نیو کلیئر سپلائر گروپ(NSG)کی رکنیت پاکستان اور بھارت دونوں کو ملنی چاہیے

nsg1

نیو کلیئر سپلائر گروپ(NSG)کی رکنیت پاکستان اور بھارت دونوں کو ملنی چاہیے

 نیو کلیئر سپلائر گروپ(NSG)کی رکنیت حاصل کرنا پاکستان کے لیے انتہائی اہمیت رکھتا ہے تاکہ وہ اپنے دفاعی،اقتصادی اور توانائی سے متعلق اہداف حاصل کر سکے۔پاکستان نے NSGکے راہنما اصولوں سے اپنی وابستگی کا برملا اظہار کرتے ہوئے 19مئی 2016کو اس کی رکنیت کے لیے باضابطہ طور پر درخواست دی ہے،تاہمNSGکی رکنیت ایف ایم سی ٹی(FMCT) کی شرائط پر مبنی ہونی چاہیے

جوہری عدم پھیلائو پر پاکستان کا مؤقف خالصتاً اصولوں اور انصاف پر مبنی ہے،تاہم بدقسمتی سے معاصر عالمی نظام میں اقتصادی اور سیاسی مفادات کو ہی اہمیت دی جاتی ہے۔یہ بات یقینی بنائی جانی چاہیے کہNSGکی رکنیت یا تو بھارت اور پاکستان دونوں کو دی جائے یا پھر کسی کوبھی نہیں۔کیونکہ اگر پاکستان کے خلاف امتیازی سلوک سے بھارت مزے اٹھاتا رہتا ہے اور اسے یہ رکنیت دے دی جاتی ہے تو پھر اس کے تباہ کن نتائج ہو سکتے ہیںکیونکہ ایسی صورت میں پاکستان کے لیے عالمی عدم پھیلائو کے عہد سے اپنی تعمیری وابستگی برقرار رکھنے میں کوئی ترغیب باقی نہیں رہے گی۔ان خیالات کا اظہار انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز میں۲ جون ۲۰۱۶ کو منعقد ہونے والے ایک سیمینار میں کیا گیا جس کا عنوان تھا ’’نیو کلیئر سپلائر گروپ(NSG): بھارت اور پاکستان۔‘‘اس سیمینار سے خطاب کرنے والے مرکزی مقرر ڈاکٹر عادل سلطان ڈائریکٹر ریسرچ اینڈ اینیلیسز (PDS برانچ) سٹرٹیجک پلانز ڈویژن(SPD)تھے ۔جبکہ صدارت کے فرائض او ورسائٹ بورڈ فورم سٹر ٹیجک ایکسپورٹ کنٹرول کے سابق رکن ایمبیسڈر طارق عثمان حیدر نے ادا کیے۔

دفاعی تجزیہ کاروں،دارالحکومت میں رہنے والے سابق سفارت کاروں اور دانشوروں کی کثیر تعداد اور تحقیق کاروں نے سیمینار میں شرکت کی۔ڈاکٹر سلطان نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے شرکاء کو یاد دلایا کہ پاکستان اس وقت سے اس معاندانہ سلوک پر اپنے تحفظات کے لیے آواز بلد کر تا رہا ہے جب بھارت-امریکہ ایٹمی تعاون معاہدہ ہوا تھا اور2008ء میں بھارت کو NSGسے خصوصی چھوٹ دی گئی تھی۔انہوں نے کہا کہNSGکی رکنیت کے لیے ہماری خواہش درج ذیل نکات کے باعث اہمیت کی حامل ہے:عالمی جوہری عدم پھیلائو کے عہد پر مضبوط نتائج کی خواہش،جنوبی ایشیا میں سٹریٹجیک استحکام اور یہاں کے تمام ممالک سے یکساں سلوک کی اہمیت پر زور اور ملک کے لیے سماجی و اقتصادی ترقی اور ٹیکنالوجی کی تعمیر میں ترجیحات کا تعین۔پاکستان کے NSGکی رکنیت کی جائز خواہش پرروشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ پاکستان کی سویلین جوہری تنصیبات دائمی طور پرIAEAکے قوانین کے مطابق ہیں۔پاکستان نے سپلائرز کے ساتھ دو طرفہ معاہدے کے اختتام کے باوجودKANUPP پر IAEA  کے لاگو کیے گئے قوانین پر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے اور کبھی بھی مواد کی بین الاقوامی سطح پر منتقلی سے متعلق ان اداروں کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچائی ہے۔پاکستان نے ایک مؤثر ایکسپورٹ کنٹرول نظام وضع کر رکھا ہے اور اس کے لیے درکار قانون سازی اور اس کے اطلاق کا معتبر نظام وضع کر رکھا ہے۔انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ NPTپر دستخط نہ کرنے والی ریاستوں کو بلا امتیازNSGکی رکنیت دی جانی چاہیے۔انہوں نے توقع ظاہر کی کہ اس بار پھر سیاسی مصلحتیں اور تجارتی مفادات عدم پھیلائو کے مقاصد کو تاراج کردینے کا باعث نہیں بنیں گے۔

امبیسیڈر حیدر نے اپنے اختتامی کلمات میں کہا کہ پاکستان کے لیے رہنما اصول یہ ہے کہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے عدم پھیلائو کے مقاصد کو آزادانہ بات چیت،غیر امتیازی سلوک اور تعاون پر مبنی کثیر الجہتی کوششوں کے ذریعے ہی مؤثر طور پر آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔پاکستان اس وقت عالمی سطح پر موجود معاہدوں اور اداروں کے لیے وضع کردہ فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے ان تمام کوششوں میں تعمیری کردار اداکر نے کے لیے تیار ہے جن سے عالمی عدم پھیلائو کے نقطۂ نظر کو تقویت ملے اور اسلحہ کو کنٹرول کرنے کے اس عہد میں ایک اہم رکن کے طور پر یہ توقع کرتا ہے کہ یہ سب کچھ غیر امتیازی بنیادوں پر استوار کیے گئے اصول و ضوابط کے تحت ہو ، دفاعی پہلوئوں اور تجارتی مفادات کو استثناء دینے کا محرک نہ بنایا جائے۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے