مباحث،مئی ۲۰۱۲ ء
مہران بینک اسکینڈل
1990ء سے 1994ء کے درمیان رونما ہونے والا مہران بینک اسیکنڈل پاکستان کی تاریخ کا ایک بڑا اسکینڈل ہے جس میں فوج اور ایجنسیوں کے ذریعے سینئر سیاست دانوں کے درمیان خطیر رقم تقسیم کی گئی۔ پہلی بار 1996ء میں اصغر خان نے سپریم کورٹ میں یہ کیس دائر کیا تھا ۔ اس کیس کی کچھ سماعتیں ہوئی تھیں۔ 1999ء میں جنرل (ر) پرویز مشرف کی جانب سے مارشل لاء کے نفاذ کے بعد اس پر کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔ اب تقریبا سولہ سال بعد سپریم کورٹ نے ایک تین رکنی بینچ تشکیل دے کر اس کیس کی سماعت دوبارہ شروع کی ہے۔ اس اسکینڈل میں اہم کردار یونس حبیب تھے جو کہ مہران بینک کے صدر تھے۔
دینی جرائد میں اس حوالے سے صرف "ندائے خلافت” نے اظہار خیال کیا ہے۔ جریدہ لکھتا ہے کہ "جمہوریت میں حکومت کے حصول کے لیے کئی قسم کے فاؤل پلے ہوتے ہیں لیکن اتنی واضح اور کھلم کھلا بد دیانتی جو فوج اور بعض سیاسی عناصر کے گٹھ جوڑ سے ہوئی بہت کم دیکھنے میں آئی ہے”۔ جریدہ مزید لکھتا ہے کہ” اس کیس میں فوج اور سیاست دان دونوں مجرم ہیں لیکن گزشتہ چند ماہ سے جبکہ افواج پاکستان اور امریکہ میں افغانستان کے حوالے سے تنازعہ چل رہا ہے، فوج کو خصوصی طور پر ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے۔ جب تک فوج امریکہ کی منظور نظر تھی تو میڈیا کے لیے مقدس گائے تھی، لیکن جب سے امریکہ سے ناراض ہے تو الیکٹرانک میڈیا پر فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف ایک طوفان برپا ہے”۔ آخر میں جریدہ عدالت عظمیٰ سے درخواست کرتا ہے کہ دو طاقت ور طبقات یعنی سول اور فوجی لٹیروں نے غریب عوام کی دولت کو لوٹا ہے اس لیے جس پر بھی بددیانتی ثابت ہو اسے بغیر استثناء کے سزا دی جائے۔ آج پاکستان کے عوام عدل کے بھوکے ہیں ، اگر اب بھی ظالم کا ہاتھ نہ روکا گیا تو یہ قومی خود کشی کے مترادف ہو گا ۔
جواب دیں