مباحث مئی ۲۰۱۰ ء
قومی نظام تعلیم اور اردو زبان
قومی نظام تعلیم اور اردو زبان کے حوالے سے اداریے اور مضامین دینی جرائد میں شائع ہو تے رہتے ہیں ۔ رواں دوماہی میں دیوبندی ، اہلحدیث او ر بریلوی جرائد نے اس مو ضوع پر اظہار خیال کیا ہے جس میں نظام تعلیم کی خامیوں ، اردو کو قومی زبان اورذریعہ تعلیم بنانے کی ضرورت اور اہمیت کے ساتھ ساتھ نصاب میں عربی زبان کی ضرورت کو اجاگر کیا گیا ہے ۔
اسکولوں کے نصاب میں عربی زبان کو شامل کرنے کے حوالے سے ایک خط کے جواب میں "البلاغ” اپنے اداریے میں لکھتا ہے ” نظام تعلیم سے متعلق ہمارا قومی المیہ صرف عربی کا ہی نہیں پورا نظام ، دیمک زدہ ، فرسودہ ، دور غلامی کی یاد گار ، صرف انگلش سیکھنے اور انگریز کا کلچر اپنا کر پاکستانی انگریز بننے تک محدود ہے۔۔عربی زبان کے لیے مناسب کتب کی تیاری بھی ناگزیر طور پرنفسیات اور ضروریات کو سامنے رکھ کر ہونی چاہیے ، چونکہ مسلمانوں کو بکثرت عربی زبان سے واسطہ پڑتا ہے اس لیے نظام تعلیم میں ناظرہ قرآن اور مناسب حد تک عربی زبان سے واقفیت کو لازمی طور پر ترجیح حاصل ہو نی چاہیے "۔[17]
قومی نظام تعلیم پر تبصرہ کرتے ہوئے ” صحیفہ اہلحدیث ” لکھتا ہے” جب ہم اپنی نئی نسل کی بے راہ روی کو دیکھتے ہیں تو سب سے بنیادی چیز علم کی کمی نظر آتی ہے۔یکساں نظام تعلیم نہ ہونے کے باعث غریب آدمی اپنی اولاد کو مہنگی تعلیم دلوانے سے قاصر ہوتا جارہا ہے۔۔۔ اگر ہم نئی نسل کو درست راستے کی طرف لانے میں سنجیدہ ہیں تو ہمیں چین اور جاپان کی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی زبان میں نظام تعلیم مرتب کرنا ہوگا”۔ [18]
اردو زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے کے حو الےسےاہلحدیث ماہنامہ "محدث ” اوربریلوی ماہنامہ”کاروان قمر” نے ادارتی نوٹ تحریر کیے ہیں۔ "محدث ” کےخیال میں ہمارے تعلیمی نظام پر مغرب کی یلغار کا تازہ شاخسانہ یہ ہے کہ ہمارے بچوں کو ابتداء ہی سے انگلش میڈیم میں پڑھایا جائے ، پنجاب حکو مت کی طرف سے اپریل ۲۰۱۰ء سے اسکولوں میں انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنانے کے نوٹیفیکیشن کا تذکرہ کرتے ہو ئے جریدہ لکھتا ہے ” آخر ایک غیر ملکی زبان کو اتنی اہمیت کیو ں دی جا رہی ہے اور اردو کو اسکے جائز حق سے محروم کیوں رکھا جارہا ہے ۔۔۔ عالمی لسانی سروے کے مطابق اردو دنیا کی تیسر ی بڑی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبا ن ہے ، یہ زبان ہمارا قومی سرمایہ ہے جو ہمارے دینی ،ملی ،ثقافتی اور تہذیبی اقدار کی وارث ہے "۔ جریدہ مزید لکھتا ہے کہ ” اپنی نسل نو کو اجڑنے سے بچانے اور انکی صلاحیتوں کو اپنی زبان میں محفوظ کرنے کے لیے ایک بڑی تحریک کی ضرورت ہے "۔ صوبہ سرحد کےسینئر وزیر بشیر احمد بلور کے اس بیان (جس میں انہوں نے اردو کو قومی کی بجائے محض رابطے کی زبان قرار دیا) پر تبصرہ کرتے ہو ئے "کاروان قمر” نے سینئر وزیر کو متنبہ کرتے ہوئے لکھا ” بشیر احمد بلور صاحب اپنا قبلہ درست کر لیں اور بلاحیل وحجت تسلیم کریں کہ اردو محض رابطے کی نہیں قومی زبا ن ہے "۔[19]
جواب دیں