مباحث نومبر ۲۰۱۰ ء
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو سزا
۲۴ستمبر۲۰۱۰ء کوامریکی عدالت نے امریکی فوجیوں پر حملے کے الزام میں گرفتار پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو چھیاسی برس قید کی سزا سنائی ہے ۔ وفاقی عدالت نے انہیں افغانستان میں امریکی فوج اور حکومت کے اہلکاروں پر مبینہ طور قاتلانہ حملے اور قتل کی کوشش کرنے کے سات الزامات میں مجرم قرار دیا تھا۔ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اس سزا کے خلاف احتجاج ہواجس میں نہ صرف امریکہ کے عدالتی نظام پر تنقید کی گئی بلکہ پاکستانی حکمرانوں کے کردار کو بھی شرمناک قرار دیا گیا۔ اس دو ماہی کے دینی جرائد میں سے اہل حدیث مکتبِ فکر کے دو جرائد اور ایک غیر مسلکی جریدے نے اس اہم خبر کو اپنےہاں جگہ دی ہے۔ جس میں اس فیصلے کی مذمت کی گئی اور اسے ظالمانہ اور ناانصافی پر مبنی قرار دیا گیا ساتھ ہی پاکستانی حکمرانوں کے رویے کی بھی مذمت کی گئی ہے۔
ماہنامہ "محدث” نے اوریا مقبول جان کا ایک مضمون بعنوان "ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور اہالیان پاکستان” شائع کیا ہے۔مضمون نگار نے اس حوالے سے تمام حقائق کو پیش کرنے کے بعد مسلمان حکمرانوں کی بے حسی کی مذمت کی ہے۔ نیز لکھا ہے کہ "اس قوم کی حالت زار پر حیرت ہوتی ہے کہ جہاں مختاراں مائی کے لئے سڑکیں، شہر اور میڈیا سب احتجاج کرتے ہیں،اور عافیہ صدیقی پر ساری انسانی حقوق کی ترجمانی کرتی انجمنوں کو چپ لگ جاتی ہے ، سانپ سونگھ جاتا ہے۔ جس ملک میں اس طرح مجرم حکمران دندناتے پھریں اور اس طرح کے ظلم پر بے حسی اور خاموشی طاری ہو وہاں سے رحمتیں اٹھ جاتی ہیں اور غیظ و غضب کی صدائیں گونجنے لگتی ہیں۔ اور ہم پر موجودہ عذاب اور ہماری حالت زار کا سبب یہی مجرمانہ خاموشی اور بے حسی ہے۔”[31]
جریدے نے اس ضمن میں ایک اور مضمون بعنوان "امریکی عدالت کا فیصلہ اور ایک انتہا پسند کا نقطہء نظر” شائع کیا ہے۔ اس میں مضمون نگار محمد عطاء اللہ صدیقی نے روزنامہ پاکستان کے ایک کالم نگار افضال ریحان کے کالم[32] کی مذمت کرتے ہوئے اس کے مندرجات کو سیکولرازم کے سرطان کا اثر قرار دیا ہے۔ مضمون نگار نے افضال ریحان کے اس خیال کی تردید کی ہے جس میں انہوں نے لکھا کہ پاکستان کے اخبارات نے امریکی عدالت کے فیصلے پر جو سرخیاں جمائی ہیں وہ خوش آئند نہیں ہیں۔ اس کے خیال میں یہ سرخیاں بین المذاہب دوری کا باعث بنیں گی۔ افضال ریحان نے میڈیا کے کردار اور مذہبی تنظیموں کے احتجاج کو بھی قابل مذمت قرار دیا ہے۔ مضمون نگار محمد عطا ء اللہ صدیقی اس سزا کو گھناؤنا قرار دیتے ہیں اور اس کا سبب صرف ڈاکٹر عافیہ کا مسلمان ہونا قرار دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ان کی فرد جرم کے مقابلے میں یہ سزا کئی ہزار گناہ زیادہ ہے۔ اور افضال ریحان کے موقف کی مذمت کرتے ہوئے اپنا مضمون ان الفاظ پر ختم کرتے ہیں کہ "یہ صرف اسی شخص کی سوچ ہو سکتی ہے جو قومی حمیت اور ملی غیرت کے تقاضوں سے نا بلد ہو مگر خود کو حکمت و دانش کے تخت پر مسند نشین سمجھنےکی خود فریبی میں مبتلا ہو۔ ” [33]
ہفت روزہ "الاعتصام” لکھتا ہے کہ” یہ سب اُس صلیبی جنگ کا نتیجہ ہے جس کو ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ کہہ کر اس کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ اور جب تک ہمارے سیاسی و دینی قائدین اور حکمران اپنی سرزمین پر لڑی جانے والی اس جنگ کو صلیبی قرار نہیں دیتے اس وقت تک سرزمین پاکستان بے گناہوں کے خون سے سرخ ہوتی رہے گی، ہمارے بچے یتیم اور والدین بے سہارا ہوتے رہیں گے۔ اور ہماری بیٹیوں کے سہاگ اجڑتے رہیں گے اور قوم کی بیٹیوں کے ساتھ یہی سلوک ہوتا رہے گا۔ ” [34]
ہفت روزہ "ندائے خلافت”لکھتا ہے "اگرچہ اصل اور بڑے مجرم مسلمان حکمران ہی ہیں لیکن عام مسلمان کا جرم بھی قابل گرفت ہے کہ وہ خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔ مجبوریاں اپنی جگہ لیکن پھر بھی اسے جاننا چاہیے کہ قومیں افرد سے بنتی ہیں ، ہمت اور جرأت کے بغیر منزل نہیں ملتی…..تاریخ کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ جب کوئی سپر پاور زوال پذیر ہونے لگتی ہے تو سب سے پہلے اس کا اخلاقی نظام زوال پذیر ہوتا ہے۔ عافیہ جیسی بے گناہ اور معصوم خاتون کو سزا دینا اخلاقی گراوٹ کی انتہا ہے اور یہ امریکی قوت کے زوال کا آغاز ہے۔ امریکی مظالم سے دنیا کو نجات ہو گی اور عافیہ ان شاء اللہ انسانیت کے لیے عافیت کا باعث ہو گی۔”[35]
جواب دیں