مباحث ستمبر ۲۰۱۰ ء
سیلاب، قومی سانحہ
جولائی کے اواخر اور اگست کے اوائل میں ملک میں مون سون بارشوں کے باعث ملک اپنی تاریخ کے شدید ترین سیلاب کی زد میں رہا ، سیلاب سے خیبر پختونخوا ، پنجاب ،سندھ ، بلوچستان اور آزاد کشمیر میں شدید تباہی ہوئی ، سینکڑوں لوگ شہید ہوئے ، کاروبار زندگی بری طرح متاثر ہوا، اور ذرائع ابلاغ کی ابتدائی اطلاعات کے مطابق سیلاب سے ایک کروڑ چالیس لاکھ سے زائد لوگ متاثر ہوئے اور ایک ارب ڈالر کا نقصان ہوا ۔ بعض ہفت روزہ جرائد نے سیلاب کی تباہ کاریوں کے حوالے سے اپنے تبصرے شائع کیے ہیں ۔تاہم ماہانہ جرائد میں اس حوالے سے آئندہ ماہ تجزیوں اور تبصروں کی توقع ہے ۔ جرائد نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پر مبنی رویے کو اس طرح کی مشکلات کا سبب قرار دیا اور عوام کو توبہ استغفار کرنے کا مشورہ دیا ہے اور ساتھ ہی جرائد سیلاب سے نمٹنے کے لیے حکومتی اقدامات کو ناکافی اور اس موقع پر صدر مملکت کے فرانس اور بر طانیہ کے دورے کو غیر ضروری خیال کرتے ہیں نیز بھارت کے بعض اقدامات کو بھی سیلاب کی وجہ قرار دیا جارہا ہے ۔
"ضرب مومن ” لکھتا ہے "انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ تا ہے کہ سیلابی ریلوں کی پیشگی اطلاع کے باوجود وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے سیلاب کے نقصانات کو کم کرنے کے لیے کسی قسم کی پیش بندی نہیں کی گئی او ر نہ ہی ہنگامی طور پر کچھ خاص سر گرمی دکھائی دے رہی ہے ….. صد ر مملکت آصف علی زرداری تمام محب وطن حلقوں اور اہل دا نش کی رائے کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے فرانس کے لیے پر واز کر گئے …..تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کی اس ڈوبتی ناؤ کو ساحل پر لگانے کے لیے ہر طبقے کے افراد بالخصوص مملکت کے سربرآوردہ شخصیا ت اپنا کر دار ادا کریں۔[6]"اس ضمن میں جریدے نے کر اچی کے معمار ٹرسٹ کی سیلاب زدگان کے لیے خدمات کو سراہا ۔
"نوائے اسلام "اظہا ر افسوس کر تے ہوئے لکھتا ہے ” اگر ڈیڑھ کروڑ عوام سیلاب کے باعث بے گھر ہوچکے ہیں تو یہ خبر حکمرانوں اور سیاست دانوں کو اچھی لگی ہوگی کیونکہ انہیں سیاست چمکانے کا ایک اور موقع مل گیا ہے ۔”[7]
ہفت روزہ ” اہلحدیث”ریلیف کے کاموں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتا ہے "سیلاب میں گھرے ہوئے لوگوں کو فوج کے نوجوان ہیلی کاپٹروں کے ذریعے راشن پہنچا رہے ہیں اور اسی طرح ملک کی مختلف تنظیمیں اپنے اپنے وسائل میں سیلاب زدگان سے تعاون کر رہی ہیں ، جبکہ افسوس کی بات ہے کہ وفاقی حکومت سردمہری کا شکار ہے اور صدر زرداری نے عوامی مطالبے کے باوجود بھی اس موقع پر بیرونی دورہ منسوخ نہیں کیا” ۔ پاک بھارت آبی تنازعہ کا تذکر ہ کرتے ہوئے جریدہ لکھتا ہے”جب بھارت کو پانی کی ضرورت نہیں ہوتی تو وہ اسے پاکستان کی طرف چھوڑ دیتا ہے اب ہم اسی صورت حا ل سے دوچار ہیں” جریدے نے خیال ظاہر کیا کہ” اگر ہم کالا باغ اور دوسرے چھوٹے بڑے ڈیم بنا لیتے تو سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچ سکتے تھے اللہ کر ے اب تو کالا باغ ڈیم کے مخا لفین ہوش کے ناخن لیں اور ڈیم بنانے پر متفق ہوجائیں ۔” [8]
جواب دیں