سیمینار: انسداد سائبر جرائم بل 2015ء کا جائزہ
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، اسلام آباد میں ہونے والے ایک سیمینار میں ماہرین نے اپنی آراء دیتے ہوئے کہا کہ انسداد سائبر جرائم بل 2015ء میں تکنیکی اور قانون سازی کے پہلوئوں سے بہتری لائی جانی چاہیے۔ مجوزہ انسداد سائبر جرائم بل کی خوبیوں اور خامیوں پر جامع گفتگو کرتے ہوئے تمام ماہرین اس بات پر متفق تھے کہ قانون سازی کو حتمی شکل دینے سے پہلے اس پر ایک جامع ،زیادہ متوازن اور تکنیکی اعتبار سے مضبوط نقطۂ نظر اپنانے کی ضرورت ہے۔
انسدادسائبر جرائم بل 2015ء کے حوالہ سے یہ سیمینار 13مئی 2015ء کو منعقد ہوا اور اس کا عنوان تھا ’’سائبر جرائم بل 2015ء پر نقطہ ہائے نظر‘‘۔ سیمینار کی صدارت سابق سینیٹر اور آئی پی ایس کے چیئرمین پروفیسر خورشید احمد نے کی۔ جبکہ اہم مقررین میں میجر (ریٹائرڈ) طاہر اقبال رکن قومی اسمبلی سٹینڈنگ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی و ٹیلی کام؛ اور انٹرنیٹ سروس پرووائڈر ایسوسی ایشن آف پاکستان کے کنوینر وہاج السراج شامل تھے۔
میجر (ریٹائرڈ) طاہر نے مجوزہ بل کے پس منظر کا مختصر تعارف کرواتے ہوئے بتایا کہ اس کا مقصد انٹرنیٹ کا محفوظ اور تعمیری استعمال ممکن بنانا ہے تاکہ ملکی وسائل کی حفاظت اور طاقت ور سائبر سکیورٹی کے ذریعے سماجی تحفظ کو ممکن بنایا جا سکے جس میں غیر مناسب مواد تک بچوں کی رسائی، نفرت انگیز تقاریر، نامناسب تشہیر اور سائبر دہشت گردی سے بچائو شامل ہیں۔ نیز غیر مجازدخل اندازی اور مالیاتی جرائم جیسے عوامل پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ ملک میں سرمایہ کاری کے ماحول کے لیے ملٹی نیشنل آئی ٹی اور ای کامرس کے لیے ساز گار ماحول کوممکن بنایا جاسکے۔
وہاج السراج نے بل کی موجودہ شکل پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس میں بہت سے ایسے قوانین کو دوبارہ شامل کر دیا گیا ہے جن پر پہلے ہی قانون سازی ہوچکی ہے۔ جبکہ کئی دیگر تکنیکی پہلوئوں سے بھی اس میں عدم مطابقت ہے۔ انہوں نے کہا کہ بل میں شامل بہت سی شقوں سے احساس ہوتا ہے کہ ان کے ذریعے سوشل میڈیا میں سیاسی اختلاف رائے کی بیخ کنی کرنا مقصود ہے جس کے نتیجے میں سماجی آزادی براہ راست یا بالواسطہ متاثر ہوسکتی ہے۔انہوں نے اس اقدام کو ایک غیر جمہوری رویہ قرار دیا بالخصوص اس صورت میں جبکہ مرکزی دھارے کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں اس سے ملتی جلتی کوئی پابندیاں وجود ہی نہیں رکھتیں۔قانو ن دانوں، انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہرین اور ماہر ین تعلیم پر مشتمل سیمینار کے شرکاء نے بل میں بہتری کے لیے بہت سی تجاویز دیں۔ جن میں سائبر جرائم کی واضح تعریف ،سائبر جرائم اور سائبر سکیورٹی کے درمیان امتیاز، کمپیوٹر ایمرجنسی ریسپانس ٹیموں (CERT)کے قیام، انٹرنیٹ کیفے کے قواعد و ضوابط، غیر ملکی سائبر مداخلت کاروں کے احتیاطی اقدامات، ہیلپ لائن کے قیام اور سرمایہ کاری سے متعلق سرکاری دفاتر اور دیگر عہدیداروں کو ضروری تکنیکی مہارت سے لیس کرنا شامل ہے۔
رکن قومی اسمبلی طاہر اقبال نے سیمینار کے شرکاء کی تجاویز اور آراء کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کام کی اسٹینڈنگ کمیٹی بل کا عمیق جائزہ لینے کی خواہش مند ہے جس کے باعث تعمیری تنقید اور تجاویز کو سنا جارہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس مقصد کے لیے 20مئی کو عوامی رائے جاننے کے لیے ایک پروگرام بھی رکھا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کمیٹی امید کرتی ہے کہ حکومت متعلقہ بین الاقوامی معاہدوں کی توثیق کے لیے پیش رفت کرے گی تاکہ نہ صرف بہتر بین الاقوامی امداد ممکن بنائی جاسکے بلکہ انفرادی حقوق کے تحفظات کی مزید ضمانت فراہم ہوسکے۔ انہوں نے سائبر جرائم کے سلسلے میں 2013ء کی قومی جوڈیشل کانفرنس کی سفارشات کو شامل کیے جانے کے خیال کو بھی سراہا۔
پروفیسر خورشید نے صدارتی کلمات ادا کرتے ہوئے کہا کہ اس بل کو قانون بنانے کا عمل اب پایہ تکمیل تک پہنچ جانا چاہیے کیونکہ اس سمت میں پہلے ہی کافی تاخیر ہوچکی ہے ۔ انہوں نے سٹینڈنگ کمیٹی کی طرف سے متعلقہ فریقوں کی تجاویز اور فیڈبیک حاصل کرنے کے خیال کی تعریف کی اور اسے ایک صحت مندجمہوری طریقۂ کار قرار دیا۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ سائبر جرائم سے بچائو کے لیے نہ صرف مضبوط، خطرات سے باخبر، ایک حتمی طریقہ کار وضع کیا جانا چاہیے بلکہ پوری توانائی اور عزم کے ساتھ اس پرعملدرآمد کو بھی یقینی بنایا جانا چاہیے۔
Seminar Outcomes: http://goo.gl/xkAt0q
جواب دیں