مباحث ستمبر ۲۰۱۰ ء

مباحث ستمبر ۲۰۱۰ ء

دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات

گزشتہ دوماہی کے دوران جاری  دہشت گردی اور کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں بیسیوں افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ کراچی   میں متحدہ قومی موومنٹ سے تعلق رکھنے والے رکن صوبائی اسمبلی رضا حیدر کے قتل کے بعد حالت زیادہ کشیدہ رہے اور اس  واقعہ کے بعد ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں ۶۵ سے زائد لوگ مارے گئے ۔  اس بار دینی جرائد کی توجہ اس جانب قدرے کم رہی جس کی وجہ دیگر اہم موضوعات کی کثرت دکھا ئی دیتی ہے ۔تاہم جرائد کی آراء حسب ذیل ہیں۔

” نوائے اسلام "ٹارگٹ کلنگ کے حو الے سے شذرہ تحریر کرتے ہوئے لکھتا ہے "رضا حیدر کے قتل کی تما م حلقوں نے مذمت کی مگر اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ اس سے کہیں زیادہ خوفنا ک اور افسوسناک تھا ، اور یہ سب کچھ شہر میں ریڈ الرٹ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہزاروں اہلکاروں کی تعیناتی کے باوجود ہوا ،یوں لگتاہے کہ حکومت نے مفاہمت کے نام پر شرپسندی کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے ،عوام حسرت سے اپنے حکمرانوں کی طرف دیکھ رہے ہیں مگر حکمرانوں نے شاید کچھ نہ کرنے کی قسم کھا رکھی ہے ۔”[16]

"افتخار العارف "نے اس حوالے سے ایک مضمون شائع کیا ہے ۔ مضمون نگار کراچی کے حالات کا ماضی اور حال کے واقعات  کی روشنی میں تجزیہ کرتے ہوئے موجودہ مقتدر پارٹیوں پیپلز پارٹی اور اس کی اتحادی  ایم کیو ایم  نیز جماعت اسلامی ، اے این پی ، سپاہ صحابہ طالبان ، اہل تشیع کے ایک دھڑے ، اور بیرونی طاقتوں میں سے امریکہ اور روس کو کراچی کے حالات کی خرابی کا کسی نہ کسی درجے میں  ذمہ دار خیال کرتے ہوئے خلاصۃً  لکھتے ہیں ” کراچی میں اسی کے عشرے سے لیکر اب تک کئی بار فرقہ وارانہ اور لسانی فسادات ہوئے شواہد وقرا ئن ثابت کرتےہیں کہ اس عرصے میں انجام پانے والے تما م بڑے فسادات صرف دو لسانی گروپوں یا صرف مسلکوں کے درمیان اختلافات کی بنیاد پر نہ تھے ، بلکہ ان کے پیچھے سیاسی اہداف تھے جو وقت آنے پر آشکارہو گئے ۔ "[17] دہشت گردی کے واقعات کے حوالے سے جریدے نے ایک اور مضمون شائع کیا جس میں مختلف واقعات کے حوالے سے حکومت پنجاب پردہشت گردوں کے ساتھ مبینہ رابطوں کا الزام عائد کرتے ہوئے وزیر اعلی شہباز شریف اور ان کی کابینہ کے بعض وزراء کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے ” یہ واضح نظر آرہا ہے کہ  صوبائی حکومت صوبے میں موجود مذہبی نقطہ نظر رکھنے والی جماعتوں کے متصورہ ووٹ بنک کے حصول کی کوشش میں دور تک جانے کو تیا ر ہے ، دہشت گردی کے ان حالات میں حکومت پنجاب کا یہ موقف کہ وہ دہشت گردوں کو سیاست عامہ میں لانا چاہتی ہے بالکل کھوکھلاہے …..پنجاب حکومت جیش محمد اور لشکر جھنگوی کے دہشت گردوں کی مکمل سرپرستی کر رہی ہے اور وہ ان پر ہا تھ ڈالنے کو تیا ر نہیں بعض ذرائع کے مطابق  اس  کی ایک وجہ وزیر اعلیٰ شہباز شریف اور کالعدم لشکر جھنگوی کے مابین "چوہنگ انسداد دہشت گر دی سیل میں ہونے والا معاہدہ ہے جس کے تحت حکومت جنوبی پنجاب میں کسی قسم کا آپریشن نہیں کریگی ،حکومت اب تک اس معاہدے کی پاسداری کر رہی ہے اور امکان یہی ہے کہ وہ اس پر کاربند رہے گی۔”[18]

دہشت گر دی کے واقعات کا تذکرہ کرتے ہوئے ” منتظر السحر ” رقمطراز ہے ” مملکت خداداد میں اب نہ تو شیعہ محفوظ ہیں اور نہ ہی سنی حضرات ، دہشت گر دوں نے اولیا ء کے مزارات کو بھی نشانہ بنایا ہے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ملک بھر میں فرقہ واریت کو ہو ا دینے والے مسلمان نہیں بلکہ عالمی استعما ر امریکہ اور اسرائیل کے ایجنٹ ہیں جو اپنے غیر ملکی آقاؤں کے اشارے پر  ملک میں انارکی پھیلا رہے ہیں ۔”[19]

ماہنامہ”العصر”نے مفتی غلام الرحمٰن [20] کے ایک انٹرویو کا حوالہ دیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا "اسلام امن وسلامتی کا مذہب ہے دہشت گردی اور انتہا پسندی کی اجازت نہیں دیتا ، موجودہ دہشت گردی درحقیقت خفیہ ہاتھ کر وا رہے ہیں اور پس پردہ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن اس میں ملوث ہیں۔”[21]

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے