پاکستان میں پالیسی ریسرچ: NCRD کے وفد کی ادارہ میں آمد پر گفتگو
۳۰ اکتوبر ۲۰۰۹ء کو ’’اختر حمید خان نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار رورل ڈیویلپمنٹ اینڈ میونسپل ایڈ منسٹریشن1‘‘ کے۳۰ رکنی وفد نےانسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کا دورہ کیا۔
آنےوالوں کو خوش آمدید کہتےہوئےڈائریکٹر جنرل جناب خالد رحمن نےپاکستان میںپالیسی ریسرچ کی اہمیت اور موجودہ صورتحال کےبارےمیں اظہار خیال کیا ۔ انہوں نےتھنک ٹینکس (مراکز فکر و دانش) اور غیرسرکاری تنظیموںNGOs کےکردار کو واضح کیا۔ اس حوالےسےانسٹی ٹیوٹ کےکردار کےبارےمیں بتاتےہوئےکہا کہ آئی پی ایس کا مقصد پالیسی سازی کےمختلف مراحل میںمتنوع جہات کو سامنےلانا ہے۔
ملک کےمختلف علاقوں میں نچلی سطح پر کام کرنےوالےحکومتی افراد سےباہمی ربط کی اہمیت بیان کرتےہوئےانہوں نےکہا کہ یہ افراد نہ صرف آئی پی ایس جیسےاداروں کےتحقیقی کام سےفائدہ اٹھا سکتےہیں بلکہ ان معلومات کو دیگر ایسےافراد تک بھی پہنچا سکتےہیںجو ملک کےدیگر علاقوں میںاس کام کےمواقع فراہم کر سکتےہوں۔ مزیدبرآں دور دراز علاقوں سےوابستہ افراد کےمختلف تبصرےاور تجاویز آئندہ کےمراحل میں انسٹی ٹیوٹ کےلئےاس سمت میں ترقی کےلئےمعاون ہوں گی۔
علم اور تحقیق کی اہمیت پر زور دیتےہوئےانہوں نےکہا کہ مختلف مراحل پر پالیسی سازی میںشامل افراد کو اپنےزیر اثر حلقات میںایسا تعلیمی ماحول پروان چڑھانےکو اپنا مشن بنا لینا چاہیئےجہاں لوگ مطالعےکےلئےرغبت اور تحرک پائیںاور ساتھ ساتھ ہر قسم کی کتابوں تک ان کی رسائی بھی آسان ہو۔ اس مقصد کےلئےہر سطح پر لائبریریوںکا قیام عمل میںلایا جا ئے،بطور خاص ان علاقوںمیںجو اس حوالےسےبہت پس ماندہ ہیں۔ پہلےسےموجود لائبریریوںپر خصوصی توجہ دی جائےاور ہر موضوع سےمتعلق نئےمضامین اور تازہ ترین کتابوں کی دستیابی کو یقینی بنایا جائے۔ با اثر افراد ،جیسےکہ ناظمین،کو چاہیئےکہ اس بات کو یقینی بنائیںکہ لائبریریاںنظر انداز نہ ہوںاور ان کےلئےخاطر خواہ بجٹ مختص کیا جائے۔اس کےساتھ ساتھ کمپیوٹر اور انٹر نیٹ کی سہولت بھی لائبریری میںمہیا کی جانی چاہیئےتا کہ اپنی دلچسپی کےموضوعات تک رسائی آسانی کےساتھ بہترین ماحول میںکر سکیں۔
کچھ شرکاء نےاس خدشےکا اظہار کیا کہ لائبریری کا استعمال پاکستان میںاتنا عام نہیںہے، اگرچہ لائبریریاںبیشتر اضلاع میںموجود ہیںلیکن مناسب توجہ اور انتظام کی کمی ہے۔ اور ایک خدشہ یہ بھی تھا کہ آئی ٹی کےاس دور میںمطالعہ کتب اپنی اہمیت کھو چکا ہے۔ اس بارےمیںجناب خالد رحمن نےکہا کہ اگرچہ آئی ٹی نےبہت ترقی کر لی ہےتاہم مطالعہ کتب کےاپنےفائدےہیں۔ آئی ٹی کی اس ترقی نےکتب کی اہمیت کو نقصان نہیںپہنچایا۔ اگر کتاب دلچسپ ہے،اس کےمندرجات اور انداز اچھا ہےتو وہ وسیع پیمانےپر پڑھی جاتی ہے۔ اس پر توجہ دینےکی ضرورت ہےکہ معیاری کتب ہمہ وقت دستیاب رہیںتا کہ پڑھنےکا خواہشمند محروم نہ رہے۔
اس حوالہ سےمغربی معاشرہ ایک بہترین مثال ہےجہاںمحکمےکتابوںاور لائبریریوںپر خصوصی توجہ دیتےہیں،اور وہاںمطالعہ کتب کا تناسب پاکستان سےکہیںزیادہ ہے۔
ایک سوال کا جواب دیتےہوئےانہوںنےکہا کہ آئی پی ایس ایک قومی ادارہ ہےاور سیاست کا مطالعہ اس کا ایک اہم میدان ہے۔ اس حوالےسےآئی پی ایس کی کوشش ہےکہ قومی نوعیت کےمسائل پر ایک قومی سوچ پروان چڑھے۔
آئی پی ایس کی نیشنل اکیڈمک کونسل NAC مختلف مکتبہ ہائےفکر سےتعلق رکھنےوالےافراد پر مشتمل ہےجو پاکستانی معاشرےکےمختلف رنگوںکی عکاس ہے۔ آئی پی ایس انہی موضوعات پر تحقیق کی منصوبہ بندی کرتا ہےجو کونسل کی طرف سےمنظور شدہ ہوتےہیں۔ تاہم یہاںجو بھی کام ہوتا ہےاس میںہمارےپیش نظر قومی اور بین الاقوامی سطح پر معیار زندگی کو بہتر بنانا ہوتا ہے۔
اسی طرح پاکستان پر خصوصی فوکس کےساتھ ساتھ اس کےپڑوسی ممالک،مسلم دنیا اوروسیع ترمفہوم میںانسانی مفاد بالعموم آئی پی ایس کےفوکس کا جزو لا ینفک ہے۔ تاہم باہمی تبادلہ خیال اور مکالمےکی حقیقی روح کےساتھ اظہار رائےکی آزادی کو آئی پی ایس میںہمیشہ تحسین کی نگاہ سےدیکھا جاتا ہے۔
سوال و جواب کےوقفےمیںمباحثےکا رخ چند حالیہ ملکی مسائل کی طرف چل نکلا۔ ایک سوال کا جواب میںجناب خالد رحمن نےپاکستان میںمدارس کےحوالےسےآئی پی ایس کےکام کا ذکر کیا،انہوںنےکہا کہ مدارس نےہمارےمعاشرےمیںبہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ اگرچہ وقت کی تبدیلی کو محسوس نہ کرنےکی وجہ سےکچھ مسائل بھی پیدا کئےہیںجیسا کہ دین و دنیا میںتفریق کا مسئلہ ہے۔ آئی پی ایس تحقیق کےساتھ ساتھ مدارس کی نشو و نما کےپروگرامات بھی کر رہا ہے۔
ایک اور سوال کےجواب میں انہوںنےواضح کیا کہ پاکستان کا اہم مسئلہ یہ ہےکہ یہاںادارےمضبوط نہیں ہیں۔ مسلسل تبدیلی جو بزور قوت نہ ہو بلکہ کسی نظام کےتحت ہو بذات خود نقصان دہ نہیں۔ ہمارا مسئلہ یہ ہےکہ ہماری جمہوری حکومتیںبھی جمہوریت کی مضبوطی کےلئےخاطر خواہ کام نہیںکر رہیں۔ انہیں بیرونی دباؤ کےزیر اثر نہیںآنا چاہیئے۔ ہمیںافراد کےمقابلےمیںاداروںکی مضبوطی کا اہتمام کرنا چاہیئےتا کہ عوام کا اعتماد حاصل کیا جا سکے۔
پاکستان میںبڑھتےہوئےخود کش حملوںکا ذکر کرتےہوئے’اسباب اور نتائج‘ کےفطری اصول کی جانب اشارہ کرتےہوئےانہوںنےواضح کیا کہ ہر واقعےکےکچھ اسباب ہوتےہیں۔ اور جب تک ان اسباب کا خاتمہ نہیںکیا جاتا تب تک نتائج رونما ہوتےرہیںگے۔
خود کش حملےغلط اور غیر اخلاقی ہیں، نہیں ہونےچاہییں۔ لیکن انہیںاس وقت تک نہیںروکا جا سکتا جب تک اس کےاسباب کا قلع قمع نہیں کیا جاتا۔
جناب خالد رحمن نےدہشت گردی کےتین عناصر کی جانب اشارہ کیا جن کا ذکر پہلےپرویز مشرف بھی کرتےرہےہیں۔ آپریٹر(اصل کارکن)،فیسیلیٹیٹر (مددگار اور معاون) اور ماسٹر مائنڈ (منصوبہ ساز) ۔انہوںنےکہا کہ بظاہر موجودہ خود کش حملوںکےآپریٹرکچھ مذہبی لوگ ہیںلیکن فیسیلیٹیٹر اور ماسٹر مائنڈ کا تعین ہونا بہت ضروری ہے۔ بنیادی اسباب کی نشاندہی انتہائی اہم ہےاور آنکھیںبند کر کےکسی کو مورد الزام ٹھیرانا درست نہیں۔ بلکہ باقاعدہ تحقیقی طریقہ کار اختیار کرنا چاہیئےاور ذرائع ابلاغ کو بھی اس حوالےسےآواز اٹھانی چاہیئے۔
انہوںنےاس بات کا ایک بار پھر ذکر کیا کہ دنیا میںلوگ تعلیم کی بنیاد پر حکمرانی کر رہےہیں۔ اس لئےپر تشدد جواب دینےکےبجائےہمیںبھی اس سمت میںترقی کرنی چاہیئےتا کہ ان کا مقابلہ موثر انداز سےکر سکیںاور نتیجتاً پاکستان ایک ترقی یافتہ ملک کی صورت میںسامنےآئے۔
آخر میںجناب ایاز اختر انصاری (AKHNCRD&MD ) نےNCRD کی طرف سےڈی جی آئی پی ایس جناب خالد رحمن کا
مثبت جواب دینےپر شکریہ ادا کیا ۔ اور کہا کہ گفتگو اور سوال و جواب کی نشست زیر تربیت افراد کےلئےبہت مفید تھی اور وفد نےاس سےحقیقتا استفادہ کیا ہے۔
اختر حمید خان نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار رورل ڈیویلپمینٹ اینڈ میونسپل ایڈمنسٹریشن( AHKNCRD&MD) ایک تحقیقی و تربیتی ادارہ ہےجس کا مقصد پاکستان میںدیہی ترقی کو فروغ دینا ہے۔ ادارہ اکثر ضلعی حکومتوںکےمنتخب نمائندوںکی تربیت کےپروگرام منعقد کرواتا رہتا ہے،یہ وفد بھی چھ روزہ تربیتی پرگرام بعنوان : (تعمیر استعداد بسلسلہ میزانیہ و مالیات برائےضلعی حکومت اور اےایم ٹی)کےشرکاء پر مشتمل ہے۔ اس پروگرام کےمنتظم جناب ایاز اختر انصاری نےاس وفد کی قیادت کی۔
جواب دیں