مباحث، مئی ۲۰۱۱ء
پاکستان کی عمومی سیاسی صورتحال
پاکستانی سیاست نے گزشتہ دو ماہ کے دوران بہت سے اتار چڑھاؤ دیکھے ۔ کراچی میں پی پی پی اور متحدہ کی کشیدگی، سندھ کے وزیر اعلی ذوالفقار مرزا کی رخصت، مسلم لیگ نون کی مرکزی حکومت کو اصلاح احوال کے لیے دس نکاتی ایجنڈے کی پیشکش اور ڈیڈ لائن اور اس طرح کے دیگر واقعات نے بازار سیاست کو گرم رکھا۔ دینی جرائد کی اس حوالے سے آراء کا خلاصہ مندرجہ ذیل ہے۔
کراچی کی صورتحال اور جمہوریت سے بیزاری: غیر مسلکی جریدہ "ندائے خلافت” میں ایک مضمون "مفاہمت کی سیاست” کے عنوان سے شائع ہوا ہے۔ مضمون نگار نے کراچی کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ صوبے کے امن امان کے معاملات کی ذمہ داری صوبائی وزیر داخلہ کی ہوتی ہے لیکن ہر بار وفاقی وزیر داخلہ کیوں مداخلت کر رہے ہیں۔ ہر بار کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد حکومت اپنے اتحادیوں کے ساتھ بیٹھتی ہے اور مذاکرات کامیاب ہو جاتے ہیں۔ چند ہی دن بعد دوبارہ پہلے جیسے حالات رونما ہو جاتے ہیں۔ یہ مفاہمت ہے یا منافقت؟ ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے اصل جرائم پیشہ افراد کو پکڑنے کے بجائے موٹر سائیکل پر ڈبل سواری پر پابندی لگا دیتے ہیں۔ اور اصل مجرموں کے بجائے ڈبل سواری کے فیصلے کی خلاف ورزی کرنے والوں کو پکڑ پکڑ کر چالان کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ مضمون نگار لکھتا ہے کہ حکمرانوں کے ساتھ ساتھ عوام بھی برابر کے شریک ہیں کہ اس ظلم میں پسنے کے باوجود جمہوریت کی نیلم پری کے عاشق بنے ہوئے ہیں۔ جب تک جمہوریت کے ظالمانہ اور استحصالانہ نظام کے خلاف اٹھ کھڑے نہیں ہوتے تب تک منافقت کی سیاست کا گلا بے معنی ہے[19]۔
مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کی دوریاں: پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون میثاق جمہوریت کے تحت سیاسی اتحاد بنا کر فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات کے بعد مشترکہ طور پر اقتدار میں آئی تھیں ، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دونوں جماعتوں میں اختلافات رونما ہوتے گئے جن کے نتیجے میں پہلے مرکز اور پھر صوبائی حکومت میں بھی علاحدگی ہو گئی۔ ۔ "ندائے خلافت” نے گزشتہ تین سالوں میں ان دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے تعلق اور اس میں آتے اتار چڑھاؤ کا ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے کہ ” زرداری صاحب جمہوریت کو لاحق خطرات دکھا دکھا کر نواز شریف کو بلیک میل کرتے رہے اور سرکاری خزانہ لوٹتے رہے۔ جس کی وجہ سے جہاں ایک طرف آصف زرداری اور پیپلز پارٹی سے نفرت میں اضافہ ہوا ہے وہیں نواز شریف کی فرینڈلی اپوزیشن نے بھی عوام کو خاصا برہم کیا ہے۔ اور اب اس عوامی رویے کی تبدیلی کے دباؤ میں نواز شریف حکومت کو بوجھل دل سے چیلنج کرنے جا رہے ہیں۔ جریدہ لکھتا ہے کہ سیاسی مفاہمت کا ڈراپ سین ہونے کو ہے اور جان بلب میثاق جمہوریت بھی آخری ہچکی لے کر اپنی موت آپ مر جائے گا۔ اب یہ آنے والا وقت بتائے گا کہ نواز شریف کی حقیقی اپوزیشن کیا رنگ دکھاتی ہے۔ نئے انتخابات یا پھر حالات کی مزید ابتری۔ "نوائے اسلام” لکھتا ہے کہ سب کچھ ویسا ہی ہے جیسا مشرف دور میں تھا۔ نواز شریف تین سال تک سب کچھ برداشت کرتے رہے اور اب اچانک انہیں عوامی مسائل یاد آ گئے۔ جریدے کا خیال ہے کہ یہ بات طے ہے کہ پیپلز پارٹی ہو یا نواز لیگ عوامی مسائل کا حل کسی کے پاس ہے اور نہ ہی عوام کی فکر، بس فکر ہے تو اپنے بینک بیلنس کی۔نواز شریف وزیر اعظم بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں اور زرداری دوسری بار صدر بننے کے خواب ۔اس پورے منظر نامے میں عوام کہیں بھی نہیں ہیں [20]۔
سانحہ ایمپریس مارکیٹ : ۲۶ مارچ ۲۰۱۱ء کو کراچی کی ایمپریس مارکیٹ میں آتش زدگی کا واقعہ پیش آیا جس میں تقریباً ۸۰ دکانیں جل گئیں۔ آگ کی وجہ سے مارکیٹ کا ایک حصہ مکمل طور پر تباہ ہو گیا۔ اگرچہ ابتدائی طور پر اس کی وجہ شارٹ سرکٹ بتائی گئی ۔لیکن تاجر برادری نے اسے مسترد کرتے ہوئے یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ سانحہ یوم عاشورہ کی طرح کوئی خوفناک کیمیکل ڈال کر آگ لگائی گئی ہے۔
اس حوالے سےدیوبندی "ضرب مومن” نے اداریہ تحریر کیا ہے۔ جریدہ لکھتا ہے کہ موجودہ اقتصادی حالات میں یہ واقعہ نہ صرف ایک ناقابل برداشت دھچکا ہے بلکہ خوف و بے اطمینانی پھیلا کر مزید اقتصادی بحران پیدا کرنے کی سازش بھی معلوم ہوتی ہے۔ بھتہ خوری ، لینڈ مافیہ اور دیگر جرائم کے بڑھتے ہوئے رجحان میں اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ یہ تاجر حضرات بھتہ خوروں کی خواہش پوری نہ کر سکے ہوں جس کا خمیازہ اس شکل میں بھگتنا پڑا ہو۔ لہٰذا تفتیش کے دوران ان تمام پہلوؤں کا خیال رکھنا بھی نہایت ضروری ہے۔ اور اگر واقعی اس کی وجہ شارٹ سرکٹ ہے تو بھی ذمہ دار افراد کی تفتیش اور بازپرس ضروری ہے کہ اتنی مصروف مارکیٹ کے انتظامات اس قدر ناقص کیوں ہیں۔ جریدہ اس جانب بھی توجہ دلاتا ہے کہ ریمنڈ کیس کے دوران ملک میں جاری دہشت گردی کے واقعات کے پیچھے جن غیر ملکی قوتوں کے ملوث ہونے کا انکشاف ہوا ہے ان کو بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ پاکستان کے تفتیش کے انداز پر تنقید کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ہم ہر واقعے کا ذمہ دار فوری طور پر طالبان کر ٹھہرا کر خاموش ہو جاتے ہیں اور اصل کرداروں تک پہنچنے کی کوشش نہیں کرتے جو کہ انتہائی غیر معقول ہے۔ یہ رویہ آزاد اور ہوشمند قوموں کا نہیں ۔ ہمیں ایمپریس مارکیٹ کے واقعے میں بھی آنکھیں کھول کر جائزہ لینا ہو گا کہ یہ حادثہ ہے یا سازش؟ بھتہ خوروں کا عنصر ہے یا تیسری طاقت کی کارفرمائی ۔ نامعلوم دہشت گردوں پر ملبہ ڈالنے کی ریت پرانی ہے اس سےچھٹکارا حاصل کر کے حقیقی تفتیش کی جائے[21]۔
مہنگائی اور سود : اخباری اطلاعات کے مطابق اس دور حکومت میں مہنگائی کے گزشتہ تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں۔ پاکستان میں مہنگائی کی شرح ۱۵ فیصد تک پہنچ گئی ہے جس کی بہت سی وجوہات ہیں ۔ "اہلحدیث” نے ان حالات کی وجہ سود کو قرار دیا ہے۔ جریدہ لکھتا ہے کہ سود کھانا اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کے مترادف ہے جس کی سزا کے طور پر برکت ختم ہو جاتی ہے ، انسان دشمنی اور سفاکی ، قطع رحمی اور طوائف الملوکی جیسے عذابوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ انسانی اقدار کی بنیادیں ہل جاتی ہیں اور خود غرضی کا دور دورہ ہو جاتا ہے۔ اسی خود غرضی اور لالچ کے باعث مہنگائی ہوتی ہے اور معاشرہ اخلاقی اور اقتصادی اعتبار سے زبوں حالی کا شکار ہو جاتا ہے۔ "نوائے اسلام” شذرے میں تحریر کرتا ہے کہ حکومت آئے روز قیمتیں بڑھا رہی ہے لیکن کوئی آواز بلند کرنے والا نہیں۔ سیاسی جماعتیں اپنے مفاد میں اسیر ہیں اور عوام کا مہنگائی نے ایسا حال کر دیا ہے کہ وہ احتجاج کے قابل ہی نہیں۔ لیکن ایسا زیادہ عرصہ نہیں چل سکے گا اور عوام پر مزید بوجھ ڈالا گیا تو عوام کی صورتحال قابو سے باہر بھی ہو سکتی ہے۔ "ضرب مومن” لکھتا ہے کہ مہنگائی کے حوالے سے حکومت کے اقدامات علیحدگی پسند اور انقلابی تحریکوں کے لیے خام مال ثابت ہو سکتے ہیں۔ انقلاب جیسے حالات سے بچنا ہے تو ہنگامی بنیادوں پر مہنگائی پر قابو پانا ہو گا۔ جریدہ مہنگائی پر قابو پانے کے حوالے سے مشورہ دیتا ہے کہ وزارتیں متوسط طبقے کو دی جائیں جو غربت سے واقف ہوں، شاہانہ اخراجات کو کم کیا جائے، اور ملکی وسائل میں عوام کو بھی شریک کیا جائے۔ اس سے عوام کا اعتماد بھی بڑھے گا اور غیر مفید انقلابی رویوں میں بھی اعتدال آئے گا۔ [22]
جواب دیں