مباحث،مئی ۲۰۱۲ ء
نو مسلم خواتین کا تحفظ
24 فروری 2012ء کو صوبہ سندھ کے ضلع گھوٹکی سے تعلق رکھنے والی ایک ہندو لڑکی رنکل کماری نے خانقاہ عالیہ قادریہ بھرچونڈی شریف میں جا کر سجادہ نشین میاں عبد الحق کے ہاتھ پر اسلام قبول کر لیا اور اسلامی نام فریال رکھا ۔ قبول اسلام کے بعد نوید شاہ نامی نوجوان سے اس کی شادی ہو گئی۔ فریال کے ماموں راج کمار نے سندھ ہائی کورٹ میں رنکل کے اغواء اور جبری شادی کا مقدمہ دائر کر وا کر اس کی بازیابی کی درخواست کی تھی۔ رنکل کماری اور اس سے قبل لتا کماری (موجودہ ڈاکٹر حفصہ) کے قبول اسلام کے بعد سے ہندو تنظیموں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے اسے مذہب کی جبری تبدیلی کہہ کر اس کے خلاف احتجاج ہو تا رہا ہے ، جبکہ دینی حلقوں میں اسلام کی جانب رغبت کو سراہا جا رہا ہے۔ گزشتہ کچھ عرصہ میں اس موضوع کو ذرائع ابلاغ میں خاصی پذیرائی ملی ہے۔
دستیاب دینی جرائد میں سے اس حوالے سے دو دیوبندی جرائد اور ایک اہل حدیث جریدے نے اظہارخیال کیا ہے۔ ہفت روزہ "ختم نبوت” نے میڈیا، انسانی حقوق کی تنظیموں اور قوم پرست رہنماؤں کے رویے کی مذمت کی ہے۔ نیز سیاسی جماعتوں سے درخواست کی ہے کہ "آپ مسلمانوں کا ساتھ دیں اور ہندو بنیے کی چاپلوسی نہ کریں” ۔
"ضرب مؤمن” لکھتا ہے کہ "ہندو برادری کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اسلام میں جبر کا کوئی فلسفہ ہوتا تو بر صغیر کے ایک ہزار سالہ مغلیہ دور میں سارے ہندو مسلمان ہو چکے ہوتے۔ جب اسلام نے اس سنہری دور میں اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کیا اور دین کے نام پر جبر روا نہ رکھا تو آج مسلمان سیاسی کمزوری کے اس زمانے میں ایسا جرم کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ لیکن جو لڑکی اپنی رضامندی اور غور و فکر کے ذریعے اسلام قبول کر چکی تو اسے بے یارو مددگار چھوڑنا بھی اسلام کا شیوا نہیں”۔ جریدہ مزید لکھتا ہے کہ اسلام معاشرے کے کمزور طبقوں کا خصوصی نگہبان ہے اور جب یہ طبقے سنجیدگی سے اسلام اور قرآن کا مطالعہ کرتے ہیں تو اپنے اسلام کی آغوش میں ہی پناہ لیتے ہیں۔ یہ علماء کرام کا فرض ہے کہ عوام میں اسلام کی حقیقی تعلیمات کی آگہی پیدا کرنے کی کوشش کریں ۔
"اسوہ حسنۃ” لکھتا ہے کہ اس سے پہلے بھی پاکستان میں قبول اسلام کے واقعات رونما ہوتے رہے لیکن کبھی کسی واقعہ کو اس طرح شہہ سرخی بنا کر پیش نہیں کیا گیا، مگر حالیہ واقعہ پر تو سیاسی شعبدہ بازوں اور امریکہ و انڈیا کی دلدادہ فلاحی تنظیموں نے ایک طوفان بدتمیزی برپا کیا ہوا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس واقعہ کو اسلام دشمن قوتیں دین اسلام کی تعلیمات کو مسخ کرنے اور سیاسی رہنما اپنے مزعومہ سیاسی مقاصد کے پیش نظر موضوع بحث بنا رہے ہیں۔ این جی اوز کے دوہرے رویے کی مذمت کرتے ہوئے جریدہ لکھتا ہے کہ "ستم بالائے ستم یہ ہے کہ گھر سے بھاگ کر اپنی پسند کی شادی کرنے والی لڑکیوں کے لیے ہمارا آزاد میڈیا بھرپور تائید فراہم کرتا ہے اور آازدی نسواں کے نام پر اباحیت کو فروغ دینے والی این جی اوز بھی میدان میں اتر آتی ہیں۔ لیکن اس معاملے میں مذہب کو فرد کا ذاتی معاملہ کہنے والے ترقی پسندوں سے لیکر محبت کی شادی کو آزادی کے نام پر سند جواز دینے والوں کے پیمانے نہ جانے کیوں یکسر بدل جاتے ہیں”۔ جریدہ علماء سے گزارش کرتا ہے کہ حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے تمام گروہی و مذہبی تعصبات سے بالا تر ہو کر اسلام کی مثبت دعوت اور عقیدہ توحید کو عوام کے سامنے پیش کریں”
جواب دیں