت‘‘ کر دی گئی ہےکہ انگریزی سےترجمہ شدہ تحریروںمیںطوالت کےپیش نظر حوالےحذف کر دیےجاتےتھے،تاہم اس شمارےسےحوالےشامل کیےجا رہےہیں۔ (ص۶)
’’تجزیات‘‘ کےشماروںکی ورق گردانی کرتےہوئےاحساس ہوتا ہےکہ ادارۂ تحریر میںشامل قلم کاروںنےجب دینی موضوعات پر قلم اٹھایا تو عربی وفارسی زبانوںسےکچھ زیادہ مس نہ ہونےکی وجہ سےاُن کی تحریروںمیںاصطلاحات کی تفہیم اور تحریر کی غلطیاںدر آئی ہیں،تاہم آج کےموضوعات شدت پسندی ،دہشت گردی اور امن کےحوالےسےیہ ایک ایسی کاوش ہےجس کا باشعورلوگوںکی نظر سےگزرنا مفید ہو گا۔
جواب دیں