پاک – ایران تعلقات مضبوط بنانے پر زور
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد میں 11نومبر 2014ء کو ’’پاکستان-ایران تعلقات ‘‘کے موضوع پر منعقد ہونے والے سیمینار کا حاصل یہ تھا کہ علاقائی امن ، استحکام اور اقتصادی ترقی کو جلا دینے اور دورِ حاضر میں سامنے آنے والے چیلنجوں پر مؤثر انداز میں قابو پانے کے لیے دونوں برادر ممالک میں دو طرفہ تعلقات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔
سیمینار کے مرکزی مقرر سنٹر فار پاکستان اینڈ گلف اسٹڈیز کے ایڈیٹر اور سینئر ریسرچ فیلو غنی جعفر تھے جبکہ انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز کے چیئرمین سابق سفیر خالد محمود نے صدارت کے فرائض سر انجام دیے۔ سابق سفیروں،پالیسی تحقیق کاروں اور موضوع کے ماہرین کی قابلِ لحاظ تعداد سیمینار میں شریک گفتگو رہی۔
ماہرین نے سکیورٹی، سیاست، اقتصادیات اور ثقافت کے پہلوئوں سے اس موضوع کا احاطہ کیا اور پاکستان اور ایران کے دو طرفہ تعلقات میں سکیورٹی اور سیاسی پہلوئوں کو افغانستان کی صورت حال، فرقہ وارانہ تنازعات، بلوچستان میں ملک دشمن عناصر کی کارروائیوں اور پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات پر ایرانی تحفظات جیسے نازک معاملات کے پس منظر میں دیکھا۔
شرکاء نے دونوں برادر ملکوں کے درمیان گزشتہ کئی دہائیوں کے دوطرفہ تعلقات میں اتار چڑھائو کو علاقائی اور عالمی منظر نامے میں جانچا اور حالیہ دور میں پاکستان اور ایران کی سرحدوں پر وقوع پذیر واقعات ، غیر قانونی تجارت اور اسمگلنگ، منشیات کی اسمگلنگ جیسے عوامل پر ایک دوسرے کے تحفظات دور کرنے پر زور دیا۔ اسی طرح گوادر اور چابہار بندرگاہ کے درمیان تصوراتی مسابقت، پاکستان کے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات اور امریکہ کے ساتھ اتحاد اور ایران کی بھارت کے ساتھ بڑھتی ہوئی قربتوں پر ایک دوسرے کے خدشات کو اہم سطح کی سفارتی کوششوں کے ذریعے حل کرنے کی طرف توجہ دلائی گئی۔
ماہرین نے دونوں ملکوں کے درمیان دستاویزی تجارت کی کمی کی طرف توجہ مبذول کروائی۔ انہوں نے دونوں ممالک کے درمیان سماجی، ثقافتی، لسانی، نسلی اورمذہبی روابط پر تاریخی نوعیت کے تعلقات کے باوجود ثقافتی تبادلوں یا افراد کے درمیان قابلِ ذکر رابطوں کے فقدان پر افسوس کا اظہار کیا۔
بھارت اور چین تک متوقع توسیع کے ساتھ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کو مرزا حامد حسن نے ایک انتہائی اہمیت کا حامل منصوبہ قرار دیا جس سے ان علاقوں میں فوری فوائد سمیٹے جاسکتے ہیں۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو توانائی کی اشد ضرورت ہے اور قومی مفاد کا تقاضا یہ ہے کہ وہ ایران پر لگی امریکی پابندیوں اور دیگر علاقائی دبائو کو نظر انداز کرتے ہوئے اس منصوبے پر پیشرفت کرے۔
ایران کی جنوب مشرقی بندرگاہ چابہار پر بھی تفصیلی گفتگو ہوئی ۔ مقررین نے کہا کہ اگرچہ یہ منصوبہ ابھی تک ابتدائی مرحلے میں ہے تاہم ایران کے لیے اس میں بہت اچھے تجارتی امکانات موجود ہیں۔ انہوں نے اسے گوادر کے لیے مسابقتی خطرے کا سبب نہیں گردانا۔ ان کا مؤقف تھا کہ گہرے سمندر کی بندرگاہ کے سبب گوادر کی اہمیت اپنی نوعیت کی ہے۔
نوعیت: روداد سیمینار
تاریخ: ۱۱ نومبر ۲۰۱۴ء
جواب دیں