مباحث، مئی ۲۰۱۱ء
شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں عوامی انقلاب
تیونس سے شروع ہونے والا عوامی انقلاب مصر ، لیبیا، یمن، بحرین سے ہوتے ہوئے شمالی افریقہ اور مشرق وسطی کے کئی ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ تیونس اور مصر میں تو حکومت نے مسلسل عوامی دباؤ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے عدم تعاون کے باعث اقتدر چھوڑ دیا لیکن باقی ممالک میں حکمران ملکی افواج کی مدد سے احتجاج روکنے اور بغاوتیں فرو کروانے میں مصروف ہیں۔ جبکہ کچھ ممالک نے عوامی رجحانات دیکھ کر بڑے اقتصادی پیکجز کا اعلان کیا ہے جن میں سعودی عرب سر فہرست ہے۔ دینی جرائد نے اس اہم عالمی تغیر کو اپنے ہاں زیادہ جگہ نہیں دی۔ شیعہ مکتب فکر اور دیوبندی مکتب فکر کے کچھ جرائد نے اظہار خیال کیا ہے ۔
مصر : تیونس کے بعد مصر میں عوامی احتجاج شروع ہوا جس میں لاکھوں لوگوں نے تحریر اسکوئر پر دھرنا دیا اور حسنی مبارک کی رخصتی سے کم کسی بات پر احتجاج ختم کرنے سے انکار کر دیا۔ نتیجتا حسنی مبارک کو اقتدار سے علیحدہ ہونا پڑا اور نائب صدر عمر سلیمان نے اقتدار سنبھال لیا جس کے بعد احتجاج اختتام پذیر ہوا۔ تیونس کے بعد یہ دوسرا کامیاب احتجاج تھا جس کے نتیجے میں حکمران کو اقتدار سے علاحدہ کرنے میں عوام کامیاب ہوئے۔ بین الاقوامی نوعیت کے اس اہم مسئلے کو دستیاب دینی جرائد میں سے سوائے شیعہ مکتبہ فکر کے ہفت روزہ "نوائے اسلام” کے کسی نے اپنے ہاں جگہ نہیں دی۔
مذکورہ جریدہ نے مصر میں اعلیٰ سطحی تبدیلیوں کو امریکی مفادات کے تحفظ اور اسلام پسندوں کو دبانے کی پالیسی کے حوالہ سے دیکھا ہے۔
جریدہ لکھتا ہے کہ حسنی مبارک رخصتی میں تاخیر کی وجہ امریکہ اور اسرائیل کی مصری انٹیلی جنس کے ساتھ مذاکرات تھی کیوں کہ وہ ایسی عبوری حکومت قائم کرنا چاہتا تھا جو اس کے مفادات کا تحفظ کر سکے۔ انہیں خطرہ ہے کہ ایران کی طرح یہاں بھی کوئی اسلامی حکومت نہ آ جائے اور اخوان المسلمون کنگ میکر بن کر سامنے نہ آ سکے۔ اس لیے وہ نگران حکومت سے یہ ضمانت لینا چاہتے تھے کہ مشرق وسطیٰ میں امریکی اور اسرائیلی مفادات کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ جریدے کا خیال ہے کہ عمر سلیمان اسرائیل کا پسندیدہ ہے اور اسے سامنے لانا امریکی پالیسی کا حصہ ہے۔ نیز مصر میں اسلام پسندوں کو روکنے کے عمل میں عرب حکمران بھی اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ ہیں۔کیوں کہ یہاں اسلام پسندوں کے مضبوط ہونے سے دیگر ممالک میں بھی اسلامی تنظیمیں سر اٹھائیں گی اور ان کے اقتدار کے لیے خطرہ ثابت ہوں گی[30]۔
بحرین میں سعودی کردار: دیگر عرب ممالک کی طرح بحرین میں بھی حکومت کے خلاف عوامی احتجاج شروع ہوا جسے دبانے کے لیے بحرینی حکومت نے سعودی عرب اور دیگر ممالک سے مدد طلب کی جس کے بعد سعودی عرب، امارات اور یمن کے علاوہ پاکستان سے بھی فوج کے ریٹائر افراد کی ایک بڑی تعداد بحرین پہنچی اور حکومتی دستوں کا ساتھ دیا۔ مصر کی طرح بحرین کے حوالے سے بھی صرف شیعہ مکتبہ فکر کے دو جریدوں "العارف” اور "نوائے اسلام” نے ہی اظہار خیال کیا ہے۔ جس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ بحرین میں مظاہرین شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے ہیں اور حکومت اور بیرونی فوجی دستے سب سنی مسلک سے تعلق رکھنے والے ہیں ۔ جرائد نے اس بات کا اظہار بھی کیا ہے کہ باہر سے آنے والے فوجی و نیم فوجی دستوں میں سے ایک سپاہی بھی شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والا نہیں۔ جریدے بطور خاص سعودی مداخلت کو نشانہ بناتے ہوئے لکھتے ہیں کہ سعودی عرب میں شیعہ آبادی پہلے سے اپنے حقوق کے حصول کے لیے فعال ہو چکی ہے، اور اگر بحرین میں یہ انقلاب کامیاب ہو جاتا ہے سعودی عرب کو خطرہ ہے کہ اگلا نشانہ وہ ہوگا۔ "نوائے اسلام” شذرے میں اس حوالے سے عمومی تبصرہ کرتے ہوئے تحریر کرتا ہے "انقلاب کی یہ لہر آمریتوں اور بادشاہتوں سے تنگ آئے ہوئے عوام کا رد عمل ہے۔ عالمی سامراجی طاقتیں یہ سمجھ چکی ہیں کہ اب تحریک کو دبانا ناممکن ہے لہٰذا انہوں نے حکمت عملی تبدیل کر لی ہے۔ اب وہ مظاہرین کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے ان کے حامی بن کر سامنے آ رہے ہیں جس کی مثال مصر میں دیکھی جا سکتی ہے۔ جہاں حسنی مبارک تو رخصت ہو گیا لیکن عوام تا حال آمریت اور استبدادیت سے جان نہ چھڑا سکی۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس موقع پر عوام کی درست رہنمائی کی جائے۔
اس حوالے سے امریکی کردار کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ شیعہ مکتبہ فکر کے جریدہ "العارف ” میں مضمون نگار سلمان رضا لکھتا ہے کہ بحرین میں عوام کی کامیابی کا مطلب امریکہ کی ناکامی ہے اور اس کے بعد امریکہ کے لیے اپنے پانچویں بحری اڈے کا بحرین میں قیام مشکل ہو جائے گا جس سے وہ خطے کو کنٹرول کر رہا ہے۔ اسی وجہ سے سعودی مداخلت کو مکمل امریکی مدد حاصل ہے اور آج بحرین میں سعودی عرب وہی کر رہا ہے جو لبنان میں اسرائیل نے کیا تھا[31]۔
لیبیا پر اتحادی افواج کا حملہ: ۱۶ فروری کے بعد سے شمالی افریقہ کے ملک لیبیا میں بھی حکومت کے خلاف عوامی احتجاج کا آغاز ہوا۔ دیگر ممالک کے برعکس لیبیا میں احتجاج پر امن نہ رہا بلکہ ہنگامہ آرائی شروع ہو گئی جس کے بعد معمر قذافی نے اس احتجاج کو دبانے کے لیے طاقت کا استعمال کیا جس میں فضائی کارروائی بھی کی گئی۔ اس صورتحال کے پیش نظر لیبیا پر نو فلائی زورن لاگو کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ شروع میں تو عرب لیگ نے اس کی مخالفت کی لیکن بعد ازاں بگڑتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر اس کی حمایت کا اعلان کر دیا گیا۔ نو فلائی زون کے قیام کے بعد نیٹو نے اس کا اختیار سنبھال لیا۔ لیکن اس کی کارروائیاں صرف نو فلائی زون کے قیام کو یقینی بنانے تک محدود نہ رہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ لیبیا کی فوج اور دیگر سرکاری املاک پر حملوں کی اطلاعات بھی موصول ہو رہی ہیں۔ دینی جرائد میں سوائے دیوبندی جریدے "ضرب مومن” کے کسی اور نے اس پر اظہار خیال نہیں کیا۔ جریدہ اقوام متحدہ اور نیٹو پر تنقید کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ "اتنی عجلت کے ساتھ اقوام متحدہ میں قرار داد کی منظوری اور مغربی ممالک کا اہداف کے تعین کے بغیر لیبیا پر چڑھائی کر دینا اس امر کا واضح اشارہ ہے کہ پس پردہ حقائق کچھ اور ہیں۔ جریدے نے اقوام متحدہ کے معیار کو بطور خاص سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور لکھا ہے کہ ایک جانب کشمیر پر اقوام متحدہ کی قرار داد کو ۶۰ سال گزر گئے، فلسطین پر آئے روز قرار دادیں پیش ہوتی ہیں لیکن کوئی عمل درآمد نہیں ہوتا۔ عالمی برادری کا رویہ بھی دوغلا ہے کہ حماس اور ایران کی جمہوریت انہیں دہشت گردی لگتی ہے اور افغانستان میں جمہوریت اور امن قائم کرنے کے لیے دوڑ پڑتے ہیں۔ مشرقی تیمور کو الگ کرنے کے لیے عالمی برادری بہت جلد حرکت میں آ جاتی ہے اور لبنان پر اسرائیل کے حملے کو دفاعی قرار دیا جاتا ہے۔ اور اب سوڈان کو دو لخت کرنے کے لیے سب متفق ہیں۔ جریدہ امت مسلمہ کے حکمرانوں کو مخاطب کر کے لکھتا ہے کہ” جب تک حکمران اپنے ذاتی مفادات سے بالا تر ہو کر مسلم شناخت پر فخر کرتے ہوئے معذرت خواہانہ رویہ ترک نہیں کرتے حالات مزید ابتر ہوتے جائیں گے”۔ غیر وابستہ اور دیگر چھوٹے ممالک کی اکثریت اقوام متحدہ کے موجودہ رویہ کے بارے میں یہی رائے رکھتی ہے کہ ان کا کردار یکطرف اور جانبدارانہ ہوتا ہے۔یہ تمام ممالک مل کرایسی تحریک پیدا کر سکتے ہیں جو اقوام متحدہ کی منصفانہ تنظیم نو کی راہ ہموار کر سکتی ہے۔ جریدے کے خیال میں پاکستان اسلام کا قلعہ اور ایٹمی طاقت ہونے کی وجہ سے قائدانہ کردار ادا کر سکتا ہے۔ کام اگرچہ مشکل اور وقت طلب ہے لیکن ناگزیرہے۔ اگر ایسا نہ کیا تو کل لیبیا کے بعد کسی اور مسلم یا غریب ملک کا نمبر آ سکتا ہے[32]۔
سعودی عرب میں احتجاج : ۴ مارچ ۲۰۱۱ء کو سعودی عرب کے مختلف شہروں میں آل سعود کی حکومت کے خلاف مظاہرے ہوئے۔ اطلاعات کے مطابق یہ مظاہرے شیعہ آبادی کی جانب سے کیے گئے جن میں بحرین میں سعودی دستوں کی کارروائی کی مذمت بھی کی گئی ۔ سعودی عرب میں اس عوامی رد عمل پر صرف شیعہ مکتبہ فکر کے دو جرائد نے اظہار خیال کیا ہے۔ "منتظر السحر” نے ایک مضمون شائع کیا ہے جس میں صاحب مضمون لکھتا ہے کہ "اگرچہ حکومت کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں سعودی عرب کے شیعہ مسلمان پیش پیش ہیں لیکن یہ ہر گز نہیں کہا جا سکتا کہ ان میں صرف شیعہ ہی حصہ لے رہے ہیں۔ ریاض میں اکثریت سنی مسلمانوں کی ہے اور وہاں بھی پہلی بار احتجاج ہوا ہے جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ سنی مسلمان بھی حکومت کے خلاف احتجاج میں شریک ہیں”۔ "نوائے اسلام” شذرے میں تحریر کرتا ہے کہ عرب ممالک میں تبدیلی کی یہ لہر آمر حکمرانوں کی جانب سے اپنے عوام کے حقوق غصب کرنے کا نتیجہ ہے، حکمران اپنے عوام کے بجائے اپنے آقاؤں کی فکر میں لگے رہتے ہیں جس کی وجہ سے تیل کی دولت سے مالا مال ہونے کے باوجود ان ممالک کی عوام کی حالت اچھی نہیں۔ اب حکمرانوں کے پاس سیاسی اصلاحات کے سوا کوئی چارہ نہیں ورنہ حالات مزید ابتر ہو سکتے ہیں[33]۔
جواب دیں