مباحث، مارچ ۲۰۱۲ ء
بلوچستان کے حوالہ سے امریکی سینیٹر کی قرارداد
امریکی ایوان نمائندگان میں 16 فروری 2012 کو بلوچستان کے حوالہ سے ایک قرارداد پیش کی گئی جس میں کہا گیا ہے کہ بلوچ عوام کو اپنے لیے آزاد ملک کا حق حاصل ہے۔ یہ قرارداد ریپبلکن جماعت کے نمائندے ڈینا روباکر نے جمع کرائی ہے۔ روباکر خارجہ امور کی ذیلی کمیٹی کے چیئرمین بھی ہیں۔ اس قرارداد کے مطابق بلوچی عوام کو تاریخی طور پر حقِ خود ارادیت حاصل ہے۔ قرارداد میں مزید کہا گیا ہے کہ بلوچستان اس وقت پاکستان، ایران اور افغانستان میں بٹا ہوا ہےجس کی وجہ سے بلوچ عوام کو ان کے حقوق حاصل نہیں ہو رہے۔ پاکستان کی جانب سے اس پر شدید احتجاج کیا گیا اور دفتر خارجہ کے ترجمان نےاس قرار داد کو جہالت اور لاعلمی پر مبنی قرار دیا۔
یہ واقعہ چونکہ وسط فروری کا ہے اس لیے دینی جرائد میں سے صرف "ضرب مؤمن” نے اسے اپنے اداریے میں جگہ دی ہے۔ دیگر جرائد کی اشاعت چونکہ فروری کے آغاز میں ہو جاتی ہے اس لیے آئندہ شماروں میں اس حوالے سے تحاریر آنے کی توقع کی جا سکتی ہے۔
"ضرب مؤمن” امریکی اقدامات کی سخت مذمت کے ساتھ ساتھ پاکستانی وزیر داخلہ پر بھی تنقید کرتا ہے کہ” وہ امریکہ کو اس "عمل” سے روکنے کے بجائے پاکستانی عوام کو اس پر "رد عمل” سے روکنے کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں”۔ جریدہ مزید لکھتا ہے کہ سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ کے بعد پاکستان کی جانب سے عدم تعاون سے امریکہ کو جن مشکلات کا سامنا ہے اس کے بعد امریکہ کی جانب سے ا س طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرنا ظاہر کرتا ہے کہ یہ کام بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ ہو رہا ہے۔ اس وقت شدید ضرورت ہے کہ امریکہ کی مذمت کے ساتھ ساتھ اپنے حالات کو درست کرنے کی کوشش بھی کی جائے۔ حکومت پہلے اپنی کوتاہیاں دور کرے ، ناراض بلوچوں کو منائے اور ان کے حقوق ادا کرنے کے لیے مؤثر اقدامات کرے، صدر یا وزیر اعظم کو چاہیے کہ وہ بلوچستان کے حالات کا جائزہ لینے اور شکایات کا ازالہ کرنے کے لیے ہر مہینے دو سے تین بار بلوچستان کے دورے کریں۔ نیز امریکا کو بھی یہ پیغام ذرا واضح انداز سے دیا جائے کہ جب پاکستان نے نیویارک میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف مظاہروں کو کچلنے کی کاروائیوں کو امریکا کا اندرونی معاملہ گردانتے ہوئے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا شور نہیں مچایا تو امریکا کو بھی مداخلت کا حق نہیں پہنچتا [4]۔
[4] اداریہ "بلوچستان میں قیام امن کی ضرورت” ہفت روزہ ضرب مؤمن، کراچی، فروری 17 -23، 2012ء (دیوبندی)
جواب دیں