قرآن کریم اور مستشرقین
یورپی سامراج کےدور میںجن علمی شعبوںکو خصوصی اہمیت ملی ان میںاستشراق نمایاںمقام رکھتا ہے۔ یہ سامراج کی ایک ضرورت تھی کہ وہ محکوم اقوام کی تاریخ، ثقافت، نفسیات اور ذہن کو سمجھنےاور حاصل کردہ معلومات کی روشنی میںایشیا اور افریقہ کی محکوم اقوام پر اپنےاقتدار و تسلط کو برقرار رکھنےکےلیےحکمت عملی وضع کرے۔ عموماً ایشیا اور افریقہ میںجو افواج بھیجی گئیںان کےساتھ جو پادری آئےانہوںنےمقامی زبانوںسےواقفیت حاصل کی اور عربی،اردو،سنسکرت اور افریقی زبانوںمیںموجود بعض کتب کےتراجم بھی کیے۔ ان میںایسی کتب بھی شامل تھیںجو مقامی افراد کےلیےغیر معمولی اہمیت رکھتی تھیںمثلاً برصغیر میںحنفی مسلک کی اکثریت تھی اور یہاںپر حنفی فقہ رائج تھا۔ جس کی بنیادی فقہی کتاب ہدایہ کا ترجمہ انگریزی میں۱۸۷۰ء میںکسی مسلمان ماہر لسانیات نےنہیںبلکہ Charles Hamelton نےکیا۔
مستشرقین نےمشرقی زبانوںمیںمہارت کےساتھ دیگر مذاہب کی بنیادی کتب اور عقائد پر بھی توجہ دی چنانچہ جرمن مستشرقین Thoedore Noldeke،اور A.J.Wensink نےبالترتیب قرآن کریم اور حدیث شریف پر تحقیقات کیں۔ اول الذکر نے۱۸۶۰ء میںGeschichate des Qorans طبع کی جسےنظرثانی اور اضافوںکےبعد Freadrick Schwally نےتین جلدوںمیں۱۹۰۹ء تا ۱۹۳۸ء طبع کیا جبکہ A.J. Wensinck نےA Handbook of Early Muhammadan Traditions Alphabatically Arranged, Leiden, 1960 میںحرفی ترتیب کےساتھ احادیث کی ایک قاموس مرتب کی۔
مستشرقین کی ان تحقیقات کا محرک بظاہر محض حصول علم نہ تھا بلکہ ان مصادر کی ایک ایسی تعبیر تھا جس سےخود مسلم ذہن متاثر ہو۔ چنانچہ نولدیکی نےقرآن کریم کو دیگر مذاہب کی الہامی کتب کی طرح انسانی ذہن کی تخلیق مانتےہوئےاسےترتیب نزولی کےلحاظ سےمرتب کرنےکی کوشش کی۔ اسی طرح Rodwell اور N.J.Dawood نےبھی قرآن میںتاریخی ارتقائی عمل کو بنیادی مفروضہ قرار دیتےہوئےانسانی ذہن کی تخلیق ثابت کرنا چاہا۔ اس نوعیت کی کوششوںکےپیچھےبظاہر ان محققین کےوہ تجربات تھےجو انہوںنےبائبل کےحوالےسےکیےتھے۔ عہدنامہ قدیم اور عہد نامہ جدید کی مختلف کتب کےمصنفین واضح طور پر انسان تھےاور انہی کےناموںسےوہ کتب منسوب ہوئیں۔ مزید یہ کہ ان کتب میںردو بدل اور ایک زبان سےدوسری زبان میںترجمہ ہونےکےعمل کےدوران جو ابہامات اور تضادات پیدا ہوئے،ان سب کو ذہن میںرکھتےہوئےعربی زبان کےماہر مستشرقین نےقرآن کریم کو بھی Biblical Criticism کےاصولوںپر جانچنا چاہا۔
بائبل پر Higher literary Criticism کا اطلاق کیا گیا تو یہ سوال اٹھا کہ عہد نامہ جدید کی اولین چار کتب میتھیو،مارک،لیوک اور جون (متی،مرقس،لوقا،یوحنّا) کب تصنیف کی گئیں۔ کیا یہ ۷۰ بعد مسیح سےقبل تحریر پا گئی تھیںیا بعد میںلکھی گئیں۔ عموماً یہ تسلیم کیا گیا کہ صرف مارک ۷۰ سےقبل تحریر پا گئی تھی بقیہ کی تحریر تقریباً سو سےڈیڑھ سو سال بعد مسیح کےدوران تکمیلکو پہنچی۔ یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ یہ سب ایک ہی مصدر سےنکلی ہیںیا ان کےمصادر متوازی اور مختلف Oral Traditions ہیں۔ چنانچہ Synoptic Problem نےایک عرصہ تک بائبل کےناقدین کو غلطاںو پیچاںرکھا۔
اس ذہنی پس منظر کےساتھ مستشرقین نےجب قرآن کی طرف توجہ کی تو اسےبھی بائبل پر قیاس کرتےہوئےوہی سوالات اٹھائےجو آجJoseph Puin اور Toby Lester اور کچھ عرصہ قبل John Wansbrough نےQuranic Studies: Source and Methods of Scriptural Interpretation, Oxford, 1977 میںاٹھائےتھے۔ اور جو عنقریب طبع ہونےوالی Encyclopaedia of the Quran میں،جو مشہور ولندیزی مطبع E.J. Brill،لائیڈن سےطبع کرےگا،اٹھائےجائیںگے۔ ان سوالات کو اختصار کےساتھ یوںنقل کیا جا سکتا ہے۔
۱۔ کیا قرآن کریم بھی بائبل کی تحریر کی طرح ڈیڑھ دو سو سال تک ترتیب و تدوین کےمراحل سےگزرتا رہا اور آخر کار دوسری صدی ہجری میںاسےوہ شکل دی گئی جو آج پائی جاتی ہے؟
۲۔ کیا قرآن کریم کےبارےمیںاس تصور کی بنیاد کہ اس کا ترجمہ نہ کیا جائےیا ترجمہ کو متن نہیںقرار دیا جائےگا اس بات پر ہےکہ قرآن خود عربی زبان میںایک گنجلک تحریر ہےاس لیےترجمہ اس میںمزید مشکلات میںاضافہ کا باعث بن سکتا ہے؟
۳۔ کیا قرآن بائبل کی مختلف کتب کی طرح سےاپنےدور کی معاشی،معاشرتی اور سیاسی تاریخ کو پیش کرتا ہےاور اس بنا پر ایک ذہنی ارتقاء کی نشان دہی کرتا ہے؟
۴۔ کیا قرآن بھی بائبل کی طرح ایک تاریخی دستاویز ہےجسےبعد کےادوار میںجوںکا توںرائج و نافذ نہیںکیا جا سکتا اور عیسائیت کی طرح اسلام کو بھی ایک Reconstruction اور Renaisance کی ضرورت ہےتاکہ اسلام کی ایک نئی عصری تعبیر کی جا سکےجو ماضی کےاثرات سےمبرا ہو۔
اس سےقطع نظر کہ یہ سوالات کہاںتک درست ہیںاور ان کےپیچھےکون سےمحرکات کارفرما ہیں،ان چاروںبنیادی سوالات کےمفصل جوابات مسلم علماء و مفکرین پر واجب ہیںان سوالات کو محض کم علمی پر مبنی قرار دےکر نظرانداز کر دینا یا اسےمغرب کی اسلام دشمنی اور ایک فکری صلیبی جنگ کی علامت قرار دےکر خاموش ہونا کافی نہ ہو گا۔
چاروںسوالات کی بنیاد جس مفروضہ پر ہےدراصل اس کا تعلق اسلام کےتصور ہدایت سےہے۔ فلسفہ اور مذہب،عالمی طور پر ہدایت،رہنمائی اور علم کےقابل اعتبار ذرائع یا تو عقل کو قرار دیتےہیںیا تجربہ کو یا وجدان اور اندرونی نفسی کیفیات کو۔ چنانچہ بدھ ازم ہو،ہندو ازم ہو،عیسائیت ہو یاعقل پرستی (Rationalism)،مادہ پرستی (Materialism)،تصوریت (Idealism) اور تجربیت (Empricism) یا وجدانیت (Intuitionism) و اسراریت (Mysticism) بطور ایک فلسفہ اور مذہب ان کےذرائع علم اور مصادر محدود (finite) اور تاریخی عمل کا حصہ ہیںجبکہ اسلام کا تصور ہدایت و رہنمائی کسی اندرونی تجربہ یا کیفیت یا عقلی اور ذاتی تفکر و ذہنی عمل کا نتیجہ نہیںبلکہ تاریخ سےماوراء خالق کائنات کےغیر محدود علم کی ایک متعین،واضح،اور ابدی ہدایت یا وحی (Revelation) کی شکل میںمنزل من اللہ ہونےپر مبنی ہے۔ یہاںیہ بات خود بخو ود واضح ہو جاتی ہےوحی ایک ایسا خارجی ذریعہ علم ہےجو نبی (صلی اللہ علیہ و سلم) کےذہن یا قلب کی داخلی کیفیت سےاپنی نوع (genus) کےلحاظ سےمختلف ہے۔
قرآن کریم نےخود اُن تمام ذہنی شکوک و شبہات کو قبل از وقت تصور کرتےہوئےیہ بات واضح کر دیا ہےکہ یہ کسی انسان کا کلام نہیںہےبلکہ عالمین کےرب کی طرف سےنازل ہوا ہے۔ چنانچہ فرمایا ’’یہ ایک رسول کریم کا قول ہے،کسی شاعر کا قول نہیںہے،تم لوگ کم ہی ایمان لاتےہو،اور نہ کسی کا ہن کا قول ہے،تم لوگ کم ہی غور کرتےہو،یہ رب العالمین کی طرف سےنازل ہوا ہے‘‘ (الحاقہ ۶۹: ۴۰ ۔ ۴۳)۔ ’’اور یہ کسی شیطان مردو کا قول نہیںہےپھر تم کدھر چلےجا رہےہو؟ یہ تو سارےجہاںوالوںکےلیےایک نصیحت (ہدایت) ہے،تم میںسےہر اس شخص کےلیےجو راہ راست پر چلنا چاہتا ہو‘‘ (التکویر ۸۱: ۲۶ ۔ ۲۸)
سورہ طہ میںیوںبیان کیا گیا ہے: ’’یہ اس ذات کا اتارا ہوا ہےجس نےزمین اور اونچےاونچےآسمان بنائے۔ ‘‘ (طہ ۲۰ ۔ ۴)۔ ایسےہی سورۃ المومن میںفرمایا ’’ح ۔م اس کتاب کا اتارا جانا ربِ غالب اور العلیم کی طرف سےہے‘‘ (المومن ۴۰: ۱ ۔ ۲)۔ یہی مضمون سورہ النمل ۲۷: ۶،سورہ الزمر ۳۹: ۱،سورہ الواقعہ ۵۶: ۸۰،الحاقہ ۶۹: ۴۳،الاحقاف ۴۶: ۲۱ اور الجاثیہ ۴۵: ۲۱ میںبیان کیا گیا ہے۔ گویا قرآن کریم اپنی قسم کےلحاظ سےان مذہبی کتب سےبنیادی طور پر مختلف اور منفرد ہےجن کےاکثر مصنفین کےناموںکا تعین بھی کرنا مشکل ہےاور وہ annonimity کا شکار ہیں۔
الکتاب اپنےبارےمیںیہ بات بھی واضح کرتی ہےکہ یہ نہ کسی محض تاریخی اور تہذیبی دور کی پیداوار ہےاور نہ ہی تاریخ میںمقید ہےبلکہ تاریخ کےایک نئےدور کا آغاز کرنےوالی تاریخ ساز کتاب ہدایت ہے۔ ’’ا ۔ ل ۔ م (یہ) ایک (پرنور) کتاب ہےاس کو ہم نےآپ ؐ پر اس لیےنازل کیا ہےکہ لوگوںکو اندھیرےسےنکال کر روشنی کی طرف (یعنی) ان کےپروردگار کےحکم سےغالب اور قابل تعریف (اللہ) کےراستےکی طرف لےجائیں‘‘ (ابراہیم ۱۴: ۱)۔ اس وضاحت کےساتھ قرآن کریم یہ بھی تعین کر دیتا ہےکہ اسےکس سال کس ماہ اور مہینہ کےکون سےحصےمیںنازل کیا گیا تاکہ وہ تمام قیاس آرائیاںجو اس کےسو دو سو سال تک گردش کرنےکےبعد یکجا کیےجانےکےبارےمیںلوگوںکےذہن میںپیدا ہو سکتی ہوںپہلےہی رفع کر دی جائیں۔ چنانچہ فرمایا گیا ’’ح ۔ م اس روشن (واضح) کتاب کی قسم کہ ہم نےاس کو مبارک رات میںنازل فرمایا بےشک ہم ڈرانےوالےہیں‘‘ (الدخان ۴۴: ۱ ۔ ۳)۔ پھر اس مبارک رات کو مزید واضح کر دیا کہ یہ رمضان میںتھی،’’رمضان کا مہینہ ہےجس میںیہ قرآن نازل ہوا جو لوگوںکےلیےہدایت ہےاور جس میںہدایت کی کھلی نشانیاںہیںاور جو حق کو باطل سےالگ کرنےوالی ہے‘‘ (البقرہ ۲: ۱۸۵)۔ پھر یہ بات بھی واضح کر دی گئی کہ یہ رمضان کےآخری عشرےمیںطاق راتوںمیںسےکسی ایک میںمکمل طور پر نازل ہوا ’’ہم نےاس (قرآن) کو لیلۃالقدر میںنازل کیا‘‘ (القدر ۹۷: ۱)۔ قرآن کریم کے۲۳ سال میںاجزاء میںنازل ہونےکو بھی الکتاب نےخود بیان کر دیا کہ ’’اور ہم نےقرآن کو تھوڑا تھوڑا کر کےنازل کیا ہےتاکہ آپ لوگوںکو ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سنائیںاورہم نےاس کو آہستہ آہستہ اتارا‘‘ (بنی اسرائیل ۱۷: ۱۰۶،مزید الدھر ۶۷: ۲۳)۔ قرآن کریم کی یہ اندرونی شہادت اس کےہر قاری کےلیےایک قطعی دلیل ہے۔
ان واضح بیانات کےباوجود جو اس کےمن جانب اللہ نازل ہونےکےبارےمیںکوئی شبہ رکھتےہوںانہیںقرآن کریم نےنہ صرف اپنےعربی مبین میںنازل شدہ کلام بلکہ اس جیسےمفہوم و ہدایت رکھنےوالی حکمت کی آیات کےحوالےسےیا دنیا کی کسی بھی زبان میں،اس کا متبادل لانےکی دعوت دےکر اس بات پر متوجہ کیا ہےکہ یہ انسانی فکر کی پیداوار نہیںہے۔ چنانچہ فرمایا کہ ’’کیا یہ لوگ کہتےہیںکہ پیغمبر نےاس کو اپنی طرف سےبنا لیا ہےکہہ دیجیےکہ اگر سچےہو تو تم بھی اس طرح کی ایک سورت بنا لاؤ اور اللہ کےسوا جن کو تم بلا سکو بلا بھی لو‘‘ (یونس ۱۰: ۳۸) یا یہ فرمایا گیا کہ اگر تم سچےہو تو اس جیسی دس سورتیںبنا لاؤ (ہود ۱۱: ۱۳) آخرکار دعویٰ کو مزید آسان بناتےہوئےکہہ دیا گیا کہ نہ دس نہ ایک سورت بلکہ اس جیسا کوئی کلام لےآؤ،چنانچہ ’’اگر یہ سچےہیںتو ایسا کلام بنا کر لائیں‘‘ (الطور: ۵۲: ۳۴) مزید (القصص ۸: ۴۹)۔ گویا قرآن کریم نےاپنےحوالےسےقیامت تک کےلیےتمام انسانوںکو دعوتِ عام دےرکھی ہےکہ اگر وہ یہ سمجھتےہیںکہ یہ کسی انسان کا کلام ہےتو پھر ان خوبیوںاور خصوصیات والا کلام دنیا کی کسی بھی زبان میںبنا کر لےآئیں۔
اسی طرح اس تصور کےبارےمیںکہ قرآن کریم میںتکرار مضامین اور الجھےہوئےمضامین پائےجاتےہیںقرآن کریم نےبار بار یہ بات دو ٹوک انداز میںپیش کی ہےکہ نہ اس میںکوئی جھول ہےفنی اور ادبی طور پر،نہ نحو،صرف اور قواعد کےلحاظ سےاس جیسا یا اس سےافضل کلام ہو سکتا ہے۔ گزشتہ چودہ سو سال سےاس کی یہ دعوت عام موجود ہےکہ جس کسی کو یہ شک ہو کہ عربی مبین میںیہ کلام اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کا نہیںہےوہ اس جیسا کلام پیش کرنےکی کوشش کرے۔
قرآن کریم نےعقیدہ،معاملات،حقوق و قانون اور جزا و سزا سےمتعلق جو اصول اور متعین ہدایات (directives) احکام (commands) اور تعلیمات (instructions) دی ہیںان کا ماخذ عرب جاہلی روایات و ثقافت اس لیےنہیںہو سکتی کہ قرآن ان روایات کےردو ابطال کےلیےآیا اور اس کا مشن ان روایات کی جگہ اسلامی آفاقی اخلاقی نظام کو نافذ کرنا تھا۔ قرآن کریم ایک ایسےترقی پسند معاشرہ کےوجود کا داعی بنا جس میںعرب جاہلیہ کی قدامت پرستی،روایت پرستی،تقلید اور اندھےعقیدہ کی جگہ روایت علم پر مبنی اجتہادی،تجزیاتی اور عقلی بنیادوںپر انفرادیت پسندی کی جگہ اجتماعیت کو قائم کیا گیا۔ یہ گویا ایک مکمل نظریاتی اور بنیادی انقلاب تھا جسےہم ایک paradigm shift سےتعبیر کر سکتےہیں۔ اس کی بنیادی خصوصیت یہی تھی کہ یہ مقامی اور علاقائی محدودیت سےنکل کر (universalism) یا ایک عالمی طرز فکر کا علمبردار بنا۔ اس کی تعلیمات پر ہر دور میںغور کرنےکےبعد ان کی عصری تعبیر و تشریح کی جاتی رہی اور اس طرح یہ ہر دور کےمسائل کا حل پیش کرنےکی صلاحیت کا حامل رہا ۔ اسلام کی اسی تحریکیت اور dynamism کی بنا پر نہ قرآن کو اور نہ اسلام کو reform کرنےکی ضرورت پیش آئی نہ کسی Renaisance کےذریعہ فکری انقلاب لانا پڑا۔ جب تک اجتہاد اور تعبیر کا عمل جاری ر ہا مسلمان عروج کی منازل طےکرتےرہےجب وہ تقلید اور روایت پرستی کا شکار ہوئےترقی کا عمل رک گیا۔
جہاںتک قرآن کریم کےتحریری شکل میںیکجا و محفوظ کیےجانےکا تعلق ہےخود قرآن کریم یہ شہادت فراہم کرتا ہےکہ اپنی مکمل شکل میںاس کا نزول قرأت کےساتھ کتابی شکل میںبھی ہوا چنانچہ دوسری سورت کی پہلی آیت ہی یہ اعلان کرتی ہےکہ ’’ا ۔ ل ۔ م یہ الکتاب ہےاس میںکوئی (بات) شک (کی) نہیں‘‘ (البقرہ ۲: ۱ ۔ ۲)۔ ایسےہی مکی دور کی آیت ’’اس کو وہی ہاتھ لگاتےہیںجو پاک ہیں‘‘ (الواقعہ ۷۹ : ۵۶) سےیہ بات واضح ہو جاتی ہےکہ نزول وحی کےساتھ ہی اسےلکھ کر محفوظ کر لیا جاتا تھا اسی لیےاس مکی آیت میںیہ ہدایت آ گئی کہ ان اوراق کو طہارت کےبغیر ہاتھ نہ لگایا جائے۔
قرآن کریم کےاپنی اصل اور مکمل شکل میںمحفوظ کیےجانےکےلیےروزِ اول سےہی دو ایسےذرائع اختیار کیےگئےجن کےبعد کوئی بڑےسےبڑا حادثہ بھی قرآن کریم میںتحریف،تبدیلی،یا اس کےضائع ہونےکا سبب نہیںبن سکتا چنانچہ ہر رمضان کریم میںتراویح میںبغیر کسی فصل کےدور نبی سےآج تک بلکہ قیامت تک دنیا کےہر خطےمیںجہاںمسلمان پائےجاتےہیںلاکھوںافراد اپنےاپنےمحلےکی مساجد میںبہترین آواز کےساتھ تلاوت کرنےوالےحفاظ سےمکمل قرآن عموماً اس طرح سنتےہیںکہ قرأت کرنےوالا امام اس کا والد اور بیٹا جو سب حافظ قرآن ہوتےہیںساتھ ساتھ تلاوت کو سنتےجاتےہیں۔ اس طرح بیک وقت کم از کم تین نسلیںایک ہی وقت میںقرآن کریم کی مکمل تلاوت کےذریعہ اسےسینوںمیںمحفوظ کر لیتی ہیںیہی شکل تحریر کی بھی ہے۔
اس قیاس کی کوئی تاریخی بنیاد نہیںہےکہ قرآن کریم پہلی مرتبہ حضرت عثمانؓ کےدور میںمرتب ہوا۔ حقیقت یہ ہےکہ قرآن کریم کی ہر آیت تحریری شکل میںنبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی حیات مبارکہ ہی میںصحابہ اور بالخصوص کاتبان وحی (جو سرکاری طور پر مقرر کیےگئےتھے) کےپاس محفوظ و موجود تھی۔ حضرت ابوبکر ؓ نےحضرت عمرؓ کےاصرار پر معروف کاتب وحی حضرت زید بن ثابتؓ کی سرکر دگی میںاس تمام تحریری سرمایہ کو یکجا کروا کےہمیشہ ہمیشہ کےلیےمحفوظ کر دیا تھا اور اسی کی نقول حضرت عثمان ؓ (۶۴۴ ۔ ۶۵۶ء) نےریاست کےاہم مقامات مکہ مکرمہ،دمشق،کوفہ،فسطاط اور مدینہ منورہ میںرکھوا دی تھیںتاکہ جس کو بھی اپنا مصحف مقابلہ کر کےدرست کرنا ہو وہ ان مستند نسخوںکی مدد سےایسا کرے۔ ان تاریخی حقائق کو محض اس بنا پر نظر اندار کر دینا کہ چونکہ بائبل کی تحریر اور جمع میںڈیڑھ سو سال کا عرصہ لگا قرآن کریم کےساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہو گا یا ہونا چاہیےایک غیر منطقی رویہ ہے۔ خود قرآن کریم نےاپنی حفاظت کےبارےمیںیہ بات واضح طور پر فرما دی تھی کہ ’’بےشک یہ (کتاب) نصیحت ہم ہی نےاتاری ہےاور ہم ہی اس کےمحافظ ہیں‘‘ (الحجر ۱۵: ۹) یا ’’اس کا جمع کر دینا اور اس کا پڑھوا دینا ہمارےذمےہے‘‘ (القیامہ ۷۳: ۱۷) ’’اور یہ امِّ الکتب (لوح محفوظ) میںہمارےپاس (لکھی ہوئی اور) بڑی فضیلت اور حکمت والی ہے‘‘ (الزخرف ۴۳: ۳) ’’بلکہ یہ روشن آیتیںہیںجن لوگوںکو علم دیا گیا ہےان کےسینوںمیں(محفوظ) اور ہماری آیتوںسےوہی انکار کرتےہیںجو بےانصاف ہیں‘‘ (العنکبوت ۲۹: ۴۹)
تاریخ یہ بتاتی ہےکہ ۶ نبوی میںمکہ مکرمہ میںجب حضرت عمرؓ اسلام لانےسےقبل اس نیت سےنکلےکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو قتل کر دیںاور انہیںراستےمیںاپنی بہن اور بہنوئی کےقبول اسلام کی خبر ملی تو راستےہی سےپہلےان کی طرف چل پڑے۔ ان کی بہن اور بہنوئی تلاوت قرآن کر رہےتھےجسےسن کر حضرت عمرؓ کو یقین ہو گیا کہ وہ دونوںمسلمان ہو گئےہیں۔ اپنی بہن اور بہنوئی کو سرزنش کرنےکےبعد جب انہوںنےبہن سےکہا کہ جو کچھ تم لوگ پڑھ رہےتھےوہ مجھےسناؤ تو ان کی بہن نےکہا کہ عمرؓ تم جب تک پاک نہ ہو جاؤ ان صفحات کو چھو نہیںسکتے۔ اس واقعہ سےیہ ثابت ہو جاتا ہےکہ ۶ نبوی تک جو آیات بذریعہ وحی آئی تھیںوہ مکہ میںہر مسلمان گھر میںتحریری شکل میںمحفوظ تھی اور ان کو حفظ کرنےکےساتھ انہیںدیکھ کر تلاوت بھی کی جاتی تھی۔
یمن سےملنےوالےخستہ،غیر واضح اور نا مکمل نوشتوںمیںجنہیںایک جرمن Dr. Hans Casper Graf von Bothmer نےجو اسلامی آرٹ کےمورخ ہیںاور دوسرےDr. Gerd R. Joseph Puin نےجو کتابوںکو محفوظ کرنےکےفن کےماہر ہیں۳۵ ہزار مائکرو فلم تصاویر لےکر یہ ثابت کرنا چاہا ہےکہ ان خستہ صفحات پر جو تحریر انہیںملی ہےاس میںبعض اختلافات پائےجاتےہیںمثلاً ابراہیم کو ابرہم یا سیماہم کو سیمھم تحریر کیا گیا ہےاگر اس ’’دریافت‘‘ کو صحیح مان بھی لیا جائےتو اس سےقرآن کریم کی صحت میںکوئی فرق واقع نہیںہوتا کیونکہ وہ جن سبعہ قرأ ت میںنازل کیا گیا ان میںاس کی گنجائش موجود تھی اور پھر حضرت زید بن ثابتؓ کےمصحف اور اس سےتیار کردہ نسخوںمیںجو رسم استعمال ہوا وہ بھی یہ گنجائش فراہم کرتا تھا اس لیےاس بنا پر یہ نتیجہ نکالنا کہ دوسری صدی ہجری کی یہ تحریرات قرآن کریم کی صداقت میںکوئی شبہ پیدا کر سکتی ہیںایک بےبنیاد مفروضہ ہے۔ ٹوبی لیسٹر کےصحافیانہ مضمون What is the Koran? نےجسےAtlantic Monthly نےجنوری ۱۹۹۹ء کےشمارےمیںطبع کیا اور پھر انٹرنیٹ پر ڈال کر مشتہر کیا گیا ایک سنسنی تو پیدا کرنےکی کوشش کی لیکن علمی حلقوںمیںاسےکوئی اہمیت نہیںدی گئی۔ جو باتیںاس میںبطور مفروضہ کےپیش کی گئیںوہ پہلےسےمعروف تھیںاور ان کی علمی گرفت مسلم محققین کی مثبت تحریرات میںپہلےسےموجود تھی۔ اس مضمون کےانٹرنیٹ پر آنےسےعالمی طور پر نوجوانوںمیںجمع قرآن کےبارےمیںتجسس میںضرور اضافہ ہوا اور اس واقعہ نےیہ موقع فراہم کیا کہ قرآن کریم کےجمع اور تحفظ کےبارےمیںاسلامی مصادر بلکہ خود قرآن کریم پر غور کر کےان سوالات کےجواب تلاش کیےجائیںجو ان مفروضوںمیںاٹھائےگئےہیں۔ یہ چند سطور اسی ضرورت کےپیشِ نظر تحریر کی گئیںہیں۔ اس کےساتھ ساتھ مذکورہ مضمون پر بعض تنقیدی تحریرات بھی اس شمارےمیںشامل کی گئی ہیں۔ ۔۔۔ اس موضوع پر اہل علم کی دلچسپی کےلیےایک جامع کتابیات تیار کرنےکا کام بھی جاری ہے،جسےان شاء اﷲ آئندہ کسی شمارےمیںپیش کر دیا جائےگا۔
جواب دیں