نیشنل اکیڈمک کونسل کا سالانہ اجلاس
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد کی نیشنل اکیڈمک کونسل کے سالانہ اجلاس میں پاکستان کی سلامتی کو درپیش چیلنجوں کا بڑا سبب کمزور طرزِ حکمرانی اور ریاستی اداروں کا زوال قرار دیا گیا۔ دہشت گردی، غربت، لاقانونیت، بد عنوانی اور بڑھتی ہوئی غیرملکی مداخلت اور پالیسی کی سطح پر اس کے اثرات کو اس مرض کی علامات قرار دیا گیا۔ موجودہ منظر نامے میں ملک و قوم کے مستقبل کی حفاظت کے لیے نیشنل اکیڈمک کونسل کے ارکان نے اپنا اپنا نقطۂ نظر پیش کرتے ہوئے اس پہلو کو انتہائی اہمیت کا حامل قرار دیا اور ان علامات سے نمٹنے کے لیے ان بنیادی وجوہات پر بھی پوری قوت اور صلاحیت کے ساتھ قابو پانے پر زور دیا۔
یاد رہے کہ آئی پی ایس کی نیشنل اکیڈمک کونسل تحقیق کے پروگراموں کی نگرانی کے فرائض سرانجام دیتی ہے اور سال میں کم از کم ایک دفعہ اس کا اجلاس لازماً منعقد ہوتا ہے۔
اس کونسل کی موجودہ میٹنگ ۱۵مارچ ۲۰۱۴ء کو ہوئی اور اس کی صدارت کے فرائض آئی پی ایس کے چیئرمین پروفیسر خورشید احمد نے ادا کیے۔ جن دیگر افراد نے اس میں شرکت کی ان کی تفصیل اس طرح ہے۔ خالد رحمن ڈائریکٹر جنرل آئی پی ایس، محمد اکرم ذکی سابق سیکرٹری جنرل وزارتِ امورِ خارجہ، سابق سفیر رسم شاہ مہمند، عبدالحمید چیئرمین اکادمی ادبیات پاکستان، جنرل (ریٹائرڈ) احسان الحق سابق چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی، مرزا حامد حسن سابق سیکرٹری وزارتِ پانی و بجلی، ڈاکٹر حسن صہیب مراد ریکٹر یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور، پروفیسر ڈاکٹر جاوید اقبال وائس چانسلر بلوچستان یونیورسٹی، پروفیسر مفتی منیب الرحمن صدر تنظیم المدارس اہلِ سنت پاکستان اور چیئر مین رویت ہلال کمیٹی، ڈاکٹر محمد مختار وائس چانسلر اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور، ڈاکٹر نذیر اے مغل وائس چانسلر سندھ یونیورسٹی، پروفیسر ڈاکٹر سارہ صفدر رکن پبلک سروس کمیشن پاکستان، شمشاد احمد خان سابق سیکرٹری وزارتِ امورِ خارجہ، زاہد ملک ایڈیٹر ان چیف پاکستان آبزرور، پروفیسر ڈاکٹر ظہور احمد سواتی وائس چانسلر زرعی یونیورسٹی پشاور، مولانا زاہد الراشدی رکن وفاق المدارس عربیہ، ڈاکٹر عدنان سرور چیئرمین شعبہ بین الاقوامی امور پشاور یونیورسٹی، میجر جنرل (ریٹائرڈ) اکبر سعید اعوان، امان اللہ خان چیئرمین نیوٹیک گروپ اور سابق صدر راولپنڈی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری، ایئر کموڈور (ریٹائرڈ) خالد اقبال، ریاض الحق سابق رکن نیشنل ٹیرف کمیشن، فصیح الدین سابق چیف اکانومسٹ حکومتِ پاکستان اور بیرسٹر سعدیہ عباسی سابق سینیٹر۔
اجلاس میں اعلیٰ تعلیم کے لیے اداروں کے پھیلاؤ اور ان کی کارکردگی بہتر بنانے کی ضرورت پر زور دیا گیا اور پاکستان میں اطلاقی تحقیق کے اداروں اور پالیسی کا نفاذ کرنے والے اداروں کے درمیان روابط تعمیر کرنے اور انہیں استحکام دینے کے ممکنہ طریقوں پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔
شرکاء نے اس بات کو انتہائی اہم گردانا کہ ریاست میں ہر سطح پر طرزِ حکمرانی کو بہتر بنایا جائے اور ملک میں اداروں کے زوال پر قابو پا کر ان کی کارکردگی کا معیار واپس لایا جائے جو شدید نوعیت کے عدم استحکام اور عارضی نوعیت کے فیصلوں کے سبب زوال پذیر ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ تھا کہ معاملات کو ان کے معیار اور پالیسی کی بنیاد پر پرکھے بغیر خالصتاً سیاسی بنیادوں پر فیصلے کیے گئے۔ ارکان نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ انتہائی حساس نوعیت کے حامل ملکی مسائل کے بارے میں پاکستان کی یونیورسٹیوں اور تھنک ٹینکس میں کی جانے والی اطلاقی تحقیق کے کوئی فوائد نہ سمیٹے جا سکے اور اس کا سبب یہ ہے کہ پالیسی سازوں میں عمومی طور پر وہ صلاحیت ہی نہیں ہے کہ وہ اس کام سے استفادہ کر سکیں اور نہ ہی ان میں یہ تحریک پیدا ہوتی ہے کہ وہ محققین اور تحقیقی اداروں کے ساتھ فعال نیٹ ورک کو فروغ دیں۔
اجلاس میں اس بات کی طرف توجہ دلائی گئی کہ وفاقی، صوبائی اور مقامی حکومتیں ملک میں پالیسی ریسرچ کو سہولتیں فراہم کر کے اور اسے فروغ دے کر بہت سے فوائد حاصل کرسکتی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ طرزِ حکمرانی کو بہتر بنانے اور ملک کے مستقبل کے لیے اچھی اور با معنی منصوبہ بندی تشکیل دینے کا زاویۂ نظر اپنائیں اور اس عمل میں یونیورسٹیوں اور تھنک ٹینکس کے کردار کو سمجھیں۔
پروفیسر خورشید احمد نے اپنے اختتامی کلمات میں کہا کہ ان حالات میں جبکہ پاکستان کو اندرونی اور بیرونی چیلنجوں کا سامنا ہے، ترجیحات کا تعین کرتے ہوئے مسائل کے حل پر سنجیدگی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ جس کے لیے ایک تزویراتی حکمتِ عملی ترتیب دی جانی چاہیے۔ انہوں نے طرزِحکمرانی سے متعلق مسائل کو ملک کی ترقی کے لیے انتہائی اہم قرار دیا اور بین الاقوامی سطح پر ملک کے تاثر کو بہتر بنانے کے لیے ایک مضبوط اور پائیدار حکمتِ عملی کی تشکیل اور اس پر عملدرآمد کو یقینی بنانے پر زور دیا۔
جواب دیں