صدر اوباما کے وعدے ۔۔۔ عمل کی کسوٹی پر

barack_hope

صدر اوباما کے وعدے ۔۔۔ عمل کی کسوٹی پر

صدر اوباما نے جون ۲۰۰۹ء میں اپنے قاہرہ خطاب میں مسلم دنیا اور امریکہ کے درمیان بے اعتمادی کی فضا کو ختم کرنے کے لیے تعلقات کے جس نئے اور خوشگوار دور کے آغاز کی نوید سنائی تھی، اس حوالے سے کیے گئے وعدوں کی تکمیل کے معاملے میں وہ عمل کی کسوٹی پر کس حد تک پورے اترے ہیں، اس کا ایک مختصر مگر جامع جائزہ عرب تجزیہ کار عصام الامین نے آن لائن میگزین کاؤنٹر پنچ پرچار جون (۲۰۱۰ئ) کو پیش کیا جس میں بڑے اختصار کے ساتھ تمام معاملات کا احاطہ کرلیا گیا ہے ۔اس کا خلاصہ ملاحظہ فرمایئے:
عصام الامین لکھتے ہیں: ’’ ایک سال پہلے صدر بارک اوباما نے قاہرہ یونیورسٹی سے مسلم دنیا کو خطاب کیا۔ان کی تقریر فراخدلانہ، متواضع اور دوٹوک تھی اور پوری دنیا میں مسلمانوں کی طرف سے اس کا بھرپور خیر مقدم کیا گیا۔یہ تقریر اپنے الفاظ اور لہجے کے اعتبار سے سابق صدر بش کی کسی بھی اور کہیں بھی کی گئی تقریرسے نمایاں طور پر مختلف تھی۔ اوباما نے مسلمانوں اور امریکہ کے درمیان پوری دنیا میں تعلقات کے ایک نئے دور کے آغاز کی ضرورت کا اظہار کیا۔انہوں نے پرزور انداز میں اعلان کیا کہ ’’اسلام امریکہ کاایک حصہ ہے‘‘ اور ’’امن کے فروغ کا اہم جزو ہے۔‘‘اس خطاب میں صدر نے اس بات پر زور دیا کہ کسی شخص کو اس کے عمل سے جانچا جانا چاہیے کیونکہ ’’تنہا الفاظ ہمارے لوگوں کی ضرورتوں کو پورا نہیں کرسکتے ۔‘‘

فاضل تجزیہ نگار کے بقول ’’ان میں سے کچھ وعدے جن کا تعلق پاکستان اور افغانستان کے لیے امداد سے تھا، وہ واقعتا کانگریس سے منظور ی حاصل کرچکے ہیں۔دوسرے وعدے جن کا اعلان انہوں نے عراق سے امریکی فوجوں کی مکمل واپسی یا مسلمان ملکوں کے ساتھ کاروبار، تجارت اور سائنس و ٹیکنالوجی کے میدانوں میں تعاون کے حوالے سے کیا تھا، وہ مفروضہ طور پر زیر تکمیل ہیں۔

عصام الامین بات آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں ’’لیکن دوران خطاب امریکی صدر نے اپنی پریشانی کا اظہارکرتے ہوئے شکایت کی کہ امریکہ کی پالیسیوں کو پوری دنیا میں مسلمانوں کی جانب سے غلط سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے مزید مفاہمت اور قبولیت کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ ’’ شکوک و شبہات اور تنازعات کے چکر کو لازماً ختم ہونا چاہیے۔‘‘ فاضل تجزیہ نگار کہتے ہیں :’’ اس لیے ان کے سب سے زیادہ پذیرائی پانے والے خطاب کی سالگرہ کے موقع پر دیکھا جانا چاہیے کہ اوباما نے اپنے انتہائی اہم اعلانات پر کہاں تک عمل درآمد کیا ہے؟‘‘

عصام الامین لکھتے ہیں:’’امریکی پالیسی سازوں کو دنیا بھر میں مسلمانوں کے دل و دماغ جیتنے کی جنگ کے حوالے سے جو پریشانی لاحق ہے ، ایک حد تک اس کا جواب ذیل کے رپورٹ کارڈ میں ڈھونڈا جاسکتا ہے۔ اس میں دس سیاسی وعدوں کی فہرست درج ہے جو اوباما نے دنیا کے سامنے کیے، ان میں سے نصف سے زائد براہ راست اسرائیل- فلسطین تنازع سے متعلق ہیں، یہ کارڈ ظاہر کرتا ہے کہ ان کی پالیسیوں نے ان کے الفاظ کی توثیق کی یا نہیں۔‘‘ اس کے بعد انہوں نے ایک ایک وعدے کو صدراوباما کے اپنے الفاظ میں نقل کرکے اس پر عمل درآمد کی کیفیت کا جائزہ یوں پیش کیا ہے:

  ۱- گوانتا نامو بے کی بندش
اوباما کے الفاظ:   ’’میں نے گوانتا نامو بے کی جیل کو اگلے سال کے اوائل میں بند کرنے کا حکم دے دیا ہے۔‘‘
 کیفیت:    وعدہ پورا نہیں ہوا۔
تبصرہ:   کانگریس اور دائیں بازو کے انتہا پسندوں کے بڑھتے ہوئے دباؤکی وجہ سے اوباما انتظامیہ پیچھے ہٹ گئی۔

۲-اسرائیلی بستیوں کی تعمیر
اوباما کے الفاظ:   ’’یہ تعمیرات(اسرائیلی بستیاں)سابقہ معاہدوں کی خلاف ورزی اور قیام امن کی کوششوں کے لیے تباہ کن ہیں،وقت آگیا ہے کہ ان بستیوں کی تعمیر روک دی جائے۔‘‘
کیفیت:    کوئی عملی پیش رفت نہیں ہوئی۔
تبصرہ:   پچھلے سال اوباما نے دوبار نیتن یاہو کا سامنا کیا اور دونوں بار امریکی صدر، اسرائیلی وزیر اعظم کے سامنے پلکیں جھپکاتے رہے۔

۳- غزہ کے محاصرے کا خاتمہ
اوباما کے الفاظ :    ’’اسرائیل کولازمی طور پر ایسے حالات پیدا کرنے کے لیے بھی اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی چاہئیں جن میں فلسطینی زندہ رہ سکیں،کام کرسکیں اور اپنے معاشرے کو ترقی دے سکیں،اور جس طرح غزہ کے انسانی بحران کا جاری رہنا فلسطینیوں کے لیے تباہ کن ہے، اسی طرح یہ اسرائیل کی سلامتی کے لیے بھی مفید نہیں۔‘‘

کیفیت:   کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
تبصرہ:    امریکی حکومت نے (غزہ کے انسانی بحران کو ختم کرنے کے بجائے)مصر-غزہ سرحد کے ساتھ ۶۰ فٹ گہری فولادی دیوار کی تعمیر کے لیے مالی وسائل فراہم کیے تاکہ غزہ کے محاصرے کو مزید سخت کیا جاسکے، اس کے علاوہ امریکہ نے حال ہی میں غزہ کے لیے بحری امدادی قافلے میں اسرائیلی فوج کی جانب سے قتل عام کے بعد اقوام متحدہ میں اسرائیل کی پشت پناہی کی۔

۴- انسانی حقوق اور گولڈ اسٹون رپورٹ
اوباما کے الفاظ :     ’’اس چیز کو ہم بھی مسترد کرتے ہیں جسے ہر عقیدے کے لوگ مسترد کرتے ہیں، یعنی بے قصور مردوں، عورتوں اور بچوں کا قتل۔‘‘
 کیفیت:    کوئی عملی کارروائی نہیں ہوئی۔
تبصرہ:    اگرچہ گولڈ اسٹون رپورٹ یہ نتیجہ اخذ کرتی ہے کہ اسرائیل نے جنگی جرائم کا ارتکاب کیا اورغزہ پر حملے کے دوران ۱۴۰۰ فلسطینیوںکو ( جن کی غالب تعداد سینکڑوں عورتوں اور بچوں سمیت جنگ نہ لڑنے والے شہریوں پر مشتمل تھی) قتل کردیا،اس کے باوجود اوباما انتظامیہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور ہیومن رائٹس کمیشن سمیت تمام بین الاقوامی فورموں پر اسرائیل کا دفاع کیا۔
۵- فلسطینی انتخابات کے نتائج
اوباما کے الفاظ :    ہم تمام منتخب اورپرامن حکومتوں کا خیرمقدم کریں گے،اور انہیں اپنے لوگوں کے معاملات باوقار طور پر چلانے کے لیے سہولت مہیا کریں گے۔
 کیفیت:    یقین دہانی پوری نہیں ہوئی۔
تبصرہ:    اس یقین دہانی کے برعکس امریکہ غیرمنتخب فلسطینی اتھارٹی کی حمایت کرتا ہے جسے فلسطینی عوام پر مسلط کرنے میں امریکہ کا بھی حصہ ہے،نیز وہ اس کی سیکوریٹی فورسز کو (جنرل ڈے ٹن کے تحت) تربیت دینے اور مالی وسائل فراہم کرنے کا کام بھی کررہا ہے۔انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق فلسطینی اتھارٹی نے سینکڑوں افراد کو ٹارچر کیا ہے اورصرف گزشتہ ایک سال میں کوئی مقدمہ قائم کیے بغیر اپنے ایک ہزار سے زائد مخالفین کو قید میں ڈالاہے۔

۶-کوئی مخصوص نظام مسلط کرنا
اوباما کے الفاظ :    ’’کسی قوم پر کسی دوسری قوم کی طرف سے حکومت کا کوئی مخصوص نظام مسلط نہیں کیا جاسکتا اور نہیں کیا جانا چاہیے۔‘‘
 کیفیت:    وعدہ پورا نہیں کیا گیا۔
تبصرہ:    اسرائیلی حکومت نے حماس کی حمایت پر مشتمل فلسطینی انتخابات کے نتائج کو پسند نہیں کیا، اور اس کے بعدغزہ کا محاصرہ کرکے مقامی آبادی کو سخت مشکلات سے دوچار کردیا، امریکہ اسرائیل کی جانب سے ان انتخابی نتائج کو غیرمؤثر بنانے کی کوششوں کی خاموش مفاہمت کے ساتھ حمایت اور دفاع کرتا چلا رہا ہے۔

۷- فلسطینی دھڑوں میں مفاہمت
اوباما کے الفاظ :    ’’ہم اسرائیلیوں، فلسطینیوں اور عربوں سے برسرعام بھی وہی کہیں گے جو نجی طور پرکہتے ہیں۔‘‘
 کیفیت:    کوئی مثبت پیش رفت نہیں ہوئی۔
تبصرہ:    امریکی انتظامیہ برسرعام کہتی ہے کہ فلسطینی دھڑوں کا اختلاف قطعی طور پر فلسطینیوں کا اپنا معاملہ ہے،لیکن  نجی طور پر اس نے حماس اور فتح کے درمیان ہر مفاہمت کو مسترد کیا اور اس میں رکاوٹ ڈالی ، غزہ کا محاصرہ جاری رکھنے کے لیے مصر پر دباؤ ڈالا،اور فتح کو دھمکی دی کہ اس نے حماس سے مفاہمت کی تواس کی ساری مالی امداد بند کردی جائے گی۔

۸- جوہری ہتھیار
اوباما کے الفاظ :    ’’ کسی اکیلی قوم کو یہ فیصلہ ]اور اس کی بنیاد پر اقدام[ نہیں کرنا چاہیے کہ کون سی قومیں جوہری ہتھیار رکھتی ہیں۔‘‘
 کیفیت:    یقین دہانی کا کوئی لحاظ نہیں رکھا گیا۔
تبصرہ:    ایران پر (جس نے این پی ٹی پر دستخط کررکھے ہیں) دباؤ ڈالا جاتا رہا اور اس کے خلاف سخت پابندیوں کی دھمکیاں دی جاتی رہیں ] ان سطور کی اشاعت کے چند روز بعد سلامتی کونسل سے ایران پر نئی پابندیوں کی قرارداد منظور کرالی گئی[ جبکہ امریکہ اسرائیل کے جوہری ہتھیاروں کے ذخائر اور اس کی جانب سے این پی ٹی پر دستخط سے انکار کو نظر انداز کرتا ہے۔

۹- ڈرون حملوں کا استعمال اور خودمختار اقوام کے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شہریوں کا قتل
اوباما کے الفاظ :    ’’لہٰذا امریکہ اپنا دفاع، دوسری قوموں کی خودمختاری اور قانون کی حکمرانی کا احترام کرتے ہوئے کرے گا۔‘‘
 کیفیت:    عمل نہیں ہوا۔
تبصرہ:    شہریوں کی ہلاکتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر ملکوں کے اعتراضات کے باوجود، اوباما حکومت کے تحت نہ صرف پاکستان اور افغانستان میں ڈرون حملے تین گنا تک بڑھادیے گئے، بلکہ انہیں دوسرے ملکوں مثلاً یمن اور صومالیہ تک وسعت دے دی گئی۔ حتیٰ کہ اس پالیسی کے نتائج امریکی شہریوں کو قانونی کارروائی کے بغیر سزا دینے ( ٹارگٹ کلنگ ) کی کوششوں کی شکل میں رونما ہوئے۔ ]انڈر ویئر بمبار کے لقب سے شہرت پانے والے نائیجیرین نوجوان کی جانب اشارہ ہے ، اس واقعے کے بعد امریکی ایئرپورٹوں پر دنیا بھر کے مسلمان مسافروں کو کئی ماہ تک خاص قسم کے ا  سکینروں کے ذریعے عریاں تلاشی کی ذلت سے گزرنا پڑا، تاہم شدید احتجاج کے بعد اس فیصلے کو واپس لینے کا اعلان کردیا گیا [۔

 ۱۰- امریکہ میں مسلمانوں کے رفاہی اداروں کی بحالی
اوباما کے الفاظ :    ’’امریکہ میں رفاہی مدات میں رقوم دینے کے قوانین نے مسلمانوں کے لیے اپنے دینی فرائض کی انجام دہی مشکل تر بنادی ہے۔چنانچہ میں امریکی مسلمانوں کے ساتھ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کام کرنے کا پابند ہوں کہ وہ زکوٰۃ ادا کرسکیں۔‘‘
 کیفیت:    وعدہ پورا نہیں ہوا۔
تبصرہ:    بش دور میں بند کیا گیا کوئی مسلم رفاہی ادارہ نہ تو اب تک بحال کیا گیا ہے نہ ان اداروں کے اثاثے واپس کیے گئے ہیں۔حتیٰ کہ اس کے بجائے امریکی انتظامیہ نے بش کی جانب سے ریاست اوریگن میں ایک مسلم رفاہی ادارے کے ٹیلی فون اور انٹرنیٹ رابطوں کی نگرانی کا دفاع کیا جبکہ فیڈرل جج نے اس مقدمے میں حکومت کے خلاف فیصلہ دیا۔اوباما حکومت اب تک بند کیے گئے رفاہی اداروں اور ان کے اہلکاروںکے خلاف غیرمنصفانہ کارروائیوں کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے کسی قابل اعتبار امریکی مسلمان گروپ سے رابطہ کرنے میں ناکام ہے۔

حتمی نتیجہ:
o   کیے گئے وعدوں کی تعداد:         ۱۰
o    پورے کیے گئے وعدوں کی تعداد:    صفر

قاہرہ خطاب میں صدر اوباما کی جانب سے دنیا بھر کے مسلمانوں سے کیے گئے وعدوں پر عمل درآمد کامندرجہ بالا جائزہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ امریکی سربراہ دنیا میں مثبت اور خوشگوارتبدیلیوں خصوصاً مسلم دنیا کے ساتھ امریکہ کے تعلقات بہتر بنانے اور اس حوالے سے ایک نئے دور کا آغاز کرنے کی جن یقین دہانیوں کے ساتھ جون ۲۰۰۹ء کے اوائل میں قاہرہ میں جلوہ افروز ہوئے تھے، ان پر عمل کے حوالے سے ان کی کارکردگی مکمل طور پر مایوس کن ہے۔ مشرق وسطیٰ میں قیام امن کی کوششوں میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ یہودی بستیوں کی تعمیر کو روکنے کے معاملے میں اپنی حکومت کی غیرتسلی بخش کارکردگی کا خود صدراوباما نے بھی واضح لفظوں میں اعتراف کیا ہے۔ منصب صدارت کے ایک سال کی تکمیل پر ۲۱ جنوری ۲۰۱۰ء کو ٹائم میگزین کے سینئر رکن جوئے کلین کو دیے گئے انٹرویو میں انہوں نے کہا :
’’میں آپ کے ساتھ دیانت داری سے بات کروں گا۔یہ فی الحقیقت مشکل کام ہے۔جارج مچل جیسے شخص کے لیے بھی۔‘‘
امریکی صدر نے اسرائیل کی ضد کے حوالے سے اپنی اور اپنے ملک کی بے بسی کا اعتراف کرتے ہوئے مزید کہا :
’’میں سمجھتا ہوں کہ ہم نے ان پر دباؤ ڈالنے کے معاملے میں اپنی صلاحیت کا غلط اندازہ لگایا جبکہ ان کی سیاست کا رخ اس کے برخلاف ہے۔میرے خیال میں یہ بات قطعی درست ہے کہ اس سال ہم نے جو کچھ کیا،اس سے اس طرح کا بریک تھرو نہیں ہوسکا جو ہم چاہتے تھے۔ اور اگر ہم دونوں طرف کی ان سیاسی مشکلات میں سے کچھ کا پہلے اندازہ لگالیتے تو اُمیدوںکو اتنی اونچی سطح تک نہ لے جاتے۔‘‘

امریکہ میں اسرائیلی لابی کتنی طاقتور ہے، اس کا ایک حالیہ مظاہرہ غزہ میں کئی سال سے محصور فلسطینیوں کے لیے امدادی سامان لے جانے والی بحری قافلے پر اسرائیلی فوج کے حملے کے بعد دوتہائی امریکی ایوان نمائندگان کی جانب سے اسرائیل پر اس دکھاوے کی نکتہ چینی بھی بند کیے جانے کے تحریری مطالبے کی صورت میں ہوا جوامریکی انتظامیہ کی جانب سے بدرجہ مجبوری کی گئی تھی۔ ۲۰۰۹ء میں بھی ۳۲ امریکی سینٹروں نے حکومت پر زور دیا تھا کہ غزہ میں اسرائیلی مظالم پر مبنی گولڈ اسٹون رپورٹ کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل تک پہنچنے سے روکا جائے۔ان سینیٹروں سے وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن سے ایک خط میں یہ مطالبہ بھی کیا تھا کہ رپورٹ میں اسرائیل کے خلاف کارروائی کی جو سفارش کی گئی ہے، اس پر عمل کرنے سے انکار کردیا جائے۔

 عراق سے امریکی فوج کی واپسی

جہاں تک عراق سے امریکی فوج کی واپسی کے حوالے سے صدر اوباما کے وعدے کا تعلق ہے تو اگرچہ دعوے کیے جاتے ہیں کہ ۱۹ اگست کو امریکہ کی لڑاکا فوج کا آخری دستہ بھی عراق سے چلا گیا ہے اور اکتیس دسمبر ۲۰۱۱ء تک باقی تمام فوج بھی عراق سے نکل جائے گی ، امریکی حکومت اور مین اسٹریم میڈیا کہہ رہا ہے کہ عراق کی جنگ ختم ہوچکی ہے لیکن حقیقی صورت حال اس سے بہت مختلف ہے۔ ۱۹ اگست کے اخبارات میں امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس کا یہ اعلان موجود ہے کہ’’ عراق سے امریکی افواج کی واپسی امن و امان کی صورت حال سے مشروط ہے‘‘۔ اس خبر کی تفصیل میں بتایا گیاہے کہ ’’امریکی وزیر دفاع نے یہ بات واشنگٹن میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہی۔انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ جیسے جیسے عراق کی صورت حال میں بہتری آئے گی،عراق سے امریکی فوج کی واپسی جاری رہے گی۔انہوں نے کہا کہ عراق میں سیکوریٹی کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے عراقی سیکوریٹی فورسز کو ذمہ داریاں دی جارہی ہیں۔تاہم عراق سے امریکی فوج کی واپسی کے وقت کا تعین عراق میں امن و امان کی صورت حال کو دیکھ کر کیا جائے گا۔‘‘

رابرٹ گیٹس سے بھی زیادہ غیرمبہم الفاظ میں عراق میں امریکی افواج کے سابق سالار اعلیٰ جنرل پیٹریاس نے، جو اب افغانستان میں اسی منصب پر کام کررہے ہیں، حقیقی صورت حال کی وضاحت کی ہے۔۱۹ اگست کو سی بی ایس نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا ہے کہ’’ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم عراق چھوڑ نہیں رہے ہیں۔وہاں پچاس ہزار امریکی فوج موجود ہے۔۔۔ اور وہ ہر قسم کی صلاحیت رکھتی ہے۔‘‘ اس لیے عراق سے امریکی فوج کی واپسی اور امریکہ کی طر ف سے عراق کے حوالے سے اپنے ایجنڈے سے دستبرداری کا گمان رکھنا بے بنیاد خوش فہمی کے سوا کچھ نہیں۔

عراق میں امریکہ کا حقیقی ایجنڈا کیا ہے،یہ بات جوزف بائیڈن سے سنیے جو اَب صدر اوباما کے دست راست یعنی امریکہ کے نائب صدر ہیں۔ یکم مئی ۲۰۰۶ء کو نیویارک ٹائمز میں امریکی سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے انہوں نے  امریکن کونسل آن فارن ریلیشنز کے سابق صدر لیزلی ایچ گلب کے اشتراک سے ’’عراق میں خود مختاری کے ذریعے اتحاد‘‘(یونٹی تھرو آٹو نومی اِن عراق) کے زیر عنوان شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ صدر بش عراق کو متحد رکھتے ہوئے وہاں امن و استحکام قائم کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں۔اس لیے عراق کو خود مختار شیعہ، سنی اور کرد ریاستوں کے ایک ڈھیلے ڈھالے وفاق میں تبدیل کردیا جانا چاہیے۔ مضمون میں اس حوالے سے بوسنیا کی مثال دی گئی ہے کہ وہاں نسلی بنیادوں پر جاری خانہ جنگی پر اسی طرح قابو پایا گیا ہے۔ مضمون میں مزید کہا گیا ہے کہ اگرچہ یہ حل خلاف عقل نظرآتا ہے مگر عراق میں امن قائم کرنے کا اس کے سوا کوئی طریقہ نہیں۱۔
یہی جوزف بائیڈن اب امریکہ کے نائب صدر ہیں اور ۲۰۰۶ء کے مقابلے میں کہیں زیادہ طاقتور اور بااختیار ہیں تو بھلا کیسے سمجھا جاسکتا ہے کہ وہ اور امریکی انتظامیہ میں شامل ان کے ساتھی عراق کے معاملے میں اپنے ان عزائم سے دستبردار ہوگئے ہوں گے جبکہ اس کی جڑیں بہت گہری ہیں اور ماضی میں بہت دور تک پیوست ہیں۔

جوبائیڈن نے مئی ۲۰۰۶ء میں عراق کی تین حصوں میں تقسیم کی جو تجویز پیش کی، اس کے پس منظر سے ناواقف شخص محسوس کرسکتا ہے کہ عراق میں اس وقت جو شیعہ سنی فرقہ وارانہ خانہ جنگی شروع ہوچکی تھی، ملک کو خود مختارشیعہ ، سنی اور کرد ریاستوں میں تقسیم کردینے پر مبنی یہ تجویز واقعتا اسی کے تناظر میں پیش کی گئی تھی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ فروری ۲۰۰۶ء کے تیسرے ہفتے تک عراق کے شیعہ اور سنی عوام متحد ہوکر قابض افواج کی واپسی کی مہم اور مزاحمت کی تحریک چلارہے تھے۔ مبصرین کے مطابق عراق میں شیعہ سنی تصادم کا تصور بھی محال تھا کیونکہ صدیوں کے تعلقات اور باہمی شادیوں نے لاکھوں شیعہ سنی خاندانوں کو ایک دوسرے سے جوڑ رکھا تھا۔ تاہم ریکارڈ پر موجود شواہد سے عیاں ہے کہ امریکی ایجنسیوں نے انہیں ایک دوسرے سے ٹکرانے کی پے درپے خفیہ کوششیں کیں اور بالآخر ۲۲ فروری ۲۰۰۶ء کو سامراء کی مسجد عسکری میں بم دھماکا کرکے، جس کے نتیجے میں دو شیعہ ائمہ کرام کے مزارات کو بھی نقصان پہنچا، شیعہ آبادی کو سنیوں کے خلاف اس طرح مشتعل کردیا گیا کہ اس واردات کے بعد چوبیس گھنٹوں میں سینکڑوں سنی مساجد اور سنی مسلمان شہید کردیے گئے اور پورے ملک میں فرقہ وارانہ جنگ کی آگ اس طرح بھڑک اٹھی کہ پھر اسے بجھانے کی کوئی کوشش کا میاب نہیں ہوسکی ۔گویا مئی کے مہینے میں جوبائیڈن نے اپنے مضمون میں عراق کی تقسیم کا جواز جس صورت حال کو بنایا اسے محض تین ماہ پہلے پیدا بھی امریکی ایجنسیوں ہی نے کیا تھا۔

مزید چشم کشا حقیقت یہ ہے کہ نیویارک ٹائمز کے محولہ بالا مضمون میں ان کے شریک قلم کارلیزلی ایچ گلب، عراق کی تقسیم کی یہ تجویز عراق پر امریکی حملے اور قبضے کے محض چند ماہ بعد نومبر ۲۰۰۳ء ہی میں پیش کرچکے تھے حالانکہ اس وقت پوری عراقی قوم متحد ہوکر قابض فوجوں کی واپسی کا مطالبہ کررہی تھی اور شیعہ سنی محاذ آرائی کے بجائے ان کے درمیان مکمل ہم آہنگی تھی۔لیزلی ایچ گلب نے امریکن کونسل آن فارن ریلیشنز کے صدر کی حیثیت سے ۲۵نومبر ۲۰۰۳ء کو نیویارک ٹائمز میں ’’تھری اسٹیٹ سلوشن‘‘ کے عنوان سے شائع ہونے والے اپنے ایک تجزیے میں عراق کی صورت حال پر امریکی مفادات کے نقطہ نظر سے اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’ان حالات میں ایک ہی قابل عمل حکمت عملی ہے اور وہ ہے عراق کے تاریخی نقص کی اصلاح،اس کے لیے تین ریاستوں پر مشتمل حل کی طرف بڑھنا ہوگا، یعنی شمال میں کرد، مرکز میں سنی اور جنوب میں شیعہ۔‘‘ اور ’’ان حالات‘‘ سے ان کی مراد امریکی قبضے کے خلاف عراقی عوام کی مشترکہ مزاحمت تھی جس پر قابو پانا امریکہ کے لیے مشکل نظر آرہا تھا۲۔

 جوزف بائیڈن کی نیک نیتی کی حقیقت لیزلی ایچ گلب کے اس مضمون کے مندرجات سے بخوبی واضح ہوجاتی ہے۔ تاہم عراق کی توڑ پھوڑ کا یہ منصوبہ فی الحقیقت اس سے بھی کہیں پرانا ہے جس کے پیچھے عالمی صہیونیت ہے اور مشترکہ مفادات کی بناء پر امریکہ اس کی تکمیل کے لیے پورا تعاون کررہا ہے۔ فروری ۱۹۸۲ء میںاسرائیلی وزارت خارجہ سے وابستگی رکھنے والے تجزیہ کار اورصحافی اودد یینن (Oded Yinon)نے مسلم دنیا کے لیے صہیونیت کے توسیع پسندانہ عزائم کا بھرپور اظہار    ’’انیس سواسّی کی دہائی میں اسرائیل کے لیے ایک حکمت عملی‘‘ (A Strategy for Israel in the Ninteen Eighties)کے عنوان سے تیار کی گئی دستاویز میں کیا تھا۔اس منصوبے میں عرب اور مسلم ملکوں کی مزید تقسیم کی ضرورت اور عزم کا اظہار کیا گیا تھا اور اس عمل کا آغاز عراق کی تین ملکوںمیں تقسیم سے کرنے کی تجویز دی گئی تھی جبکہ امریکہ حیرت انگیز طور پر ۱۹۹۱ء کی جنگ خلیج سے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کوشاں نظر آتا ہے۔ عراق کے بارے میں صہیونی- امریکی ایجنڈے کے اس پس منظر سے آگاہی رکھنے والا کوئی شخص اس غلط فہمی کا شکار نہیں ہوسکتا کہ اوباما دور میں اس ایجنڈے کو لپیٹ کر رکھ دیا جائے گا جبکہ عراق کی تقسیم کے جوزف بائیڈن جیسے علم بردار صدر اوباما کے دست راست ہیں۔

افغانستان اور صدر اوباما

ریکارڈ پر موجود یقینی شواہد کے مطابق فی الحقیقت کیسپین کے تیل کے ذخائر تک رسائی کی خاطر شروع کی گئی افغانستان کی جنگ کو قطعی جائز اور امریکہ کی سلامتی کے لیے ناگزیر قرار دینے میں بارک اوباما ، اپنی انتخابی مہم کے دوران اور الیکشن جیتنے کے بعد بھی اپنے پیش رو اور افغان جنگ شروع کرنے والے جارج بش سے بھی آگے رہے۔ ان کا موقف تھا کہ عراق کی جنگ تو غلط تھی مگر افغانستان پر امریکی حملہ بالکل درست تھا اور اس کارروائی کو مکمل فتح تک پہنچنا چاہیے۔صدر بننے کے بعد بارک اوباما نے بالکل غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے ان امریکی دعووں کو دہرایا کہ اگر طالبان حکومت ، نائن الیون حملوں کے بعد امریکہ کے مطالبے کے مطابق اسامہ بن لادن کو مقدمہ چلانے کے لیے حوالے کرنے پر تیار ہوجاتے تو امریکہ افغانستان پر حملہ نہ کرتا جبکہ خبروں پر نظر رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ طالبان حکومت نے امریکہ کو ایک سے زائد بار کھلی پیش کش کی تھی کہ اگر وہ نائن الیون حملوں میں القاعدہ یا بن لادن کے ملوث ہونے کا کوئی ٹھوس ثبوت مہیا کردے توبن لادن کو کسی قابل اعتماد بین الاقوامی عدالت کے حوالے کردیا جائے گا تاکہ اس پر مقدمہ چلایا جاسکے۔ صدر اوباما نے یہ غلط بیانی یکم دسمبر ۲۰۰۹ء کو نئی افغان پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے اپنی تقریر میں بھی کی جبکہ متعدد مغربی تجزیہ کاروں نے فوری طور پر اپنی تحریروں میں اصل حقائق بیان کرتے ہوئے بتایا کہ طالبان حکومت نے کم از کم تین بار جرم کا ثبوت مہیا کیے جانے پر بن لادن کو بین الاقوامی عدالت کے حوالے کرنے کی پیش کش کی تھی۔ طالبان کی ان پیش کشوں کی تفصیل برطانوی جریدے گارڈین نے بھی ۱۷ اکتوبر ۲۰۰۱ء کو اپنی آن لائن اشاعت میں دی تھی۳۔

اس طرح افغان جنگ کے جائز ہونے کے دعووں کے ساتھ یکم دسمبر ۲۰۰۹ء کی اس پالیسی تقریر میں اوباما نے افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کے مشترکہ سربراہ جنرل مک کرسٹل کے مطالبے کے مطابق تیس ہزار مزید امریکی فوجی افغانستان بھیجنے تاہم جولائی ۲۰۱۱ء سے امریکی افواج کی افغانستان سے واپسی بھی شروع کردینے کا اعلان کیا جبکہ پاکستان کو القاعدہ اور طالبان کی محفوظ پناہ گاہ قرار دیتے ہوئے ان کے خاتمے کے لیے امریکہ کی معاونت سے کی جانے والی حکومت پاکستان کی کوششوں کو سراہا گیا اور تعاون جاری رکھنے کی یقین دہانی کرائی گئی۔ 

اس پالیسی کے اعلان کے بعد جسے افپاک پالیسی کا نام دیا گیا، تیس ہزار امریکی فوجی افغانستان بھیج دیے گئے۔اس کے بعد مرجا ہ نامی قصبے میں طالبان کے خلاف ایک بڑا آپریشن اس دعوے کے ساتھ شروع کیا گیا کہ اس کے نتیجے میں طالبان کی کمر ٹوٹ جائے گی تاہم یہ کارروائی مکمل طور پر ناکام رہی۔چنانچہ مرجاہ کے بعد قندھار میں طالبان کے خلاف جس فیصلہ کن کارروائی کی تیاریوں کا شور تھا ، اس کی نوبت ہی نہیں آسکی جبکہ جنرل اسٹین لے مک کرسٹل صدر اوباما سمیت اپنے ملک کی سیاسی قیادت پر نکتہ چینی کے جرم میں برطرف کردیے گئے اور جنرل ڈیوڈ پیٹریاس نے ان کی جگہ لے لی۔ تاہم غیور افغانوں کی سخت جان مزاحمت کو کمزور کرنے میں امریکہ اور اس کے اتحاد ی نوسال میں بھی مکمل طور پر ناکام رہے ہیں، اس لیے واپسی کی راہ تلاش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جس میں طالبان قیادت سے بات چیت بھی شامل ہے مگر طالبان قیادت اس موقف پر جمی ہوئی ہے کہ جب تک بیرونی فوجوں کی واپسی کا اعلان نہیں کیا جاتا اور اس پر عمل کی یقینی ضمانت نہیں دی جاتی، اس وقت تک کوئی بات نہیں ہوسکتی۔

طالبان کے اس مضبوط موقف نے امریکہ کو سخت مشکل صورت حال سے دوچار کررکھا ہے۔ افغان جنگ نے اس کی معیشت پر تباہ کن اثرات مرتب کیے ہیں اور ایسی صورت میں جب کامیابی کی کوئی امید دور دور نظر نہیں آتی، افغان جنگ کا مزید جاری رہنا ، امریکہ کے شہریوں کے لیے بھی ناقابل برداشت ہوگیا ہے اور جنگ کے مخالفین نہ صرف اب اکثریت میں ہیں بلکہ ان کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے جس کا پتہ وقتاً فوقتاً منظر عام پر آنے والے رائے عامہ کے جائزوں سے چلتا ہے۔ اس کے باوجود امریکی حکومت کے لیے فوجوں کی واپسی بارک اوباما کے طے شدہ پروگرام کے مطابق مشکل ہے کیونکہ امریکی مفادات کو کسی نہ کسی حد تک محفوظ بنائے بغیر فوجوں کا واپس بلالینا مکمل خسارے کا سودا ہوگا اور یہ ایسی کڑوی گولی ہے جسے نگلنے سے گریز کی ہر ممکن کوشش موجودہ امریکی حکومت کی جانب سے عین متوقع ہے۔چنانچہ اگست کے وسط میں امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس اور افغانستان میں امریکی افواج کے کمانڈر جنرل ڈیوڈ پیٹریاس کے درمیان اختلاف منظر عام پر آچکا ہے۔ ۱۶ اگست ۲۰۱۰ء کے اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی ہے کہ ایک طرف امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے ایک امریکی اخبار کو دیے گئے انٹرویو میں زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ جولائی ۲۰۱۱ء افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلاء کے آغاز کی حتمی تاریخ ہے اور سب کے ذہنوں میں یہ بات واضح رہنی چاہیے۔جبکہ دوسری طرف جنرل ڈیوڈ پیٹریاس سے جب پوچھا گیا کہ کیا زمینی حقائق کی وجہ سے انخلاء میں تاخیر ہوسکتی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ یقینا ایسا ہوسکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ صدر واضح کرچکے ہیں کہ انخلاء ایک عمل کا نام ہے کسی وقوعے کا نہیں اور اس کا انحصار صورت حال پر ہوگا۔

ان تفصیلات سے واضح ہے کہ افغانستان کی جنگ کے حوالے سے نہ تو صدر اوباما اپنی اولین اور اصل پالیسی یعنی مکمل فتح کے حصول میں کامیاب ہورہے ہیں اور نہ ہی جنگ کے خاتمے کے لیے فوجوں کی واپسی کا کوئی حتمی شیڈول دینا ان کے لیے ممکن ہے اور اس دلدل میں امریکہ کو مزید پھنسا دینے کے بعد ان کے لیے جائے ماندن نہ پائے رفتن کی سی کیفیت ہے۔

صدر اوباما اور ایران 

اپنے قاہرہ خطاب میں صدر اوباما نے تسلیم کیا تھا کہ پرامن مقاصد کے لیے جوہری توانائی کے حصول کا حق ایران سمیت دنیا کے تمام ملکوں کو حاصل ہے۔ اس سے پہلے ۱۸ مارچ ۲۰۰۹ء کو ایران کے جشن نوروز کے موقع پر انہوں نے ایرانی عوام کے نام اپنے پیغام میں کہا تھا کہ امریکہ ایران کے ساتھ رابطوں کا نیا سلسلہ شروع کرنا چاہتا ہے ۔ اور ان کی حکومت کی پوری کوشش ہوگی کہ ایران اور امریکہ کے درمیان تمام مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جائے۔بارک اوباما کا کہنا تھا کہ وہ ایرانی عوام اور حکومت سے براہ راست بات کرنا چاہتے ہیں۔اور ان کی حکومت نے ایران سے مثبت روابط قائم کرنے کا تہیہ کررکھا ہے۔اس پیغام مزید کہا گیا تھا کہ امریکہ چاہتا ہے کہ ایران کو عالمی برادری میں اس کا جائز مقام حاصل ہو، ایران کو یہ حق حاصل ہے مگر یہ حق ذمہ داریوں کے بغیر نہیں ملے گا۔

اس کے باوجود بارک اوباما کے دور میں بھی ایران کے خلاف نئی پابندیاں عائد کرنے کے لیے کام ہوتا رہا، حتیٰ کہ ترکی اورا یران کے درمیان سلامتی کونسل کے امریکہ سمیت پانچ مستقل ارکان کی تجویز کے مطابق مئی کے مہینے میں یہ معاہدہ ہوجانے کے بعدبھی–کہ ایران بارہ سو کلوگرام کم افزودہ یورینیم ترکی کو بھیج کر اس کے بدلے ایک سو بیس کلوگرام بیس فی صد افزودہ یورینیم میڈیکل آئسوٹوپس کی تیاری کے لیے حاصل کرے گا– امریکہ کے رویے میں تبدیلی نہیں آئی۔ترکی- ایران معاہدے کاخود امریکہ کی جانب سے بھی بادل ناخواستہ خیرمقدم کیا گیا مگر جون میں ایران کے خلاف سلامتی کونسل سے نئی پابندیوں کی قرارداد بھی منظور کرالی گئی جبکہ اسرائیل کے جوہری ہتھیاروں سے اوباما کے دور میں بھی سابق ادوار کی طرح مکمل چشم پوشی کی روش جاری ہے۔

اس سے واضح ہے کہ ایران کے ساتھ مثبت روابط اور بات چیت کے ذریعے اختلافات کے حل کی جوباتیں صدر اوباما نے کی تھیں وہ سب بھی نقش برآب ثابت ہوئی ہیں۔

صدر اوباما اور پاکستان

قاہرہ خطاب میں صدر اوباما نے قوموں اور ملکوں کی خودمختاری کے احترام کی جو یقین دہانیاں اپنی حکومت کی جانب سے کرائی تھیں ، پاکستان کے معاملات میں حددرجہ مداخلت اور ڈرون حملوں کی تعداد میں کم و بیش تین گنا اضافے کے ذریعے ان یقین دہانیوں کو بری طرح پامال کرنے کا سلسلہ حسب سابق جاری ہے۔ انہوں نے پاکستان کے ساتھ مشترکہ مفادات کی بنیاد پر تعاون کے جو وعدے کیے تھے ، اس کے باوجود خطے میں ان کی حکومت کی ساری پالیسیاں صرف امریکی مفادات کے مطابق تشکیل دی جارہی ہیں اور ڈرا دھمکا کر پاکستان سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ وہ اپنے قومی مفاد کی خاطر امریکی مفادات کے تحفظ سے صرف نظر نہ کرے۔پاکستان کو بلیک میل کرنے کے لیے کسی ثبوت کے بغیر ہیلری کلنٹن، رچرڈ ہالبروک اور مائیکل مولن سب کی جانب سے مسلسل یہ دعوے کیے گئے ہیں کہ اسامہ بن لادن سمیت القاعدہ کی قیادت پاکستان میں ہے اور پاکستان کے بااختیار حلقے اس سے واقف ہیں۔ ایڈمرل مولن نے گارڈین کے مطابق صاف لفطوں میں کہا کہ ’’امریکہ پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت سے توقع رکھتا ہے کہ وہ امریکہ کی سلامتی کے مفادات کا لحاظ رکھے۔‘‘

تبدیلی کے نعروں کے ساتھ اقتدار میں آنے والے بارک اوباما نے اپنی انتخابی مہم کے دوران اور منتخب ہونے کے بعد حلف اٹھانے سے قبل مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے امریکہ کی جانب سے مؤثر کردار کی ادائیگی کی ضرورت کا  واضح اظہار کیا تھا۔ نومبر ۲۰۰۸ء میں ٹائم میگزین کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا کہ امریکہ کو مسئلہ کشمیر کے حل میں کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ پاکستان یکسوئی سے عسکریت پسندی کے خاتمے کے لیے کام کرسکے ۔منتخب ہونے کے بعدانہوں نے سابق امریکی صدر بل کلنٹن کو اس مقصد کے لیے اپنا خصوصی نمائندہ مقرر کرنے کا عندیہ بھی دیا تھا۔ تاہم حلف اٹھانے کے بعد انہوں نے اس سمت میں کوئی پیش رفت کرنے کے بجائے صاف کہہ دیا کہ یہ معاملہ بھارت اور پاکستان کو خود ہی حل کرنا چاہیے۔کشمیر میں جاری مظالم پراوباما انتظامیہ کی خاموشی کی مذمت کرتے ہوئے ۲ اگست کو ایک نیوز کانفرنس میں امریکی کانگریس کے رکن جوئے پٹس اور اس موقع پر موجود دیگر امریکی رہنماؤں نے اس صورت حال کو امریکہ کے لیے شرمناک قرار دیا ہے۔

ان کھلے حقائق کی موجودگی میں اس کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے کہ مسلم دنیا کے ساتھ امریکہ کی جانب سے مثبت اور خوشگوار تعلقات کے نئے دور کے آغاز کی جو نوید صدر اوباما نے سنائی تھی وہ زبانی جمع خرچ سے زیادہ کچھ نہ تھی اور ان کی قاہرہ تقریر، امریکن یونیورسٹی قاہرہ میں سیاسیات کے استاد، پروفیسر مصطفی کامل السید کے بقول ’’تعلقات عامہ کی محض ایک عمدہ مشق ‘‘تھی۔(الاہرام، ہفتہ وارآن لائن انگریزی ایڈیشن، تین تا نو جون ۲۰۱۰ئ)۔ یہی وجہ ہے کہ قاہرہ خطاب کے بعد مسلم دنیا میں صدر اوباما کی مقبولیت جس تیزی سے بڑھی تھی، رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق اب اس میں مسلسل کمی ہورہی ہے اور امیدیں مایوسی میں بدل چکی ہیں۔

۱۔     http://www.nytimes.com/2006/05/01/opinion/01biden.html

-۲۔    http://www.nytimes.com/2003/11/25/opinion/25GELB.html

ماخذ: مغرب اور اسلام، شمارہ 35، 2011 کا پہلا شمارہ، خصوصی اشاعت مشرقِ وسطیٰ

نوعیت: مضمون

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے