مباحث، مئی ۲۰۱۱ء

مباحث، مئی ۲۰۱۱ء

ریمنڈ ڈیوس کیس

ریمنڈ ڈیوس نامی امریکی شہری  27 جنوری 2011ء کو لاہور کے علاقے مزنگ میں دو  موٹر سائیکل سوار پاکستانی نوجوانوں کو قتل  کرنے کے جرم میں گرفتار ہوا تھا۔ امریکہ کی جانب سے اعلی ترین سطح پر یہ موقف اختیار کیا گیا کہ وہ سفارت کار ہے اور اسی بنیاد پر  سفارتی استثناء کے ضمن میں رہائی کی کوشش کی گئی ۔امریکی دباؤ کے باوجود پاکستانی حکومت نے مقدمہ عدالت کے فیصلے پر چھوڑ دیا۔ بالآخر اسلامی قانون دیت کے تحت  16 مارچ 2011ء کو خون بہا کی مد میں ۲۰ کروڑ پاکستانی روپے  وصول کر کے  مقتولین کے ورثا ء کی طرف سے اُسے معاف کرنے کے بعد ریمنڈ ڈیوس کو  رہا کر دیا گیا۔ اس تمام کارروائی میں پر اسراریت کا پہلو نمایاں رہا ۔ تمام مراحل شفاف طریقے سے طے نہیں کیے گئے اور ذرائع ابلاغ سے بہت کچھ چھپایا گیا۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ اور دیگر سماجی حلقوں کی جانب سے جہاں اس رہائی کی مذمت کی گئی وہیں یہ بات بھی موضوع بحث رہی کہ خون بہا کے بدلے معافی کا فیصلہ لواحقین کی رضامندی سے ہوا ہے یا کسی دباؤ کے نتیجے میں۔

گزشتہ دو ماہی میں صرف ’’ضرب مومن‘‘ نے اپنے اداریے میں اس موضوع کو  جگہ دی تھی، تا ہم اس بار بیشتر جرائد نے ریمنڈ کیس پر اظہار خیال کیا ہے اور ان میں بالعموم اتفاق رائے معلوم ہوتا ہے۔ تاہم سعودی کردار کے حوالے سے شیعہ مکتب فکر کے جریدے نے منفی اشارہ بھی کیا ہے۔ جرائد نے امریکہ کی دوغلی پالیسی، حکمرانوں اور سیاسی جماعتوں کی نا اہلی اور امریکہ نوازی کی شدید مذمت  کی ہے۔ سفارتی استثناء، دیت کے بدلے رہائی ، پاک امریکہ دوستی اور صوبائی و مرکزی حکومت اور دیگر حکومتی اداروں کی کارکردگی کے حوالے سے  مندرجہ ذیل خیالات کا اظہار کیا  گیا ہے ۔

سفارتی استثناء: گرفتاری کے فورا ً بعد ہی امریکہ کی جانب سے ویانا کنونشن کے مطابق سفارتی استثناء کے تحت ریمنڈ کی رہائی کا  مطالبہ کیا گیا  تھا۔  جس پر پاکستانی وزارت خارجہ نے اسے سفارتی اہلکار تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے استثناء دینے سے انکار کر دیا۔ حکومت نے عوامی دباؤ کے پیش نظر معاملہ عدلیہ کے سپرد کر دیا جہاں سے استثناء کے بجائے خون بہا کی ادائیگی پر رہائی عمل میں آئی۔

’’افکار  العارف‘‘ اداریے میں سفارتی اہلکار ہونے کے دعوے کے ابطال کی چار وجوہات ذکر کرتا ہے۔ ایک یہ کہ ۲۵ جنوری ۲۰۱۱ء کو امریکی سفارتخانے کی جاری کردہ فہرست میں اس کا نام بحیثیت سفارتی عملہ شامل نہیں تھا۔ دوم، ریمنڈ کے زیر استعمال گاڑی ، اسلحہ اور پاکستانی اداروں کو اطلاع دیے  بغیر سفر کرنا پاکستانی اور سفارتی قانون کے خلاف تھا۔ سوم، اگر بالفرض اس نے گولی دفاع میں ہی چلائی تھی تو اسے اصولی طور پر خود کو قانون کے حوالے کر دینا چاہیے تھا، لیکن اس کے فرار نے اس کی کذب بیانی کا راز کھول دیا۔ چہارم، اس سے برآمد ہونے والی اشیاء بلینک چیک، ہتھیار، لائف کٹس  اور دیگر حساس آلات نے اس کے سفارتکاری کے دعوے کو مزید مشکوک بنا دیا[6]۔

"محدث” نے  اداریے میں روز نامہ جنگ کے کالم نگاروں  انصار عباسی اور ہارون الرشید کے کالم  شائع کیے ہیں ۔ انصار عباسی نے سفارتی استثناء کے مطالبے کو حقائق کی بنیاد پر رد کرتے ہوئے یہ سوال اٹھایا ہے کہ "امریکا سے کوئی پوچھنے والا نہیں کہ جب ۲۰۰۱ء میں اسی ویانا کنونشن کی دھجیاں اڑا کراس وقت کے افغان سفیر  ملا ضعیف کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا اور امریکہ کے حوالے کیا  گیا  تب سفارتی استثنا ء کہاں تھا۔ ملا ضیعف کی زبانی سنائی گئی کہانی کے بعد کم از کم امریکیوں اور ان کے مشرف جیسے حواریوں کو ’ویانا کنونشن‘ کا نام لیتے ہوئے شرم آنی چاہیے”[7]۔

’’دعوت تنظیم الاسلام‘‘ اپنے اداریے میں لکھتا ہے کہ ’اگر ویانا کنونشن کا اطلاق ان پر کیا بھی جائے تو لاہور میں بغیر اطلاع آنا، جعلی نمبر پلیٹ کی گاڑی، ۱۰۰ گولیاں، ۵ موبائل ، حساس نقشوں اور دیگر جدید آلات کا پایا جانا ناقابل دفاع جرم ہے ۔ اگر وہ سفارتی اہلکار ہوتا تو اسے اسلام آباد میں ہونا چاہیے تھا۔‘[8]

"نوائے افغان جہاد” نے ریمنڈ کیس کے حوالے سے ایک تفصیلی مضمون شائع کیا ہے جس میں پورے واقعے کی تفصیلات ذکر کرتے ہوئے امریکہ کے دوغلے کردار کی شدید مذمت کی ہے، نیز حکومت پاکستان اور بطور خاص آئی ایس آئی کے رویے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ سفارتی استثناء کے معاملے پر تنقید کرتے ہوئے مضمون نگار لکھتا ہے کہ "کیا قیدیوں اور سفارتی اہلکاروں کے معاملات میں  صرف امریکیوں کو ہی باعزت بری ہونے کا امتیاز حاصل ہے؟ امارت اسلامیہ افغانستان کے سفیر ملا عبد السلام ضعیف کو جب  مارا پیٹا گیا، برہنہ کیا گیا اور گوانتا نامو بے میں رکھا گیا اس وقت سفارتی استثناء کہاں تھا؟ ۔ یہ قوانین صرف درندو ں کو تہذیب یافتہ قرار دینے کے لیے ہیں۔ ان میں صرف چند طاقتوں کے مفادات کا تحفظ ہے، اور یہ قوانین شخصیت، وقت اور مقام کے ساتھ تبدیل ہو جاتے ہیں اس لیے مجاہدین اسلام اس طرح کے قوانین کو نہ مانتے ہیں اور نہ اس کی پاسداری کرتے ہیں”۔ [9]

دیت کے بدلے رہائی :  سفارتی استثناء پر رہائی میں ناکامی کے بعد خون بہا دے کر ورثاء کی جانب سے معافی کے ذریعے رہائی کی کوشش کی گئی جو کہ کامیاب ہوئی ۔ یہ معاملہ بھی ذرائع ابلاغ میں زیر بحث رہا کہ یہ ادائیگی رضامندی سے ہوئی یا  ورثاء نے کسی دباؤ کے نتیجے میں قبول کی، نیز رہائی کے بعد ورثاء کی اپنے گھروں پر غیر موجودگی نے دباؤ والی رائے کو مزید تقویت دی۔

’’الاعتصام‘‘ اداریے میں تحریر کرتا ہے کہ "دیت تو متاثرہ فرد لے سکتا ہے اور وہ صاحب اختیار تب ہوتا ہے جب جرم انفرادی ہو۔ یہ جرم چونکہ قومی تھا لہٰذا یہ مجرم بھی قوم کا تھا اس لیے دیت پر رہائی ایک استفہام ہے۔ نیز مقتولین کے ورثاء کا گھروں سے غائب ہونا ایک دوسرا استفہام ہے۔ کیوں کہ اگر یہ سب کچھ برضا و رغبت ہوا تو پھر ان کا چھپنا اور غائب ہونا چہ معنی دارد”[10]۔

’’اہلحدیث‘‘ رقم طراز ہے کہ ” مذہبی رہنماؤں نے امریکی اہلکار کی دیت کی بنیاد پر رہائی کو غیر قانونی اور غیر شرعی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ دیت کا اطلاق صرف مسلمان پر ہو سکتا ہے، غیر مسلم سے دیت لینا درست نہیں۔ اسلام کے نزدیک تو قصاص میں زندگی ہے[11]۔

پاک امریکہ دوستی: اگرچہ سرکاری طور پر پاکستان اور امریکہ صف اول کے اتحادی اور دوست ہیں۔ لیکن ریمنڈ کیس میں امریکہ کی جانب سے جس رویے کا مظاہرہ کیا گیا اس کی دینی جرائد میں   نہ صرف مذمت کی گئی بلکہ پاکستانی حکمرانوں کو متنبہ کیا گیا  کہ اب وقت آ گیا ہے کہ حقائق کو تسلیم کر کے حکمت عملی طے کی جائے۔ اہل تشیع اور دیوبندی جریدے نے پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی اور دیگر ابتر صورتحال میں بھی امریکہ کی شمولیت کا اظہار کیا ہے۔

’’افکار العارف‘‘ لکھتا ہے کہ "مقتدر حلقوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ  امریکہ کبھی بھی ہمارا دوست نہیں ہو سکتا  کیوں کہ دنیا بھر اور پاکستان میں ہونے والے تمام فسادات کے پیچھے اسی کا ہاتھ ہوتا ہے۔ اور پاکستان کو اس حال تک پہنچانے میں بھی بڑا عنصر امریکہ ہی ہے۔ ہم مقتدر حلقوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ جلد از جلد امریکی غلامی کا طوق گلے سے اتار پھینکیں "[12]۔ 

"محدث” میں  ہارون الرشید رقم طراز ہے کہ آخر ایسا کیا ہے کہ ایک شخص کی گرفتاری پر پورا امریکہ بشمول صدر اور وزیر خارجہ کے آگ بگولا ہو گیا۔ یقینا کوئی راز ہے بہت گہرا اور تاریک راز جس کے افشا ہونے کا ڈر ہے۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ راز راز نہیں رہتے۔ بات کھلے گی اور نتائج پیدا کرے گی جس کے نتیجے میں پاک امریکہ  تعلقات کی نوعیت تبدیل ہو گی[13]۔

’’الخیر‘‘ لکھتا ہے کہ پاکستان میں مدارس، مساجد ، عبادت گاہوں اور مزارات پر ہونے والے دھماکوں اور خود کش حملوں  کے پیچھے ریمنڈ اینڈ کمپنی جیسی ایجنسیاں ہیں۔ را  ، موساد اور سی آئی اے جیسی غیر ملکی ایجنسیوں پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ نیز شہر لاہور میں رونما ہونے والا واقعہ  اور اس تفتیش کے بعد ہوش ربا معلومات کا ملنا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ امریکہ پاکستان کا خیرخواہ اور دوست نہیں”[14]۔

’’اہلحدیث‘‘ نے اداریے میں لکھا ہے کہ پاکستان کے ساتھ امریکہ کے حالیہ تعلقات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ پاکستان کا دوست اور بہی خواہ نہیں ۔ امریکہ ، بھارت اور اسرائیل پاکستان دشمنی میں ایک ہیں ۔ قوم ایک ڈیوس پر سراپا احتجاج ہے ، یہاں سینکڑوں ڈیوس موجود ہیں۔ پیش تر اس کے کہ اس طرح کے [مزید] سانحات رونما ہوں ان تمام عناصر کا سد باب کیا جائے۔ ورنہ پاکستان  میں امن و امان کا قیام ممکن نہیں ہو گا۔”[15]

ریمنڈ ڈیوس کیس پر پاکستان کا طرز عمل: ریمنڈ ڈیوس کی گرفتاری سے لے کر رہائی تک پاکستانی حکومت مسلسل امریکی اور  عوامی دباؤ کا شکار رہی ۔ اسی دباؤ کے پیش نظر اس سارے معاملے کو مرکزی و صوبائی حکومت نے عدلیہ کے فیصلے پر چھوڑ دیا۔  تاہم  سفارتی استثناء کے تحت رہائی کا امکان ختم ہونے کے بعد  عدلیہ کی کارروائی کے ساتھ ساتھ ورثاء کو دیت کے لیے رضامند کرنے کی کوششیں بھی جاری رہیں اور بالآخر رہائی ممکن ہو سکی۔  ریمنڈ کی رہائی کو پاکستانی عوام نے قبول نہیں کیا اور کئی روز تک احتجاج ہوتے رہے۔ دینی جرائد اس معاملے میں صرف مرکزی حکومت کو ہی مورد الزام نہیں ٹھہراتے بلکہ ان کے نزدیک صوبائی حکومت اور دیگر حکومتی ادارے بھی برابر کے شریک ہیں۔

’’الاعتصام‘‘ لکھتا ہے کہ اب ساری سیاسی جماعتیں اور ان کے قائدین لکیریں پیٹ  کر اپنی بے گناہی ثابت کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں،  حالانکہ شواہد یہ بتا رہے ہیں کہ اس ’’کار شر‘‘ میں ہر کسی نے حصہ بقدر جثہ ضرور ڈالا ہے۔ اس سے کوئی حکومتی ادارہ، حزب اختلاف  یا اسٹبلشمنٹ  خود کو بری الذمہ نہیں ثابت کر سکتا۔ ’’حق چار یار‘‘ تمام حقائق کا  ذکر نے کے بعد عوام سے اپیل کرتا ہے کہ "عوام بیدار ہوں اور ایٹمی صلاحیت رکھنے والے ملک کو امریکہ کی لونڈی بنانے والے حکمرانوں کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں،  پی پی پی ہو یا مسلم لیگ ن ، ق یا ان کی اتحادی جماعتیں،  سب کا محاسبہ کریں، کیوں کہ اس جرم میں تمام جماعتیں برابر کی شریک ہیں”۔  ’’ندائے خلافت‘‘ نے  اداریے میں بھی اس موضوع کو جگہ دی ہے ساتھ ہی ایک پریس ریلیز بھی شائع کی ہے جس میں یہ کہا ہے کہ ’’ریمنڈ ڈیوس کی پر اسرار رہائی نے حکومت ہی نہیں بلکہ پاکستان کے تمام اداروں کو بے نقاب کر دیا ہے‘‘۔ "نوائے اسلام” شذرہ میں تحریر کرتا ہے کہ فہیم اور فیضان کے قتل کے بعد  فہیم کی بیوہ شمائلہ کی موت کی ذمہ دار حکومت اور انتظامیہ ہے جو انصاف فراہم کرنے کے بجائے معاوضہ وصول کرنے پر زور ڈالتی رہی ۔اس حوالے سے جریدہ  مذہبی  جماعتوں کے  کردار پر تنقید کرتے ہوئے رقم طراز ہے کہ "ممتاز قادری کو بچانے کے لیے تو وکلاء کا پینل بنا دیتی ہیں لیکن ایک امریکی قاتل کو سزا دلوانے کے لیے کوئی آگے نہیں آتا”۔  [16]

"نوائے افغان جہاد” نے حکومتی اداروں کو بھی برابر کا مجرم ٹھہرایا ہے نیز اس  خبر پر کہ ، ریمنڈ کے رابطے وزیرستان میں طالبان کے ساتھ بھی تھے، آئی ایس آئی پر شدید تنقید کی ہے اور اس خبر کو مضحکہ خیز قرار دیا ہے۔ صاحب مضمون  لکھتا ہے کہ مجاہدین کا امریکہ کے ساتھ رابطے کا واحد ذریعہ میدان جہاد ہے جہاں وہ اس کو اس کے انجام بد سے دو چار کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔[17] 

ریمنڈ کیس میں سعودی حکومت کا کردار : ریمنڈ ڈیوس کیس میں سعودی حکومت کے کردار کی خبریں اگرچہ میڈیا میں گردش کرتی رہیں لیکن دینی جرائد میں اس حوالے سے کسی رائے کا اظہار نہیں کیا گیا۔ صرف شیعہ مکتبہ فکر کےایک جریدے    ماہنامہ ’’افکار العارف‘‘ نے اداریے میں اس حوالے سے اپنی رائے دی ہے کہ ’’پاکستان نے یہ سب کچھ امریکہ اور آل سعود کی خوشنودی اور ان سےاپنے مقاصد کے حصول کے لیے کیا ہے‘‘[18]۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے