مباحث، مارچ ۲۰۱۲ ء
میمو سکینڈل
میمو سکینڈل اس میمورینڈم کے گرد گھومتا ہے جو ذرائع ابلاغ کے مطابق صدر آصف علی زرداری کے کہنے پر امریکہ میں اس وقت کے پاکستانی سفیر حسین حقانی نے پاکستانی نژاد امریکی بزنس مین منصور اعجاز کے ذریعے سے ایڈمرل مائیک مولن تک پہنچایا تھا۔ میمومیں کہا گیا ہے کہ” اسامہ بن لادن کی ایبٹ آبادمیں موجودگی کی تفصیلات جاننے اور اس میں ملوث افراد کا پتہ لگانے کے لیے کمیشن بنایا جائے گا۔جبکہ جمہوری حکومت کو فوج کی جانب سے برطرفی کا خطرہ ہے ۔میمو میں مطالبہ کیا گیا کہ مائیک مولن جنرل کیا نی کو سخت پیغام دیں۔میمو میں مزید کہا گیا کہ اسلام آباد میں سی آئی اے اسٹیشن چیف کا نام آئی ایس آئی نے ظاہر کیا”۔ اس میمو کا مقصد اوبامہ انتظامیہ کی جانب سے فوج پر دباؤ ڈالنا تھا کہ وہ موجودہ حکومت کو برطرف کرنے سے باز رہے۔ حکومت نے اگرچہ اس میمو کو ایک فرضی کہانی قرار دیا لیکن آرمی چیف اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل شجاع پاشا نے کمیشن کے سامنے اپنے حلفیہ بیان میں اس کے حقیقی ہونے کا اظہار کر دیا ہے۔
دینی جرائد میں سے صرف ماہنامہ "ضیائے حرم ” نے اس حوالے سے ایک مضمون شائع کیا ہے جس میں صاحب مضمون نے میمو کے متعلق تفصیلات اور اس حوالے سے حکومتی رویے کی تفصیلات لکھنے کے بعد سوال اٹھایا ہے کہ ” اگر متنازعہ میمو زرداری، گیلانی حکومت کی ایما پر نہیں لکھا گیا اور حکومت نے اپنی فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف امریکا سے مدد نہیں مانگی تو پھر پوری حکومتی مشینری اور پیپلز پارٹی کی قیادت منصور اعجاز کی گواہی روکنے کے لیے سر دھڑ کی بازی کیوں لگا رہی ہے؟ نیز 25 جنوری کو آخری حربے کے طور پر اسلام آباد ہائیکورٹ میں شاہد اورکزئی کی طرف سے منصور اعجاز کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کرنے کی درخواست بھی دائر کر دی گئی جو کہ عدالت نے مسترد کر دی۔ ان تمام ہتھکنڈوں سے یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ حکومتی دال میں کچھ کالا ضرور ہے ، یا حکومت کی ساری دال ہی کالی ہے” [5]۔
[5]قاضی مصطفیٰ کمال "اعلیٰ عدلیہ کا فق ۔۔۔ تین اہم ترین ایشو”، ماہنامہ ضیائے حرم، اسلام آباد، فروری 2012ء (بریلوی)
جواب دیں