مباحث ستمبر ۲۰۱۰ ء

مباحث ستمبر ۲۰۱۰ ء

افغانستان کی صورت حال

افغانستان اس با ر دینی جرائد میں مختلف حوالوں سے زیر بحث رہا  جن میں پاک افغانستان ٹرانزٹ  ٹریڈ معاہدہ ، افغان شہریوں کا قتل ، امریکی کمانڈر کی برطرفی اور ڈچ فوجیوں کا افغانستان سے انخلا شامل ہیں ۔

پاک افغان راہداری معاہدہ: گزشتہ ماہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان ٹرانزٹ ٹریڈ کا معاہدہ طے پا گیا جس کے  تحت افغانستان کو واہگہ بارڈر کے ذریعے بھارت سے تجارت کی اجازت، اور کراچی تک راہداری فراہم کی جائے گی جبکہ افغانستان پاکستان کو وسط ایشیائی ریاستوں تک رسائی فراہم کرے گا۔ ہفت روزہ "اہلحدیث” نے اس  بارے میں اداریہ تحریر کیا ہے جس میں اس معاہدے کو بھارت کے حق میں اور  پاکستان کے نقطہ نظر سے اتنہائی تشویشنا ک قرار دیتے ہوئے اسمبلی سے اس کی تنسیخ کا مطالبہ کیا گیا ۔

جریدہ لکھتا ہے کہ "یہ عجیب بات ہے کہ معاہدہ تو پاکستان اور افغانستان کے مابین ہوا جبکہ تجارت بھارت اور افغانستان کریں گے”…..بھارت سے کبھی خیر کی توقع نہیں اس لئے بھارت کو افغانستان کے لئے راہداری دینا ملک و ملت کے لئے نقصان دہ اور زہر قاتل سے کم نہیں۔” معاہدے کے نقصانات کا ذکر کرتے ہوئے جریدہ رقم طراز ہے کہ واہگہ سے آنے والے مال کی شفافیت کی ضمانت کون دے گا؟”۔ دہشت گردی کے امکان کا ذکر کرتے ہوئے  تشویش ظاہر کی گئی ہے کہ”  اس معاہدے کے ذریعے دہشت گردوں کو اسلحہ اور مالی مدد  بھی مل سکتی ہے۔ پاک افغان تجارت ختم ہو جائے گی اور افغانستان کی قیمتی معدنیات بھارت کے راستے امریکہ پہنچنا شروع ہو جائیں گی ا س لیے  ان حالات میں وطن عزیز کی بہتری اسی میں ہے کہ اس معاہدے کو پارلیمنٹ کے ذریعے منسوخ کر دیا جائے۔”[42]

افغان شہریوں کا قتل: رواں سال افغانستان میں شہریوں کی ہلاکت میں کافی تیزی آئی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق پہلے کے مقابلے میں 6 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ہفت روزہ ’’نوائے اسلام‘‘  کے مطابق ان ہلاکتوں کا باعث اتحادی کاروائیاں اور طالبان کی جانب سے نصب کئے گئے بموں کا پھٹنا ہے۔ جریدہ لکھتا ہے "کہ انسانی حقوق کے ادارے اعداد و شمار تو دیتے ہیں لیکن یہ نہیں بتاتے کہ ان ہلاکتوں کو کم کیسے کیا جا سکتا ہے۔”[43] دار الحکومت کابل میں امریکی سفارتخانے کی گاڑی کے  چار شہریوں کو کچلنے کے واقعہ کے رد عمل میں شہریوں نے مشتعل ہو کر سفارتخانے کا گھیرا کر لیا اور دو گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا۔اس پر جریدے کے رائے یہ  ہے کہ ” افغانستان میں امن اس وقت تک ناممکن ہے جب تک اتحادی افواج کا انخلاء نہیں ہو جاتا۔ لہذا ضروری ہے کہ امریکی تسلط ختم ہو اور ملکی معاملات مقامی افراد کے حوالے کئے جائیں۔ وہ اپنے معاملات سے خود زیادہ بہتر انداز سے نمٹ سکتے ہیں۔”[44]

ہفت روزہ ’’ضرب مؤمن‘‘ اس حوالے سے لکھتا ہے” ان ہلاکتوں کی ایک وجہ امریکی فوج کی بدحواسی بھی ہے۔ جس کے باعث آئے روز ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ اسی طرح کا ایک واقعہ مشرقی افغانستان کے ایک گاؤں ریگی پر امریکی طیاروں کی وحشیانہ بمباری ہے۔ جس کے نتیجے میں ۶۰افراد ہلاک اور ۱۰۰ سے زائد زخمی ہو گئے ہیں۔”[45]

امریکی کمانڈر  کی برطرفی: ۲۳  جون ۲۰۱۰ء کو امریکی صدر باراک اوباما نے افغانستان میں امریکی فوج کے کمانڈر جنرل اسٹینلے میک کرسٹل کو برطرف کر کے جنرل ڈیوڈ پیٹریاس کو نیا کمانڈر مقرر کر دیا۔ اس برطرفی کی وجہ میک کرسٹل کا وہ انٹرویو بنا جو انہوں نے "دی رولنگ اسٹون”  میگزین کو دیا تھا۔ جس میں انہوں نے امریکی قومی سلامتی کے مشیر، امریکی نائب صدر اور کابل میں امریکی سفیر کے بارے میں تنقیدی  الفاظ استعمال کئے تھے۔ ذرائع ابلاغ میں اس کا کافی چرچا رہا لیکن دینی جرائد میں سے صرف”ضرب مؤمن” نے اسے اپنے اداریئے کا حصہ بنایا ہے۔

"ضرب مؤمن” لکھتا ہے کہ "بارک اوباما کی طرف سے براہ راست جنرل میک کرسٹل کی برطرفی کا حکم امریکی حکومت، فوج اور بیورو کریسی کے اندر پائے جانے والے خلفشاراور افغان پالیسی پر اختلاف کا غماز ہے نیز یہ امر امریکہ کی ناکامی کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ "[46] جریدہ امریکہ کو مشورہ دیتے ہوئے لکھتا ہے ” جن بحرانوں سے امریکا گزر رہا ہے اگر یہ جنگ مزید جاری رکھی تو سابقہ سپر پاور کی طرح وہ بھی پتھریلی سر زمین میں دفن ہو جائے گا۔ اب عزت کا راستہ صرف یہی ہے کہ امریکی فوج کا فی الفور انخلاکر دیا جائے۔”[47]

ڈچ فوج کا انخلا: ڈچ فوج نے دسمبر۲۰۱۰ء کو اپنی ذمہ داریاں نیٹو اور  امریکہ کے سپرد کر کے واپس جانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ یاد رہے ہالینڈ کا شمار افغان مشن کے لئے فوج فراہم کرنے والے دس سرفہرست ممالک میں ہوتا ہے۔ اس یورپی ملک کے لگ بھگ دو ہزار اہلکار افغان صوبے ارزگان میں تعنیات ہیں۔ سال ۲۰۰۱ء  سے جاری افغان مشن میں ہالینڈ نے پانچ سال بعد یعنی ۲۰۰۶ء میں شمولیت اختیار کی اور تب سے اب تک اس کے اکیس فوجی ہلاک ہوچکے ہیں۔ڈچ فوج کے انخلاء کی اس اہم خبر کو دینی صحافت میں نسبتاً کم پذیر ائی  ملی۔

ہفت روزہ "ضرب مؤمن” اپنے اداریے میں لکھتا ہے ” فوج کی واپسی کے فیصلے سے ہالینڈ نے اپنی شکست کا اعلان کر دیا ہے۔ ہا لینڈ کی فون کا صرف ۲۱ ہلاکتوں کے بعد ہار تسلیم کر لینا جو کچھ واضح کر رہا ہے اسے بیان کرنا مشکل نہیں۔ اور یہ صرف ہالینڈ ہی نہیں نیٹو کی طرف سے انخلا کی پہلی کڑی ہے۔ یہ بارش کا پہلا قطرہ جو افغان عوام پر برسا ہے اور موجودہ صورتحال سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ بارش اور تیزتر ہو جائے گی۔”[48]

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے