صنفی مسائل: بین الاقوامی ذمہ داریاں اور مقامی قانون سازی
مختلف تعلیمی و سماجی اداروں، این جی اوز کےنمائندوں اور قانون کےپیشہ سےوابستہ افراد نےشرکت کی جن میں خواتین کی بڑی تعدادبھی شامل تھی۔
سابق چئیرمین اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر ایس ایم زمان نےکہا کہ مغرب اپنی طاقت کےبل بوتےپر اپنی تہذیب اور اقدار کو پوری دنیا میں نافذ کرنا چاہتا ہے۔ گلوبلائزیشن کےنام پر نہایت قابل اعتراض سماجی وتہذیبی اقدارکو بین الاقوامی قانون اور معاہدات کےنام سےزبردستی دنیا پر ٹھونسا جا رہا ہے۔ سیاسی، سماجی، معاشی اور ابلاغی قوتوں اور سازشوں کےذریعےخصوصاً امت مسلمہ کو اس کےدینی ورثےسےدُور کرنےکی کوششیں مسلسل جاری ہیں۔ وہ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز کےزیر اہتمام’’صنفی مسائل: بین الاقوامی ذمہ داریاںاور مقامی قانون سازی‘‘ کےموضوع پر منعقدہ سیمینار میںصدارتی خطبہ دے رہےتھے۔ انہوں نےکہا کہ خواتین کےحقوق کےحوالہ سےسیڈا، بیجنگ کنونشن اور قاہرہ کنونشن میں بہت سی اچھی باتیںشامل ہیں لیکن کچھ امور نہ صرف مذہبی بلکہ ثقافتی رجحانات کےبھی صریحاً خلاف ہیں اور کوئی بھی انصاف پسند فرد اسےقبول نہیں کر سکتا۔ مثلاً معاشرے میںموجود معاشی و سماجی دباؤ اور غیراخلاقی رویوں کی زیادتی کی وجہ سےاگرکوئی خاتون استحصال کا شکار ہوتی ہےاور اسےجسم فروشی پر مجبور کر دیا جاتا ہےتو اس استحصالی نظام کےخاتمےکےبجائے’’سیکس ورکرز‘‘ کےحقوق کےتحفظ کےنام سےاس پیشےکو نہ صرف جائز بلکہ ’’معزز پیشہ‘‘ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ صریحاً عورت کی تذلیل کا رویہ ہے۔ اسی طرح نکاح اور شادی کو محض رسم اور غیر ضروری عمل کا درجہ دینا حد درجہ قابل ِ اعتراض ہے۔ اس طرح کےنظریات مسلم معاشروںمیں پھیلانےکی کوششیں ہمارے مستحکم خاندانی نظام کو تباہ کرنےکی سازشیں ہیں۔ ہمیں ان سےہوشیار رہنا ہو گا اور مضبوط اعصاب اور ایمانی طاقت کےساتھ اس نوعیت کےقابل اعتراض حصوں کو بین الاقوامی معاہدات سےخارج کروانےاور مؤثر طورپر اپنےتحفظات پیش کرنےکی جرأت کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔
اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کےاستاد پروفیسر مشتاق احمد نےاسی موضوع پر لیکچر دیتےہوئےبین الاقوامی قوانین کی مختلف اقسام اور ان کےنفاد کےحوالہ سےمختلف نظریات پر روشنی ڈالی ۔ نیز انہوں نےبتایا کہ آج کی دنیا میں بین الاقوامی سطح پراسلامی قوانین کیا کردار ادا کرسکتےہیں اور عالمی دباؤ کےباوصف ہم اپنےملک میںاسلامی قوانین کےنفاذ کےنتیجےمیںکن فوائد سےمستفید ہو سکتےہیں۔
انہوںنےکہا کہ ہمارا المیہ یہ ہےکہ دستور میں درج اعلیٰ قومی مقاصد کےباوجود بحیثیت قوم ہم نےبےسمت مسافر کا رویہ اختیار کیا ہوا ہے۔ بحیثیت قوم ہمیںاس رویہ کو ترک کرنا ہو گا اور پورے عزم کےساتھ منزل کی طرف بڑھنےکا رویہ اپنانا ہو گا۔
انہوں نےکہا کہ جب بین الاقوامی قوانین اور معاہدات بنائےجا رہےہوںتواُسی وقت سےہمیںاس عمل میںشریک ہونا چاہیےاور ان کی تشکیل وترتیب اورالفاظ کےچناؤ میں بہتر تجاویز کےساتھ حصہ لینا چاہیے۔ دوسرےمرحلہ میںبین الاقوامی قانون کو رسماً قبول کرنےاور اس پر دستخط کرنےسےپہلےمشاورت اور غور وفکر کر لینا چاہیےاور کچھ تحفظات ہوںتو اُسی موقع پر انہیں بیان کر دینا چاہیے۔ تیسرے مرحلہ میںریاستی سطح پر ان قوانین کی توثیق کےلیےہمیں شفاف طریقِ کار وضع کرناچاہیے۔ ایک فردکو توثیق کا اختیار دینےکےبجائےادارےکو اس کا اختیار دینا چاہیےاور یہ ادارہ ہمارےہاں پارلیمنٹ ہی ہو سکتا ہے۔ جہاں عوام کےنمائندےان قوانین کی توثیق سےپہلےخوب اچھی طرح غوروفکر اور بحث مباحثہ کر لیں،اور قومی سوچ کو اس فیصلےمیں منعکس کریں۔ آخری مرحلہ میں ان بین الاقوامی معاہدات اور قوانین کی روشنی میں قومی سطح پر ضروری قانون سازی کا عمل کیا جائے۔ ہماری قانون سازا سمبلی اپنی اصل ذمہ داری کو بہتر طورپر ادا کرے۔
پروفیسرمشتاق احمد نےشرکاء کےسوالا ت کےجوابات بھی دیے۔ خواتین کی بڑی تعداد اس پروگرام میںشریک رہی۔ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کےڈائریکٹرجنرل جناب خالدرحمن نےموضوع اور مقرر کا تعارف کراتےہوئےمختصر اظہارخیال کیا۔
جمعرات، ۲۱ مئی ۲۰۰۹
جواب دیں