گریۂ بے صدا : دستاویزی فلم کی رونمائی
پاکستان میں پہلا ڈرون حملہ ۲۰۰۶ء میں ایک مدرسہ پر ہوا تھا، جس میں ۸۲معصوم بچے ہلاک ہو گئے تھے اور دنیا اس پر خاموش رہی تھی۔ اسے دہشت گردی کے خلاف ایک کارروائی سمجھا گیا اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ میں عام شہریوں کے نشانہ بننے پر ان کے ساتھ ہمدردی کا مکمل فقدان نظر آتا ہے۔
ان خیالات کا اظہار برطانیہ میں مقیم ایک پاکستانی مصنفہ اور سماجی کارکن محترمہ عائشہ غازی نے ڈرون حملوں پر اپنی بنائی گئی دستاویزی فلم ’’گریۂ بے صدا“(Suffering in Silence) کی تقریب رونمائی کے موقع پر کیا۔ انہوں نے انتہائی خطرناک حالات سے گزرتے ہوئے اپنا یہ تحقیقی کام مکمل کیا۔
اس دستاویزی فلم کے ذریعے انہوں نے فاٹا کے عوام کے اس کرب کو دنیا تک پہنچایا ہے، جس سے فاٹا کے باشندے کئی برسوں سے مسلسل گزر رہے ہیں۔ انہوں نے اس فلم میں دکھایا ہے کہ اس متنازعہ ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ میں ڈرون حملوں کا نشانہ بننے والے جنوب مغربی پاکستان کے علاقے پر کیا نفسیاتی اثرات مرتب ہوئے ہیں، یہاں کے نو عمر بچوں میں غصے اور انتقام کی شدت میں جو اضافہ ہو رہا ہے اس سے اِس علاقے اور مجموعی طورپر پورے ملک میں کیا معاشرتی اثرات ظاہر ہو رہے ہیں۔
دستاویزی فلم ’’گریۂ بے صدا‘‘ کی تقریب رونمائی اتوار یکم دسمبر ۲۰۱۳ء کو انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد میں منعقد ہوئی۔ اس تقریب کا اہتمام آئی پی ایس کے پروگرام لرننگ، ایکسی لینس اینڈ ڈویلپمنٹ (IPS-LEAD) اور پاکستانی نوجوانوں کی تنظیم پوزیٹو پاکستان کے اشتراک سے کیا گیا۔
تقریب سے آئی پی ایس کے ڈائریکٹر جنرل خالد رحمن، سینئر صحافی محسن رضا خان اور آئی پی ایس کے سینئر ایسوسی ایٹ بریگیڈیئر )ریٹائرڈ( سیدنذیرمہمند نے بھی خطاب کیا۔
دستاویزی فلم تیار کرنے والی تحقیق کار محترمہ عائشہ غازی نے کہا کہ میرے لیے یہ سفر ایک طرف ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کی اوٹ میں چھپے خوف ناک واقعات اور رونگٹے کھڑے کر دینے والے سچ اور دوسری طرف بے حس ٹھنڈے خون والی منافقت کو قریب سے دیکھنے کا سفر تھا۔ انہوں نے کہا کہ اگر جنگ کا اصل مقصد دنیاکو محفوظ جگہ بنانا اور معصوم شہریوں کی حفاظت کرنا تھا تو دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں پچاس ہزار معصوم پاکستانی شہریوں کے قتل کا ہر گز کوئی جواز نہیں تھا۔ یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ رنگ و نسل کے امتیاز کے بغیر زندگی کا حق ہر شہری کے لیے یکساں قابلِ احترام ہے۔ پھر ہم پچاس ہزار معصوم پاکستانی شہریوں کے قتل کی اجازت کیسے دے سکتے ہیں؟ ڈرون حملوں میں ہلاک ہونے والے تین ہزار لوگوں میں سے اُن دو ہزار معصوم شہریوں کے قتل کی کیا قانونی بنیاد ہے جنہیں ’’نامعلوم افراد‘‘ کہہ کر مقتولین کی گنتی سے بھی خارج کر دیا جاتا ہے؟ میڈیا اور سرکاری حکام ڈرون حملوں میں ہلاک ہونے والوں کو آنکھیں بند کرکے کیونکر تشدد پسند کہہ دیتے ہیں خواہ یہ ڈرون حملے کسی نمازِ جنازہ کے موقع پر ہوئے ہوں یا کسی جرگہ کی تقریب کو نشانہ بنا کر کیے گئے ہوں؟ انہوں نے سوال کیا کہ ڈرون کے ذریعے باجوڑ میں اسکول کے ۸۲ بچوں کے قتل کے واقعہ کو دہشت گردی کے خلاف کارروائی قرار دینے پر ابھی تک اصرار کرنے کا آخر کیا جواز ہے؟
دیگر مقررین اور شرکاء نے بھی اپنے احساسات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جغرافیہ تبدیل ہونے سے المناکی کے ان واقعات کی حساسیت میں فرق نہیں آتا۔ منافقت کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ زندگی اور پُرامن زندگی کا حق ہر انسان کے لیے برابر ہے۔ فاٹا میں رہنے والے معصوم بچے کی زندگی کو بھی اتنا ہی قیمتی سمجھا جانا چاہیے جتنا نیو یارک میں رہنے والے معصوم بچے کی زندگی کو سمجھا جاتا ہے۔ کسی قریبی پیارے کی موت کا دکھ یا کسی صحت مند بچے کے یک لخت معذوری کی کیفیت میں تبدیل ہو جانے اور عمر بھر اسی کیفیت میں رہنے کا دکھ ہر مقام پر یکساں ہوتا ہے۔
نوعیت: روداد سیمینار (فلم کی تقریب رونمائی)
تاریخ: یکم دسمبر ۲۰۱۳ء
جواب دیں