پاکستان میں آبی نقل و حمل: امکانات، اقدامات اور حکمتِ عملی
دریاؤں اور نہروں کے ذریعے سامان کی نقل و حمل، پیسے کی بچت اور ماحول کا بچاؤ، کاربن کریڈٹس کے لیے کمائی، یہ وہ پہلو تھے جن پر جہاز رانی اور سروے انجینئرنگ کے ماہرین، صنعت کاروں، حکومت کے محکموں اور قانونی ماہرین نے اپنی رائے کا اظہار آئی پی ایس میں منعقدہ ایک سیمینار میں کیا ۔ اس سیمینار میں آبی نقل و حمل کے میدان میں پاکستان کی صلاحیت، ترقی کے امکانات اور حکمت عملی کی تشکیل پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے تحت منعقد ہونے والا یہ سیمینار اس انتہائی اہمیت کے حامل موضوع پر اپنی نوعیت کا پہلا عوامی سیمینار تھا جس میں اس میدان میں پاکستان کی بے پناہ صلاحیت کی موجودگی پر گفتگو ہوئی۔
سابق چیئر مین میری ٹائم ٹاسک فورس نعیم سرفراز، سیکرٹری واپڈا امتیاز تاج وَر، ایگری ٹیک لمیٹڈ کے ٹیکنیکل ایڈوائزر ریاض خان اور گوادر پورٹ اتھارٹی کے سابق ڈائریکٹر جنرل کموڈور ایم اظہر مقررین میں شامل تھے جبکہ سابق سیکرٹری وزارت پانی و بجلی مرزا حامد حسن نے صدارت کے فرائض سرانجام دیے۔
مقررین نے بتایا کہ پاکستان میں وسیع و عریض دریاؤں کا پانی اور نہروں کا پھیلا ہوا سلسلہ صدیوں سے نقل و حمل کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے۔ تاہم آج کل آبی گذرگاہوں پر کارگو کا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔ حالانکہ اس حقیقت کو سب جانتے ہیں کہ اس طرح سے ملک میں ایندھن کی بھاری بچت حاصل کی جا سکتی ہے اور مہنگے درآمد شدہ ایندھن پر بے انتہا انحصار کو کم کیا جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں جس ایندھن کی بچت ہو گی اسے بجلی پیداکرنے میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں آبی نقل و حمل کے لیے دریاؤں اور نہروں میں موجود صلاحیت کے بارے میں جو خدشات موجود ہیں ان پر گفتگو کرتے ہوئے نعیم سرفراز نے ان شبہات کو رفع کیا اور کہا کہ پاکستان کے پاس 30,000 کلومیٹر طویل آبی گذرگاہیں جہاز رانی کے لیے موجود ہیں۔ اس موضوع پر کیے گئے دو درجن سے زائد مطالعے اور سروے اسے قابل عمل، منافع بخش اور پائیدار منصوبہ قرار دیتے ہیں۔ تاہم انہوں نے انکشاف کیا کہ ان تمام جائزوں میں سے کسی کی بھی پیروی نہیں کی گئی اور آج صورت حال یہ ہے پاکستان دنیا میں وہ واحد ملک ہے جس کے پاس آبی گذر گاہیں تو ہیں لیکن وہ انہیں اندرون ملک کارگو کے لیے استعمال نہیں کرتا۔
بیشتر شرکاء کے چہرے یہ سن کر دمک اٹھے کہ ایک ٹن کارگو کو 180 کلومیٹر کے فاصلے تک لے جانے پر صرف ایک لیٹر ایندھن استعمال ہو گا جبکہ اس کے برعکس ریل کے ذریعے یہی فاصلہ 75 کلومیٹر اور سڑک کے ذریعے 25 کلومیٹر ہوتا ہے۔ دوسری طرف سڑکوں کی توڑپھوڑ کی نسبت دیکھ بھال کے اخراجات نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔ مزید یہ کہ تیل کی درآمد کا بل کئی ملین ڈالر کم ہو جائے گا۔ انہوں نے دریاؤں میں پانی کی کمی کے خیال کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ 500 ٹن کارگو کے لیے پانی کی گہرائی 5 فٹ درکار ہے جبکہ 1500 ٹن وزن کی نقل و حمل کے لیے 9 فٹ گہرائی درکار ہے۔
امتیاز تاج وَر نے بتایا کہ 1958ء میں واپڈا کے قیام کے وقت سے اسے اندرون ملک بحری جہازوں کے ذریعے نقل و حمل کا پروگرام وضع کرنے کی ذمہ داری تفویض کی گئی تھی پھر بھی وہ اپنے اس ایجنڈے پر توجہ مرکوز نہیں کر پایا۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں اندرونِ ملک پانی کے ذریعے سامان لانے لے جانے کی موجودہ صلاحیت 267 ارب ٹن ہے۔ 2009ء میں سمندری صنعت کی بہتری کے لیے حکومت کی طرف سے قائم ٹاسک فورس کی سفارشات کے مطابق یہ منصوبہ اب کاغذی کار روائی کی آخری منزل پر ہے اور اس کا پی سی 2 پہلے ہی حکومت کو پیش کیا جا چکا ہے۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ جونہی قانون پاس ہو جاتا ہے اور فنڈز، جو کہ دستیاب ہیں، مختص کر دیے جاتے ہیں تو ابتدائی مرحلہ شروع کر دیا جائے گا۔ اور یہ منصوبہ داؤدخیل اور نوشہرہ کے درمیان ہے۔
کموڈور اظہر نے کیے گئے سروے کے خدوخال اور نتائج کے بارے میں شرکاء کو آگاہ کیا جبکہ ریاض خان نے منصوبے کے اقتصادی طور پر قابل عمل ہونے پر زور دیا۔ بہت سے دیگر پہلو بھی زیرِ گفتگو آئے جن میں منصوبے میں حائل رکاوٹیں، آبی گذرگاہوں پر پالیسی سازی، مرکز اور صوبوں کے درمیان تعاون کا طریقہ کار اور اندرونِ ملک پانی کی نقل و حمل پر موجود اتھارٹی کا تیار کردہ مسودہ قانون شامل تھے۔ یہ بات بھی سامنے آئی کہ سرکاری اور پرائیویٹ شعبے پہلے سے ہی یکسو ہیں کہ یہ منصوبہ جلد از جلد شروع ہونا چاہیے۔
ماہرین نے بحث کا اختتام اس بات پر کیا کہ اس فروغ پذیر منصوبے کے لیے درکار تمام ضروری اجزاء موجود ہیں صرف جس چیز کی ضرورت ہے وہ سیاسی قوتِ فیصلہ ہے۔
نوعیت: روداد سیمینار
تاریخ: ۲۰ جون ۲۰۱۳ء
جواب دیں