سیمینار: اقوام متحدہ کے 70 سال : کامیابیاں، ناکامیاں اور مستقبل
تجزیہ کاروں نے جہاں سماجی و معاشی ترقی کے شعبوں میں اقوام متحدہ کے کردار کی تعریف کی وہاں اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ یہ ادارہ متعدد سلگتے تنازعات کو حل کرنے میں ناکام رہا جن میں کشمیر اور فلسطین خصوصیت سے قابلِ ذکر ہیں۔ نیز امن کو یقینی بنانے کا ہدف بھی حاصل نہ ہو سکا جو اس ادارے کا اصل مقصدِ وجود تھا۔
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد کے زیر اہتمام ’’اقوام متحدہ کے 70 سال: کامیابیاں، ناکامیاں اور مستقبل‘‘ کے موضوع پر منعقدہ اس سیمینار کی صدارت سینئر سفارت کار ایم اکرم ذکی نے کی۔ 6 اکتوبر 2015ء کو ہونے والے اس سیمینار سے جن اہل دانش نے خصوصی خطاب کیا ان میں انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز اسلام آباد کے ڈائریکٹر جنرل اور سابق سفیر مسعود خان، ماہرِ قانون اور سابق وفاقی وزیر بیرسٹر احمربلال صوفی اور پاکستان کے سابق سفیر آصف ایزدی شامل ہیں۔ سیمینار میں اقوام متحدہ کی کارکردگی کا بھرپور جائزہ لیا گیا۔ اسلام آباد میں موجود غیر ملکی سفارت کاروں، سول سروس کے متعدد سابق افسروں اور سفارت کاروں نے بھی پروگرام میں شرکت کی۔
تجزیہ کاروں نے جہاں اقوام متحدہ کے ان نئے اقدامات کو سراہا جو ترقی کے لیے اس نے اٹھائے، وہاں اس پر سخت تنقید بھی کی کہ وہ بڑے ملکوں کے مفادات کے برعکس کوئی قدم اٹھانے سے معذور رہا۔
انہوں نے کہا کہ اس ادارے کی تعمیر میں خرابی کی صورت آغاز ہی سے مضمر رہی ہے جب تمام اقوام کو برابری کا درجہ دینے کا اصول چند بڑی طاقتوں کو ویٹو کا اختیار دے کر ختم کر دیا گیا اور ’’حق خود ارادیت‘‘ کا سنہری اصول فلسطینیوں کی مرضی کے برعکس ان کی سرزمین پر اسرائیل کی مملکت زبردستی قائم کر کے ملیا میٹ کر دیا گیا۔
عالمی سطح پر امن قائم رکھنے کے لیے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی خصوصی ذمہ داری کے حوالے سے شرکاء نے کہا کہ چھوٹے ملکوں کے مفادات میں زیادہ فعال کردار ادا کرنے کے بجائے یہ ادارہ بڑے ملکوں کی دخل اندازیوں کو روکنے میں ناکام رہا اور اس نے اکثر بین الاقوامی قوانین کی وہ تعبیر کی جو بڑے ملکوں کے مفادات کو مزید تقویت پہنچانے کا باعث بنی۔ اس کی ایک نمایاں مثال ’’ممکنہ جارحیت سے تحفظ‘‘ کی عملی تعبیر ہے۔
ماہرین نے کہا کہ ’’قانون کی بالادستی‘‘ قائم رکھنے کا اصول سوویت یونین کے انہدام کے بعد بہت بری طرح متاثر ہوا اور دنیا دوبارہ ’’طاقت کی بالادستی‘‘ کے قانون کے تحت چلی گئی جو طاقتور ریاستوں اور ساتھ ہی غیرریاستی عناصر نے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے قائم کیا اور ابھی تک جاری ہے۔ اس صورتِ حال کو اقوام متحدہ ختم نہ کروا سکا اور خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔ حتیٰ کہ ایٹمی عدم پھیلائو پر ایران کے ساتھ مغرب کا مکالمہ بھی اقوام متحدہ کی کسی کوشش کا حصہ دکھائی نہیں دیتا۔
اقوام متحدہ کے اندر اصلاحات کے پہلو پر گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کار اس بات پر متفق تھے کہ مستقبل قریب میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں کسی نئے مستقل ممبر ملک کے اضافے کا امکان بہت ہی کم ہے۔ اگر ایسا ہوا تو بہت سے دوسرے ملک اقوام متحدہ میں دوسرے یا تیسرے درجے کے ممبر کی حیثیت جاری رکھنے پر تیار نہ ہوں گے اور اس ادارے ہی سے الگ ہونے کا فیصلہ کریں گے اور یہ ادارہ ختم ہو کر رہ جائے گا۔
ماہرین نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کو تخلیقی سفارت کاری کا مظاہر کرنا چاہیے اور اقوام متحدہ میں اپنی حیثیت کو مزید مؤثر بنانا چاہیے۔ یہ تخلیقی سفارت کاری قانونی دلائل اور اصولی معاملات طے کروانے میں دکھائی جا سکتی ہے۔ ماہرین نے تجویز کیا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اضافے کی بنیاد ہمیشہ غیرامتیازی رویے اور مختلف خطوں اور مذاہب وغیرہ کی متناسب اور عدل پر مبنی نمائندگی کا اصول رہنا چاہیے۔
جن دیگر حضرات نے اظہارِ خیال کیا ان میں آئی پی ایس کے ڈائریکٹر جنرل خالد رحمن، سابق سفیر جناب خالد محمود، سابق سیکرٹری مرزا حامدحسن، ایرکموڈور ریٹائرڈ خالد اقبال، بریگیڈیر ریٹائرڈ سید نذیر، سکواڈرن لیڈر ریٹائرڈ طارق عبدالمجید بھی شامل ہیں۔
جواب دیں