امن مذاکرات: طالبان سے معاملات
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد میں ۱۲نومبر ۲۰۱۳ء کو ایک راؤنڈ ٹیبل سیمینار ہُوا جس کا عنوان تھا: ”امن مذاکرات — طالبان سے معاملات: موجودہ کیفیت اور امکانی راستے“
اس سیمینار کی صدارت انسٹی ٹیوٹ کے چیئرمین پروفیسر خورشید احمد نے کی۔ مقررین میں شامل تھے افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر جناب ایاز وزیر، سابق سفیر جناب آصف ایزدی، فاٹا سےتعلق رکھنے والے پاک فوج کے سابق بریگیڈیر سید نذیر، پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر عظمت حیات خان اور میڈیا کے امور سےباخبر صحافی جناب حسن خان۔اس سیمینار میں سیکیورٹی ماہرین، متعلقہ افسران اور تحقیق کاروں نے شرکت کی۔مقررین کے اظہارِ خیال میں طالبان سے بات چیت کے طریقۂ کار ، انتظامات اور ممکنہ حل کے حوالے سے متعدد نقطہ ہائے نظر سامنے آئے۔
بریگیڈیر ریٹائرڈ سدص نذیر نے طالبان سے معاملہ کرنے میں فوجی پہلو پر اظہارِ خیال کیا۔ جس میں اس کے اخراجات اور مضمرات زیرِ غور آئے۔ انہوں نے بتایا کہ فوجی حل کی قیمت پاکستان کے لیے ناقابلِ برداشت ہے۔ اس لیے حکومت کو علاقے میں سیاسی، سماجی اور معاشی اصلاحات کے ذریعے مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
سابق سفیر آصف ایزدی نے پاکستان کے قبائلی علاقوں پر امریکی ڈرون حملوں کے قانونی پہلو پر گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ جہاں یہ بین الاقوامی قوانین اور انسانی ہمدردی کے عالمی اصولوں کی صریحاً خلاف ورزی ہے، وہاں پاکستان کا سرکاری موقف اور پالیسی الجھاؤ کا شکار ہے۔
سابق سفیر جناب ایاز وزیر نے طالبان سے معاملہ کرنے کے لیے مؤثر طریقِ کار اور نظام وضع کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
ڈاکٹر عظمت حیات خان نے طالبان سے مذاکرات کو علاقائی مضمرات کے پس منظر میں دیکھا اور امریکہ کی افغانستان سے واپسی سے پیدا ہونے والی ممکنہ بے یقینی کی کیفیت پر توجہ مرکوز کی۔
جناب حسن خان نے امن کےعمل کے دوران حساس مسائل و موضوعات اور قومی استحکام کے حوالے سے میڈیا کے کردار اور ذمہ داریوں پرروشنی ڈالی۔
اِس سیمینار کی کارروائی پر مبنی تفصیلی رپورٹ جلد جاری کی جائے گی۔
نوعیت: رودادسیمینار
عنوان: امن مذاکرات — طالبان سے معاملات: موجودہ کیفیت اور امکانی راستے
تاریخ: ۱۲ نومبر ۲۰۱۳ء
جواب دیں