مباحث، مارچ ۲۰۱۱ء
گورنر پنجاب سلمان تاثیر کا قتل
صوبہ پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو ان کے حفاظتی اسکوارڈ میں شامل ممتاز قادری نامی محافظ نے اسلام آباد کے سیکٹر F6 کی کوہسار مارکیٹ میں۴ جنوری ۲۰۱۱ ء دن کے وقت گولیاں مار کر ہلاک کر دیا ۔ اس حوالے سے دینی جرائد کی آراءکا خلاصہ پیش خدمت ہے۔
ماہنامہ "محدث” اپنے تجزئیے میں لکھتاہے ” سلمان تاثیرنے جس طرح توہین رسالت کی مجرمہ کی تائید اور پشت پناہی کی اس کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ اس نے توہین رسالت کے مجرموں کی حوصلہ افزائی کرکے انہیں قانونی باز پُرس سے بالاتر کرنے کی کوشش کی، ان حقائق کو دیکھا جائے تو سلمان تاثیر کا یہ جرم محض شریعت کے کسی حکم کے انکار تک محدود نہ تھا بلکہ شریعت اسلامیہ کی اہم ترین شخصیت ﷺ کی توہین کی تائید، اس تائید پر اسرار اور عملاً اس کے مرتکبوں کی حمایت تھا اور ظاہر ہے یہ سب کوئی چھوٹے جرائم نہیں ہیں ۔ ممتاز قادری نے قتل نہیں کیا بلکہ اپنے بھرپور غم وغصے کا اظہار ۲۶ گولیوں کا پورا برسٹ خالی کرکے کیا ، باقی محافظوں نے کسی دفاعی یا جوابی گولی کے بغیر گرفتار کیا، وقوعہ کا یہ نقشہ سلمان تاثیر کے جرم اور اس کے بارے میں رائے کو ظاہر کرتاہے ۔ سلمان تاثیر کا مقتول ہونے کے باوجود انسانی ہمدردی سے محروم ہونا اور ممتاز قادری قانون کو ہاتھ میں لینے کے باوجودمحبتیں وصو ل کر رہاہے یہ مسلمانان پاکستا ن کی اپنے نبی مکرمﷺسے گہری وارفتگی اور دلی محبت کا آئینہ ہے "۔[6]
گورنر کے قتل کو پوپ بینی ڈکٹ کی طرف سے المیہ قرار دئیے جانے کا حوالہ دیتے ہوئےدیوبندی جریدہ "ختم نبوت” لکھتا ہے "پوپ کا گورنر کے قتل کو المیہ قرار دینا اس بات کی غمازی کرتا ہے درحقیقت سلمان تاثیر انہی قوتوں کی خوشنودی کے لیے توہین رسالت کے قانون کو کالا قانون کہہ کر اس میں تبدیلی کے لیے کوشاں تھے ، جس کی پاداش میں انہیں اپنے ہی محافظ کے ہاتھوں اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے "۔ایک اور دیوبندی ہفت روزہ ” ضرب مومن ” کے خیال میں سلمان تاثیر کے قتل اور اس کے بعد سرکاری خطیبوں سمیت نا می گرامی علماء کی طرف سے ان کا جنازہ پڑھانے سے انکار نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ دینی حلقوں میں کس نظر سے دیکھے جاتے ہیں؟ جریدہ لکھتا ہے کہ ” اگر قومی اسمبلی کے فلور پر پٹرولیم قیمتوں میں کمی اور آرجی ایس ٹی بل واپس لیا جاسکتاہے تو ناموس رسالت قانون میں تبدیلی کا بل واپس لینے کا اعلان کیوں نہیں کیا جاسکتا ؟ یہ آئینی لحاظ سے ضر وری تھا ، مگر مصلحتوں میں جکڑی "خاموشیوں "نے حکومت کے لب بند رکھے اور نتیجہ قانون کے ہاتھ میں لینے کی صور ت میں سامنے آیا "۔ [7]
غیرمسلکی جریدہ "ندائے خلافت "کے خیال میں "عام حالات میں قانون کو ہاتھ میں لینے کے عمل کو قابل مذمت ہونا چاہیے لیکن جب کوئی کسی اعلیٰ عہدے پر فائز ہوکر عوام کے مذہبی جذبات کو بہیمانہ انداز میں کچلے ،اور آئین اور قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کچلے اور اس کے باوجود قانون حرکت میں نہ آئے توایسے حالات میں مذہبی غیرت وحمیت رکھنے والے کے لیے قانون کو ہاتھ میں لینے کے سوا کو ئی چارہ نہیں ہوتا ….. توہین رسالت کے قانون کو کالا قانون اور توہین رسالت کی مبینہ ملزمہ آسیہ کی حمایت کرکے سلمان تاثیر شریعت کے مجرم ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستانی قانون اور آئین کے مجرم بھی بن گئے اگراس وقت پاکستانی قانون پر عمل کیا جاتا تو ان کی جان بچ سکتی تھی”۔ مسلما ن اپنے نبی ﷺکی شان میں گستاخی برداشت نہیں کرسکتا ، یہ محبت کا ایسا طوفان ہے جس کے سامنے حکومتیں اور بڑی طاقتیں تنکے کی حیثیت رکھتی ہیں ۔لہذا حکومت کو چاہیے کہ وہ اس قانون کومن وعن برقرار رکھےاور مقدمے کے اندراج میں غیرضروری رکاوٹیں دور کرے اور مجرم کو فوری طور پر تختہ دار پر لٹکایا جائے ۔” ماہنامہ”خطیب ” نے ایک مضمون شائع کیا ہے ۔ مضمون نگار کے خیال میں لبرل طبقات توہین رسالت کے قانون میں تبدیلی کا خواب دیکھ رہے ہیں ۔ جریدہ لکھتا ہے ” سلمان تاثیر کے قتل کے بعد اگرچہ لبر ل حلقے کافی محتاط ہوگئے ہیں لیکن اپنے موقف اور ایجنڈے سے پیچھے نہیں ہٹے ، حال ہی میں ایم کیو ایم ، ن لیگ اور پی پی کے مابین روٹھنے اورمنانے کا دور اسی سلسلے کی کڑی ہے امریکہ اور ا س کے حواریوں کو دینی قوتوں کا اتحاد بری طرح کھٹک رہا ہے اس لیے وہ سیکولر قوتوں کی یکجائی کے لیے فکر مند ہیں ۔ ارباب اقتدار کو سمجھ لینا چاہیے کہ توہین رسالت قانون کے بارے میں عوامی احساسات اور قومی جذبات کیا ہیں اور اگر اس قانون کو چھیڑا گیا توقوم انتشار کا شکار ہوجائے گی ، دینی اور سیکولر قوتوں کے مابین تصادم ہوگا اور امریکہ ،برطانیہ ، بھارت اور اسرائیل کا ایجنڈا یہی ہے ۔”[8]
بریلوی جریدے”ضیائے حرم ” کے خیال میں” ممتاز قادری کا تعلق سنی مسلمانوں سے ہے جو کسی قسم کی دہشت گر دی کی کاروائیوں میں ملوث نہیں ہوئے ۔اس کا نام تاریخ میں غازی کے سنہر ے حروف میں لکھا جائے گا۔ اس کا مستقبل کیا ہو گا ؟ وہ صر ف غازی ہی رہے گا یا مرتبہ شہادت پائے گا ، یہ آنے والے حالات ہی بتائیں گے ۔ اس رجل عظیم کا کر دار مسخ کرکے اس کی تاریخ خراب کرنے کی کوئی کو شش اہل تصوف اہل سنت کامیاب نہیں ہونے دیں گے ۔”[9]
- شیعہ جرائد توہین رسالت کے قانون اور سلمان تاثیر کے قتل کے حوالے سے اہل سنت کے مسالک (دیوبندی، بریلو ی اور ایلحدیث) سے قدرے مختلف نقطہ نظر رکھتے ہیں ۔ وہ اس قانون میں بیان کر دہ مجرم کی سزا میں تبد یلی تو نہیں چاہتے البتہ اس قانون میں ایسی تبدیلی کے خواہش مند ہیں جو اس کے غلط استعما ل کے لیے سدراہ ہو۔ قانون توہین رسالت کے حوالے سے شیعہ مسلک کے نمائندہ جریدے "افکار العارف ” کا یہ تبصرہ قابل توجہ ہے ۔ ” ہمار ے علمائے کرام ضیاء دور میں بنائے گئے اس قانون میں کسی بھی قسم کی ترمیم یا نظر ثانی کے بارے میں سوچنا، کرنا اور ایسے کسی عمل میں شریک ہونا کفر اور اللہ کے غضب کو دعوت دینے کے مترادف سمجھتے ہیں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس قانون کا شکار بہت سے بے گناہ اور معصوم ہوئے ہیں ، عیسائی برادری کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے لوگ بھی اس قانون کا شکار ہوچکے ہیں ۔ پاکستا ن کا معاشرہ مذہبی ، سماجی ، قبائلی اور معاشرتی تعصبات میں منقسم معاشرہ ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں ناموس رسالت قانون(295سی ) کے تحت اکثر بے گناہ لوگ ذاتی رنجشوں اور دشمنیوں کی وجہ سے یا پھر دوسرے مذہب وفرقہ کی وجہ سے شکار ہوئے ہیں۔”[10]
سلمان تاثیر کے قتل کو شیعہ جرائد مذہبی انتہا پسندی کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں ۔” نوائے اسلام ” برملا اس بات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتا ہے "غیر ملکی ٹکڑوں پر پلنے والے نام نہاد مفتیوں اور علما نے نفرت کے جس الاؤ کو روشن کیا تھا اس کی تپش آج گھر گھر محسوس کی جارہی ہے۔اس انتہا پسندی کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج محافظ ہی قاتل بن گئے ہیں اور سلمان تاثیر جیسی شخصیت بھی محفوظ نہیں ہے ۔ یہ قتل جہاں ملک میں انتہاپسندی کے بڑھتے ہوئے عفریت کی نشاندہی کرتاہے وہیں ملک کے اہم عہدوں پر فائز شخصیات کے لیے عبر ت کا مقام بھی ہے ،کہ یہ شخصیات ملک کے ہر طبقہ کی نمائندہ ہوتی ہیں لہذا انہیں متنازعہ بیانات سے گریزکرناچاہیے "۔ "افکار العارف ” اس سلسلے میں لکھتا ہے ” ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کہ قاتل ممتاز قادری غازی ہے یا مقتول سلمان تاثیر شہید ….. اس لیے کہ اس بحث میں پڑنا ہی لایعنی اور بے معنی دکھائی دیتا ہے ” نیز یہ کہ "یہ بات کسی بھی صور ت قا بل بحث نہیں کہ رسالت مآب اور دیگر تما م انبیاء کی توہین کرنے والے کے لیے سزا ئے موت ہے ، ہم سے بڑھ کر اس سزا کا مطالبہ کرنے والا کو ن ہے۔”[11]
جواب دیں