سیمینار: توانائی کے شعبہ میں حکومتی کارکردگی ایک جائزہ
ماہرین نے توانائی کے شعبے میں حکومتی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر تمام منصوبوں پر صحیح طور پر عمل درآمد کیا گیا تو لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ وقتی طور پر تو 2017ء کے آخر تک ختم ہو جائے گا تاہم یہ توانائی کے بحران کا مستقل حل ثابت نہیں ہو گا کیونکہ اس کے پیچھے پائیدار منصوبہ بندی اور تمام ضروری عوامل کو پیش نظر رکھ کر، دوراندیشی کے ساتھ فیصلے کرنے کا فقدان نظر آتا ہے۔ یہ سب چیزیں اچھی حکمرانی، اداروں کی مضبوطی اور پائیداری پر منحصر ہوتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اچھی حکمرانی توانائی کے بحران کا طویل المدتی حل ہے۔
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد میں 18 نومبر 2015ء کو ایک سیمینار ہوا جس کا عنوان تھا:’’توانائی کے شعبہ میں حکومتی کارکردگی: نصف دورانیے کا جائزہ‘‘۔ اس سیمینار میں سابق وفاقی سیکرٹری پانی و بجلی اشفاق محمود، منصوبہ بندی کمیشن کے رکن (توانائی) سید اختر علی، توانائی کے شعبہ میں حکومتِ سندھ کے ایڈیشنل سیکرٹری ابوبکر مدنی اور سابق وفاقی سیکرٹری پانی و بجلی مرزا حامد حسن نے جو انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز میں توانائی پروگرام کے سربراہ اور ادارہ کی نیشنل اکیڈمک کونسل کے رکن ہیں، اظہارِ خیال کیا۔ اشفاق محمود نے حکومت کی کارکردگی کا تنقیدی جائزہ اس کے اسٹریٹیجک پالیسی فریم ورک 2013ء کے آئینے میں تفصیل کے ساتھ پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ حکومت کا بنیادی ہدف لوڈشیڈنگ کا خاتمہ تھا، تاہم اس کی پالیسیوں میں دیگر اہم متعلقہ امور بھی شامل تھے جن میں بجلی کی پیداوار میں اضافہ، تقسیم کا بہتر نظام، بجلی چوری کا خاتمہ، مالیات کا حصول، شفافیت، جواب دہی کا نظام اور صارفین کا خیال رکھنا شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ حکومت لوڈشیڈنگ کو کم کرنے میں کسی حدتک کامیاب رہی ہے تاہم یہ مسئلہ کا مستقل حل نہیں ہے جب تک کہ مذکورہ عوامل میں بھی بہتری نہ لائی جائے۔
حکومت نے 2017ء تک بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا ہدف مقرر کیا تھا، اس مقصد کے حصول کے لیے حکومت نے بجلی پیدا کرنے والی موجودہ کمپنیوں (GENCOs) کی کارکردگی بڑھانے کی طرف توجہ دی ہے، اگرچہ یہ کوششیں بھی ابھی تک بہت خراب کارکردگی کی حامل ہیں۔ نیپرا (NEPRA) کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق سرکاری شعبہ میں بجلی پیدا کرنے والے پلانٹس کی فعالیت ان کی ممکنہ مکمل صلاحیت کے مقابلے میں 11 سے 36 فی صد کم ہے اور حاصل شدہ بجلی میں سے بھی بجلی کی تقسیم میں ضیاع 9.47 فی صد سے 33.40 فی صد تک ہے۔
بجلی کی تقسیم کرنے والی کمپنیوں (DISCOs) میں سے کوئی ایک کمپنی بھی نیپرا کی جانب سے 14-2013ء میں ان کے لیے مقرر کیا گیا ہدف حاصل نہیں کر سکی۔ جب کہ نسبتاً بہتر خیال کی جانے والی کمپنیوں جیسے فیسکو، جیپکو، لیسکو اور آئیسکو میں گزشتہ سال کے مقابلہ میں ضیاع میں اضافہ دکھایا گیا ہے۔ یہ صورتِ حال بجلی کے ضیاع کو کم سے کم کرنے کی نیپرا کی ضروریات کے بالکل برعکس ہے۔
کوئلہ کو گیس میں تبدیل کرنے کا ہدف بھی کوئی پیش رفت حاصل نہ کر سکا۔ انرجی سولر پارک نے کام شروع کر دیا ہے اور بجلی کی پیداوار میں کچھ حصہ بھی ادا کر رہا ہے تاہم یہ مہنگا ہے۔
اشفاق محمود نے نئی بجلی کی پیداواری پالیسی 2015ء کو سراہتے ہوئے اسے درست راستے کی جانب ایک قدم تاہم ایک ادھورا قدم قرار دیا۔
سیمینار میں توانائی کے شعبے سے وابستہ دیگر شرکاء نے بھی مربوط منصوبہ بندی کی ضرورت پر زور دیا اور پالیسی کی کمزوریاں دور کرنے کی طرف متوجہ کیا تاکہ بہتر حکمرانی اور پالیسی کے تسلسل اور پائیدار ترقی کا ہدف حاصل کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ اگلے انتخابات میں زیادہ ووٹ حاصل کرنے کے لیے حکومت اپنی موجودہ پانچ سالہ مدت کے اندر زیادہ سے زیادہ کارکردگی دکھانے اور جلد مکمل ہو جانے والے منصوبوں کی طرف زیادہ توجہ دیتی رہی ہے اور لمبی مدت کے بڑے منصوبے جو سستی توانائی کے حامل ہوتے ہیں اور مستقل چلتے ہیں، ان کی طرف حکومت کی توجہ کم ہے۔ مسلسل قرضے لیتے رہنے کی قومی پالیسیوں پر نظرثانی ہونی چاہیے، خود انحصاری سب سے اہم ہے۔
سید اختر علی نے منصوبہ بندی کمیشن کی سوچ اور کام کے طریقے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت کی توانائی کے شعبے میں کی جانے والی کوششیں بے مثال ہیں، ماضی میں کبھی ایسی سرگرمی دیکھنے میں نہیں آئی۔ معاملات بتدریج بہتر ہو رہے ہیں۔
ابوبکر مدنی نے کہا کہ دستور میں اٹھارویں ترمیم کے بعد سے سندھ حکومت کی پالیسیوں میں انقلابی تبدیلیاں آئی ہیں اور سرمایہ کاروں کو توانائی کے شعبہ میں سرمایہ کاری کے لیے راغب کرنے اور صوبے میں موجود ممکنہ بہترین وسائل کو بروئے کار لانے میں پبلک اور پرائیویٹ پارٹنرشپ کی بنیاد پر بہترین کام کیا گیا ہے۔ انہوں نے خاص طور پر ایک نئے محکمے ’’کوئلہ اور توانائی بورڈ‘‘ کے قیام کا حوالہ دیا نیز سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے ’’سندھ ری نیوایبل انرجی کمپنی‘‘ کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت سندھ نے آئندہ پانچ سال میں سندھ کو توانائی کے شعبے میں نہ صرف خود انحصار بنانے کا عزم کیا ہوا ہے بلکہ زائد توانائی دوسرے صوبوں کو بھی فراہم کی جائے گی۔
جواب دیں