مباحث ستمبر ۲۰۱۰ ء
ایم ایم اے کی بحالی – جماعت اسلامی اور جمعیت اہلحدیث
سابقہ متحدہ مجلس عمل کے رہنماؤں کے دو غیر رسمی اجلاسوں کی خبر یں اخبارات میں آ چکی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی دینی جماعتوں کے اس اتحاد کی پہلے کی حالت میں بحالی یا اس کی کچھ پارٹیو ں پر شرائظ عائد کرنے کی بحثیں بھی اخبارات کے قارئین کے لیے اب نئی نہیں ہیں ۔خود دینی حلقوں کے بیانات سے ایک دوسرے پر عدم اعتماد کا تاثر محسوس ہوتا ہے ،اتحاد میں شامل جماعتوں کے ذمہ داران کی طرف سے ایک دوسرے پر اپنے تحفظات کا اظہا ر بھی اخبارات کی زینت بنتا رہتا ہے۔ پروفیسرنعیم مسعودکے ۲۷ جون ۲۰۱۰ ء کو روزنامہ انصاف لاہور میں ” ایم ایم اے اور پروفیسر ساجد میر” کے عنوان سے شائع ہونے والے ایک مضمون میں اسی طرح کا ایک اظہار ملتا ہے ۔ انہوں نے اپنے کالم میں جماعت اسلامی کو ا تحاد کو دوبارہ فعال کر نے سے پہلے اتحاد میں شامل دیگر جماعتوں اور بالخصو ص جمعیت اہلحدیث اور اس کے قائد علامہ ساجد میرکے سیاسی تعلقات اور وابستگیوں[35] کا جائزہ لینے کا مشورہ دیا۔ ہفت روزہ”اہلحدیث "نےاس ضمن میں ایک تنقیدی مضمون شائع کیا جس میں اس اخباری مضمون کے مندرجات کو حقائق کے خلاف قرار دیا گیا ۔
"اہل حدیث” کے مضمون نگا راخباری مضمون کا جو اب دیتے ہوئے لکھتے ہیں "جماعت اسلامی کی محبت میں آپ ہتھے سے اکھڑ گئے ہیں اور آپ نے علامہ ساجد میر کی بابت ایسی باتیں لکھی ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ۔آپ نے کہا کہ میرے سروے کے مطابق ۹۵ فیصد اہلحدیث ووٹر مسلم لیگی ہیں، ہا ں اس لیے کہ پیپلز پارٹی کا منشور ہمیں وارہ نہیں کھاتا، آپ نے اپنے کالم میں جماعت اسلامی کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ایم ایم کو بحال کرنے سے پہلے مولانا فضل الر حمٰن کی "سیاہ ست "، علامہ ساجد نقوی کی مضبوطی اور پروفیسر ساجد میر کی سیاسی حیثیت کا اچھی طرح جائزہ لے، تو عر ض یہ ہے کہ جو مولانا فضل الر حمٰن کی سیاست ہے وہی جماعت اسلامی کی ہے ،ساجدنقوی اتنے ہی مضبوط ہیں جتنی جماعت اسلامی ،فرق یہ کہ ان کے پا س وہ میڈیا فائٹر نہیں ہے جو جماعت اسلامی کےپا س ہیں ، رہا ساجد میر کی سیاسی حیثیت کا اندازہ تو آپ کے پاس اس بات کا کوئی جو اب نہیں کہ جماعت اسلامی کب اپنی ذاتی حیثیت میں الیکشن لڑکر مناسب تعدادمیں اسمبلی میں پہنچی ہے ؟،رہا افرادی قوت کا معاملہ تو آپ کو یہ حقیقت بھی ماننا پڑے گی کہ جماعت اسلامی کسی بھی جگہ عددی اعتبار سے اہلحدیث سے زیادہ نہیں ہے ۔”[36]
جواب دیں