مباحث ستمبر ۲۰۱۰ ء

مباحث ستمبر ۲۰۱۰ ء

 

جعلی ڈگریا ں، عدالتی فیصلہ

پاکستان سپریم کو رٹ کے  فیصلہ کے مطابق الیکشن کمیشن میں اراکین اسمبلی کی ڈگریوں کی جانچ پڑتا ل کا عمل جاری ہے ۔اب تک کی تحقیقات کے مطابق  ارکین قومی وصوبائی اسمبلی کی ۸۷۰ ڈگریوں میں سے ۱۶۷ مشکوک قرار پائی ہیں ۔  دینی جر ائد نے اس حو الے سے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے جعلی ڈگری ہولڈرز پر تنقید کی ہے ۔ اور اس عمل کوقوم کا سر شرم سے جھکانے کا باعث قر ار دیا  تاہم ایک رائے یہ بھی سامنے آئی ہے کہ اصلی ڈگری والوں نے کونسا عوام کے خدمت کی ہے کہ جعلی ڈگری والوں کو معتوب کیا جائے ۔

” ضرب مومن ” کے خیال میں جعلی ڈگری کے بارے میں ہوشر با اور شرمناک انکشافات پو ری قوم کا سر شر م سے جھکا رہے ہیں ۔چنانچہ جریدہ حکومت کو مشورہ دیتے ہو ئے لکھتا ہے کہ ” حکومت کو سمجھنا چایئے کہ  تاخیری حربے معاملے کو زیادہ بگاڑ سکتے ہیں اس سے پہلے کہ دیر ہوجائے اور حکومت اسمبلیاں تحلیل کرنے پر خود کو مجبور پائے اسے اس مسئلے کے حل کی طرف پیش قدمی کرنی  چاہیے ….. جعلی ڈگری ہولڈرز کی تعداد اگر زیادہ نہیں تو حکومت کو عدالت کے فیصلے کا احترام کرتے ہوئے انہیں ا ن کے عہدوں سے بر طرف کرنا چاہیے  ، تاہم اس اقدام پر عمل کرنے کے لیے متعلقہ سیاسی پارٹیوں کا تعاون انتہائی ناگزیر ہے ان پارٹیوں کو اسے اپنی انا کا مسئلہ بناتے ہوئے مقننہ اور انتظامیہ کا راستہ نہیں روکنا چاہیے۔”[9]

” الاعتصام ” لکھتا ہے کہ "ا س فعل میں پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتیں ایک سے بڑھ کر ایک ہیں ۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ پارٹیاں پھر انہی جعل سازوں کو ٹکٹ دیتی ہیں بلکہ ڈھٹائی سے ان کو کامیاب بھی کرواتی ہیں …. اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ پارٹی لیڈروں کے نزدیک امانت  ، دیانت ، اور ملک وملت سے محبت ثانوی چیز ہے اصل چیز پارٹی لیڈروں کی ذاتی وفاداری ہے ۔”جریدہ اپنی ۲تا ۸ جولائی کی  اشاعت میں لکھتا ہے” اس پالیسی میں عوام پسند اور اسلام پسند پارٹیاں متفق ہیں یا یوں کہہ لیں کہ ان کی ملی بھگت ہے ۔قانون کی حکمرانی کا نعرہ اور اس پر عمل درآمد کا وعدہ تو سارے لیڈر کرتے ہیں لیکن الیکشن کمیشن کی اصول و قواعد میں طے انتخابی جعل سازی کی تین سالہ قید کی سزا پر عمل درآمد کا حزب اقتدار و اختلاف میں سے کسی نے نام تک نہیں لیا کہ اصل میں مفادات کے لیے یہ سارے ایک ہی رہے ایک ہی ہیں اور ایک ہی رہیں گے ۔”[10]

” اہلحدیث ” افسوس کا اظہار کرتے ہوئے لکھتا ہے ” ایک غریب آدمی جعلی ڈگری نہ حاصل کر سکتا ہے اور نہ اس کی بنیاد پر کو ئی ملازمت حاصل کر سکتا ہے جبکہ بڑے لو گ جعلی ڈگریوں کی بنیاد پر صوبائی اور قومی اسمبلی کے  رکن بن جاتے ہیں۔”[11]

"نوائے اسلام ” شذرے میں لکھتا ہے "یہ جعل ساز اپنے جر م پر شرمسار ہونے کی بجائے جمہوریت کی دہائی دے رہے ہیں کہ جمہوریت کے خلاف سازش ہو رہی ہے، ان فراڈیوں نے سیاست کے منظر نامے پر اتنی دھو ل اڑادی ہے کہ سب کچھ دھندلا رہاہے ….. جب عوامی نمائندوں کا معیار ہی جعل سازی ہو تو پھر یہ توقع  کرنا کہ وہ کوئی کارنامہ انجام دے سکیں گے تو یہ خو اب کے سوا کچھ نہیں۔” [12]

” اخبار المدارس ” نے ایک مضمون شائع کیا ہے مضمون نگا ر کے خیال میں "چونکہ دونوں بڑی پارٹیوں کو کڑے وقت کا سامنا ہے اب اگر انہوں نے اس پر پل نہ باندھا تو ان کی صفیں کی صفیں خالی ہو جائیں گی یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ ن کے قائد  میاں نواز شر یف نے کہا کہ جعلی ڈگری والوں سے بڑے  مجرم تو وہ ہیں جنہوں نے  ملک توڑا اور  کا رگل کا مسئلہ کھڑا کیا،تاہم اس بیان پر جگ ہنسائی کے بعد انہوں نے بھی کہہ دیا کہ جعلی ڈگریوں والے خود استعفے پیش کریں  جبکہ بابر اعوان کا یہ کہنا کہ سیاست دانوں کی ڈگریوں کے بجائے ان کی خدمات کو دیکھا جائے یہ باتیں معاملے کو ایک نیا رخ دینے کے مترادف ہیں۔”[13] ” صحیفہ اہلحدیث ” کے خیا ل میں ڈگری کے معاملے  کو اس قدر اہمیت دی گئی کہ بہت سے باصلاحیت  لوگ جو ملک کی خدمت کی بھر پور اہلیت رکھنے کے باوجود ڈگری نہ ہونے کے باعث میدان سیاست سے باہر ہو گئے اور ناتجربہ کا ر اور بددیانت لوگ جعلی ڈگریا ں لیکر ایوانوں میں پہنچ گئے ، جریدہ  اپنی رائے کا اظہا ر کرتے ہوئے لکھتا ہے "بہت سے وہ صحافی جو پرویز مشرف کے بنائے ہوئے قوانین این آر او وغیر ہ کو مسترد کر چکے ہیں وہی مشر ف کی اس بی اے کی شرط کے لیے دن رات ایک کر رہے ہیں ، اور عدالتوں کے فیصلوں سے بھی لگتا ہے کہ اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ چند سیاست دانوں کی جعلی ڈگریاں ہیں حالانکہ جن سیاست دانوں کی ڈگریا ں اصلی ہیں انہوں نے ملک اور عوام کو کونسا فائدہ پہنچایا ہے ، کیا عوام ان کی اصلی ڈگریوں کو چاٹ کر گزارہ کر یں گے؟۔”[14]

اسی ضمن میں "سوئے حجاز” لکھتا ہے کہ ” وسیع پیمانے پر جعلی ڈگریوں کے باعث نااہل قرار پانے والے اراکین اسمبلی کی کثیر تعداد کو دیکھتے ہوئے بعض جماعتوں نے مڈٹرم الیکشن کا مطالبہ بھی  کر دیا ہے ۔…. یہ کوئی معقول صور ت نہیں اور نہ ہی اس سے ملک وقوم کےلیے کوئی خیر برآمد ہوتی نظر آتی ہے۔”[15]

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے