مباحث مئی ۲۰۱۰ ء

مباحث مئی ۲۰۱۰ ء

کراچی میں مجلس  تحفظ ختم نبوت کے رہنما کا قتل

ملک میں دہشت گردی کی کارروائیاں  جاری ہیں گزشتہ دوماہی میں اس سلسلے کی ایک کارروائی جسے جرائد نے موضوع  بحث بنایا ہے وہ  کراچی میں تحریک ختم نبوت کے رہنما مفتی سعید احمد جلال پوری کی ان کے بیٹے سمیت قتل کی کارر وائی ہے۔ دیوبندی  اور ایک غیر مسلکی جریدے  نے اپنی تحریروں میں اس قتل کی مذمت اور قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے ،  اسی تنا ظر میں دیوبند مکتب فکر کے جرائد نے  زیدحامد[12] کے بارے میں بھی خاصا سخت رویہ اختیا ر کیا ۔تاہم باقی مکاتب کے جرائد میں اس حوالے سے کو ئی تبصرہ سامنے نہیں آیا ، جس کی وجہ اس واقعہ کو دیگر واقعات ہی کے تناظر میں دیکھنا معلوم ہو تی ہے ۔

” ختم نبوت "نے اس واقعہ کے محرکات کا ذکر ان الفاظ میں کیا ” علماء کا پے درپے قتل پاکستان کو سیکولر سٹیٹ بنانے کے انتظامات کا حصہ ہے۔۔۔افسوس کی بات ہے کہ  اس سلسلے میں انتظامیہ اور ملکی ایجنسیوں نے کسی دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا ، حد تو یہ ہے کہ اب تک کسی حکومتی عہدہ دار نے اس بہیمانہ قتل و غارت گری پر تعزیت کے دو بول بولنے کی زحمت بھی گوارہ نہیں کی "قاتلوں کو گرفتار  نہ کیے جانے پر بھی جریدے نے اظہار افسوس کیا ہے”۔[13] ۔اس تناظر میں  ہفت روزہ ” اخبار المدارس ” لکھتا ہے ” اس واقعہ کی ایف آئی آر زید حامد کے خلاف درج کی گئی ہے لیکن اب تک کسی قسم کی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی "۔[14]

"الشریعہ” نے اس سانحہ پر اظہا ر افسوس کے ساتھ ساتھ مولانا سعید احمد جلال پو ری کی دینی اور علمی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔ جریدہ اظہار افسوس کرتے ہوئے لکھتا ہے "علماء کی شہادت نے پرانے زخمو ں کو پھر سے تازہ کر دیا ہے ۔خدا جانے یہ سلسلہ کہاں جاکر رکے گا اور اس عفریت نے ابھی کتنے اور قیمتی لوگوں کی جانیں لینی ہیں”۔[15]

دوسر ی جانب زید حامد کے اعتقادی نظریات کے حو الے سے بھی تحریریں سامنے آئی ہیں جن میں انہیں یو سف کذاب کا خلیفہ ہونے پر مطعون کیا گیا ۔  "بینات”  نے اس سلسلے میں  زید حامد کے ادارہ  براس ٹیک کے ایک اہلکار حماد احمد بھٹی کے ایک مکتوب(جس میں انہیں ان الزامات سے بری الذمہ قرار دیا گیا تھا )  کا جواب  یوں لکھا ہے ۔ ” زید حامد جب یوسف علی کے ساتھ تھا تو وہ زید زمان کے نام سے متعارف تھا ، جب یوسف علی اپنے انجام کو پہنچ گیا تو زید حامد نے گمنامی اختیار کر لی،پھر اچانک زید حامد کے روپ میں نمو دار ہو ا ، بعد ازا ں جب  مستند شہادتوں سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ یہ وہی ہے جو یوسف کذاب کا خلیفہ تھا تو اس نے  بجائے اپنادفاع کرنے کے پو را زور یوسف کذاب کو شریف انسان اور صوفی مسلمان ثابت کرنے پر صر ف کر دیا "اسی طرح کی رائے کا اظہار "حق چار یار” نے بھی کیاہے۔[16]

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے