مباحث نومبر ۲۰۱۰ ء

مباحث نومبر ۲۰۱۰ ء

 

متفرق قومی  مسائل

قومی سیاست کے بعض ایسے اہم مسائل جن پر دینی جرائد نے بہت زیادہ تونہیں لکھا لیکن کم سے کم کسی  ایک جریدے نے ان مسائل کو موضوع سخن بنایا ہے ، ذیل میں ان موضوعات کو پیش کیا جاتا ہے ۔

این آر او: سپریم کورٹ نے سابق صدر پر ویز مشرف کی طر ف سے جاری کیے گئے قومی مفاہمتی آرڈیننس (این آر او)  کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اس  سے مستفید ہونے والے افراد  سے سرکاری عہد ے واپس لینے اور اُن کو عدالتی کٹہرے  میں لانے کافیصلہ۱۶ دسمبر ۲۰۰۹ کو جاری کیا تھا  تاہم عدالتی فیصلے پر  مکمل طور پر عمل درآمد تاحال   ممکن نہیں ہو پایا ہے ۔ دینی جرائد اس بارے میں اپنی رائے کا اظہار گاہے بگاہے  کرتے رہتے ہیں ، اس بار "العصر” نے این آر او کے مسئلے کو اسلامی روایات کے تناظر میں پیش کرتے ہوئے اداریہ میں تاریخ اسلام کے ایک نامور خلیفہ عمر بن عبدالعزیزؓ کے دور کو بطور مثال پیش کیا جس میں انہوں نے خاندان بنوامیہ کے بعض افراد کی طرف سے  قومی خزانےکی  زیر استعمال اشیاء کی بیت المال میں واپسی کے احکام جاری کیے تھے اور سب سے پہلے خود اس پر عمل کیا تھا۔  جریدے نے اپنی رائے  میں صدر مملکت  کی عدالت میں طلبی کے استثناءکی طرف  اسی مثا ل سے اشارہ  کیا ہے ۔ جریدہ لکھتا ہے "یہ آرڈیننس عوام کے خلاف اور مجرموں کو تحفظ دے کر اعلیٰ مناصب پر فائز کرنے کی ایک بے بنیاد محنت ہے اور دوسری جانب یہ آئین سے متصادم ہے بلکہ عدلیہ سے غداری اور اس پر حملے کے مترادف ہے۔ اس لیے عدلیہ کے مطلوب افراد کو جرم کے اعتراف اور حقوق کی ادائیگی کا احساس اور اس کا مقام معلوم ہونا چاہیے …… اور یہ بھی سوچنا چاہیئے کہ ملکی عدالت سے اگر عہدہ اور منصب بچائے رکھتا ہے تو اللہ کی عدالت میں بچاؤ کی کیا تدبیر ہوگی؟۔”[22]

جعلی اسناد : ۲۴ جون ۲۰۱۰ ءکو سپریم کورٹ نےصوبائی اسمبلی پنجاب سے مسلم  لیگ ن کے ایم پی اے رضوان گل کے  خلاف  جعلی ڈگری کیس  کےبارے میں فیصلہ دیتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو حکم جاری کیا کہ وہ   سینیٹ اورقومی و صو بائی اسمبلی کے تمام اراکین کی ڈگریوں کی جانچ پڑتال کرے اور جعلی ڈگری والوں کے خلاف کارروائی کرے ۔  اس حوالے سے ہائر ایجوکیشن کمیشن میں قومی و صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ کے  ۱۱۷۰ اراکین کی ڈگریوں کی  جانچ پڑتال کا عمل جاری ہے ۔الیکشن کمیشن  کے جاری کر دہ  تازہ ترین اعداد وشمار کے مطابق ایچ ای سی نے مجموعی طور پر ۲۷۱ ڈگریوں پر کام مکمل کرتے ہوئے ۲۲۴ کو درست اور ۴۷ کو جعلی قرار دیا، باقی ڈگریاں ابھی تصدیق کے عمل سے گزر رہی ہیں[23]۔  "البلاغ ” نے اس ضمن میں تبصرہ کرتے ہوئےجعلی ڈگری اور اِس کی بنیاد پر منصب حاصل کرنے کی اخلاقی قباحتوں کو موضوع بحث بناتے ہوئے حسب ذیل تبصرہ کیا ہے۔ "مسلم علاقوں کےعوام کی نمائندگی کرنے والوں کی یہ حالت بحیثیت مجموعی قوم کےافسوسناک دینی واخلاقی بگاڑ کی غمازی کرتی ہے …..جعلی  ڈگری کے ذریعے منصب تک پہنچنا ایسا مکر وہ طرز عمل ہے جو اپنے اندر تہہ در تہہ قباحتیں رکھتاہے ، جھوٹ کسی بھی شکل میں بدترین گناہ ہے اور اسکی وہ شکل جو ملک وقوم کو بدنام کرنے،دولت اور اخلاق کے ملی اثاثہ جات کو پامال کرنے کا سبب بنے ایسا دستاویز ی جھوٹ ہے جو کسی صورت قابل  برداشت نہیں اور اس پر ایسی عبرتناک سزا دی جائے جو آئندہ کے لیے ایسے جرم کا راستہ بند کرے۔”[24]

ملک میں تبدیلی اقتدار کی شنید : ذرائع ابلاغ   کے مطابق ملک میں سیاسی ابتری کے پیش نظر اندرونِ خانہ تبدیلی اقتدار کی ہوائیں چل رہی ہیں جو  حکومت کے اندر سے بھی ہوسکتی ہے اور مڈٹرم الیکشن  کی صورت میں بھی ممکن ہے ۔سیاسی جماعتوں اور اپوزیشن کی طرف سے حکومت  تبدیل کر نے کے بارے میں بیانات سامنے آرہے ہیں ۔البتہ حکومتی ذمہ دار ان موجودہ اسمبلی کی مدت پوری ہونے تک تبدیلی کو خارج از امکان قرار دے رہے ہیں ۔”منہاج القرآن ” نے اس صورت حال پر  تبصرہ کرتے ہوئے تبدیلی اقتدار کو وقت کی ضرورت قرار دیا ہے  ۔ جریدہ لکھتا ہے ” کہنے کو تو حکومتیں اور ان کی کابینائیں ہیں ، وزیروں اور مشیروں کی قطاریں ہیں ،مگر یہ سب لوٹ مار اور کرپشن کی مشینیں بن چکی ہیں … اس صورت حال میں تبدیلی کی باتیں بجا ہیں، لیکن اگر قوم اور پالیسی ساز ادارے اخلاص عمل اور قومی جذبے سے محروم رہے تو مطلوبہ نتائج حاصل کر نا مشکل ہو گا۔اس وقت مثبت تبدیلی فوج ،میڈیا اور عدلیہ کے اشتراک عمل سے ہی ممکن ہے مگر اس کا مطلب فوجی حکومت نہیں ، تینوں ادارے اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر اہم کردار ادا کر سکتے ہیں ۔پاکستان کے باوقار مستقبل کا تقاضا یہ ہے کہ کوئی باکردار،  باصلاحیت اور جرأت مند قیادت سامنے آئےجو قوم کو نئی زندگی سے ہمکنار کر سکے ۔”[25]

رائے ونڈ کے  تبلیغی اجتماع پر پابندی کا مطالبہ:اخباری اطلاعات کے مطابق لاہور میں صوفی بزرگ  علی ہجویریؒ کے مزار پر خودکش حملے[26] کے بعد بریلوی مسلک سے تعلق رکھنے والی تنظیم سنی اتحاد کونسل نے ان حملوں کومزارات دشمنی کا شاخسانہ قرار دیتے ہوئے  دیوبند مسلک[27] سے تعلق رکھنے والی تبلیغی جماعت کے رائے ونڈ (لاہور)میں ہونے والے اجتماع پر پابندی ،دیوبندی مدارس میں بریلوی نصاب پڑھانے اور اہلحدیث مسلک سے تعلق رکھنے والی جماعت الدعوۃ کے مرید کے میں واقع مرکز کو سیل کرنے کا مطالبہ کیا ہے ۔[28] دوسری جانب دیوبند مسلک  کے  نمائندہ جریدے "الخیر ” نے اس مطالبے کو فرقہ وارانہ سوچ کاعکاس قرار دیانیز جریدے نے مذکورہ بالا دھماکے  کو بھارت کی پاکستان دشمنی کا شاخسانہ قرار دیا ۔ جریدے نے اپنے تبصر ے میں جہاں سنی اتحاد کونسل کے مطالبے کو غلط قرار دیا وہیں تبلیغی جماعت سے اظہار ہمدردی کر تے ہوئے اسے امت مسلمہ کی دولت مشترکہ قرار دیا ۔ جریدہ لکھتاہے ” اس طرح کے غیر منطقی مطالبات اس بات کے غماز ہیں کہ ہم اپنے مسلکی، گروہی اور محدود جماعتی نقطہ نظر  سے بالا تر ہو کر سوچنے کی تکلیف گوارا نہیں کرتے ،ہم میں قومی سوچ کا فقدان ہے اور ہم قومی سطح کے افسوسناک سانحات سے بھی اپنا مسلکی اور گروہی مفاد کشید کرتے ہیں ….. اولیاء اللہ کے مراقد پر حاضری کے آداب اور شریعت کے تقاضے فقہی مسائل ہیں جن پر بحث دینی درسگاہوں میں ہوسکتی ہے ….. اس طرح کی کاروائیاں ہمارے ازلی دشمن بھارت کی کار ستانی ہیں جو اپنے مخصوص ایجنڈے کی تکمیل کے لیے پاکستان کے تین صوبوں میں بدامنی پھیلا نے کے بعد اب پنجاب میں عبادت گاہوں اور مقدس مقامات پر دہشت گردی کر و ا کر مسلکی بنیادوں پر مسلمانوں کو آپس میں لڑ ا تے ہوئے  پاکستان کو کمزور کرکے  اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے ۔” جریدہ مزید لکھتاہے” تبلیغی جماعت کے اجتماع پر پابندی کا مطالبہ احمقانہ ہے کیونکہ یہ جماعت امت مسلمہ کی دولت مشترکہ ہے ، شیعہ سنی اختلافات کے باوجود بہت سارے شیعہ دوستوں کو تبلیغی جماعت کے ساتھ وقت لگاتے دیکھا گیا ہے جبکہ تبلیغی جماعت سے وابستہ اہلحدیث اور بریلوی دوستوں کی تعداد کا کوئی شمار نہیں ….. یوں محسوس ہو رہا ہے کہ تعصب اور فرقہ واریت کے جنون نے  سنی اتحاد کونسل کے رہنماؤں سےغور وفکر کی صلاحیتیں چھین لی ہیں ۔”[29]  

پاکستانی کرکٹرز پر میچ فکسنگ  کے الزامات اور داخلی کرپشن: اگست کے آخری ہفتے  میں لارڈز کرکٹ گراؤنڈ پر کھیلا گیا پاکستان اور انگلینڈ کے مابین کرکٹ ٹیسٹ اُس  وقت اہمیت اختیا ر کر گیا جب میچ میں پاکستانی ٹیم کی شکست کے بعد اس کے سات کھلاڑیوں پر میچ فکسنگ کے الزامات سامنے آئے  اور برطانوی پولیس نے مطلوبہ کھلاڑیوں سے پوچھ گچھ کے لیے ان  کے پاسپورٹ ضبط کر لیے ۔ اخباری اطلاعات کے مطابق اس واقعے کے سامنے آنے پر ملک میں سکینڈل میں  ملوث کھلاڑیوں کے خلاف مظاہرے اور انہیں سزا دینے کا مطالبہ کیا گیا۔پاکستان کرکٹ بورڈ نے اس سکینڈل کو پاکستانی کھلاڑیوں کو بد نا م کرنے کی  بھارتی سازش قرار دیا۔ "ندائے خلافت "نے اس ضمن میں اداریہ تحریر کیا ہے جس میں اس واقعے کے ذمہ داروں کو ملامت کرنے کے ساتھ ساتھ  ملک کے دیگراداروں سے کرپشن کے خاتمے کی تجویز بھی دی ۔جریدے کے خیال میں جب باقی شعبوں میں کرپشن عروج پر ہو تو کسی ایک شعبےپر کرپشن کے الزامات پرگرفت کر لینے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا ۔ جریدہ لکھتاہے "کوئی اپنے گریباں میں منہ ڈالنے کو تیار نہیں ، کوئی یہ دیکھنے کو تیار نہیں کہ معاشرے نے ان کھلاڑیوں کی کن بنیادوں پر تربیت کی تھی ، ان کے سامنے رول ماڈل کیا تھا اور کیاہے ۔غور کرنے کی بات  یہ ہے کہ اگر ان کھلاڑیوں نے اپنے فن کو فروخت کیا (جس کا ثابت ہونا ابھی باقی ہے)،تو جب  وفاقی وزیر جمشید دستی  جعل سازی سے قومی اسمبلی کا ممبر بن گیا ، وفاقی وزیر کھیل اعجاز جاکھرانی نے اپنی زمینوں کو بچانے کے لیے دیہاتوں کو ڈبودیا،اور آصف علی زرداری نے اقتدار بچانے اور دولت کمانے کے لیے امریکی غلامی  کی شرط پوری کر لی، تو سوال یہ ہے کہ صرف یہ نوجوان کرکٹر مطعون کیوں ہیں؟…. ایسی صورت میں جب آوے کا آوا ہی بگڑا ہو اور جب معاشرہ گندگی کے ڈھیر کی مانند ہو تو کون دے گا کس کو سزا؟ ۔”[30]

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے