مباحث، مارچ ۲۰۱۱ء

مباحث، مارچ ۲۰۱۱ء

ایوان اقتدار میں سیاسی ہلچل

پیپلز پارٹی حکومت کی اتحاد ی جمعیت علماء اسلام اور ایم کیوایم کی حکومت سے علا حدگی  اور مسلم لیگ ن کی طرف سے اصلاح احوال کے لیے  پنتالیس دن کی ڈیڈ لائن گزرنے کے بعد ملک کی سیاسی فضا میں ارتعاش پید ا ہوگیا ہے ۔ دینی جرائد اس صور ت حال کو کس نظر سے دیکھتے ہیں ۔ حسب ذیل آراء اس کی عکاس ہیں ۔

بریلوی جریدہ ” سوئے حجاز” ایم کیوایم اور جےیو آئی [13]کی حکومت سے علاحدگی کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ” یہ بات بخوبی واضح ہے کہ ان چھوٹے حکومتی اتحادیوں کے پیش نظر نہ تو روزافزوں مہنگائی اور کرپشن کا مسئلہ ہےاور نہ ہی حکومت اور ان کے مابین کوئی اصولی اختلاف ہےبلکہ اصل معاملہ گروہی مفادات کے حصول کا ہے ” مسلم لیگ ن کے کردار کا حوالہ دیتے ہوئے  جریدہ لکھتاہے "مسلم لیگ  ن بظاہر تو جمہوریت کی بقا کی بات کرتی ہے لیکن دراصل وہ بھی پنجاب میں اپنے اقتدا ر کو کھونا نہیں چاہتی اس لیے وہ پیپلز پارٹی کے ساتھ تما م تر اختلافات کے باوجود اسے نہ تو خود غیر مستحکم کرنا چاہتی ہے اور نہ ہی ایسی کسی سازش کا حصہ بننا چاہتی ہے۔ دراصل یہ دوہر ا معیار ہی اس بات کو عیا ں کرنے کے لیے کافی ہے کہ معاملہ اصولوں یا نظریات کا نہیں ہے بلکہ گروہی مفادات کا ہے ، جمہوریت کی بقا اور مفاہمت کی سیاست کے نعرے اس وقت تک ہی لگائے جاتے ہیں جب تک اپنے مفادات محفوظ ہوں "[14]۔ دوسری جانب مسلم لیگ کے دس نکاتی ایجنڈے کا تذکر ہ کرتے ہوئے ہفت روزہ ” اہلحدیث” لکھتا ہے ” میاں نو از شریف کا دس نکاتی ایجنڈا اہمیت کا حامل ہے ۔ اور وزیر اعظم نے اس پر عمل درآمد کی حامی بھر ی ہے اگر وہ اپنی بات پر قائم رہیں اور تما م جماعتوں کا تعاون بھی حاصل کرلیں تو ملک وملت کے مسائل خوش اسلوبی سے حل ہو سکیں گے ۔”[15]

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے