مباحث، مارچ ۲۰۱۱ء
- توہین رسالت قانون میں تبدیلی کی بحث
- اس حوالے سے دینی جرائد کی آراء حسب ذیل ہیں۔
"منہاج القرآن” اپنے تجزئیے میں لکھتا ہے کہ ” پاکستا ن عشاق رسول کا ملک ہے ، اس نظر یاتی ملک کے سولہ کروڑ عوام کی بھاری اکثریت نبی ﷺ کا کلمہ پڑھتی ہے ، وہ بے عمل اور کرپٹ سہی لیکن ان کے دلوں میں محبت رسول کے جذبات موجزن ہیں ، ان کا تعلق کسی بھی مسلک اور قومیت سے ہو سرکار مدینہ کے ساتھ ان کی روحانی اور حبّی نسبت ان کے دلوں کی دھڑکن ہے ، پاکستا ن کے آئین سے اس شق کا اخراج گویا ان کے بدن سے اس ایمانی قوت وطاقت کا اخراج ہوگا جو ان کے جیتے جی ممکن نہیں ہے ۔” جریدہ مزید لکھتا ہے ” پاکستانی سیاست دانوں ، دانشوروں اور حکمرانوں کو سوچنا چاہیے اگر تعزیرات پاکستان کے مطابق پاکستا ن کے خلاف جنگ ، بغاوت یا دشمنوں سے مدد واعانت کے ارتکاب پر اگر سزائے موت کا قانون جائز ہے اور یہ حب الوطنی اور قومی تحفظ کے لیے ضروری ہے تو پھرجو قانون حبیب کبریا ﷺ کی عزت و ناموس کے لیے بنایا گیا ہے اسے ختم کیوں کیا جائے ۔؟ "” ضیائے حرم” نے اسی سے ملتا جلتا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے ” اللہ ہمارے حکمرانوں کو ہدایت دے اور وہ غیر مسلموں کی کاسہ لیسی کرنے کی بجائے اپنے دین ووطن کے بارے میں حقیقی غیرت کا مظاہرہ کریں اور ناموس رسالت کے بارے میں بھونڈا رویہ اختیار کرنے کی بجائے ایسا موقف اختیار کریں جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی تعلیمات کے مطابق ہو” جرید ہ اپنی دوسری اشاعت میں لکھتا ہے ” توہین رسالت کا قانون وفاقی شرعی عدالت کے فیصلہ کے مطابق پارلیمنٹ سے پاس ہوا ہے ، نہ یہ ضیاء الحق کا قانون ہے ، اور نہ یہ کسی اورآمر کا ۔ جو لوگ اس میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کریں گے وہ ذلیل ورسوا ہوں گے "۔”سوئے حجاز "کےخیال میں "اقلیتوں کو یہ حق نہیں دیا جاسکتا کے وہ پاکستان کی رعایا ہونے کے باوجود پاکستا ن کے قوانین سے استثناء کی راہ تلاش کرتی پھریں ، اور کھلے عام رحمت اللعالمین ﷺکی شان میں نازیبا کلمات کہتی پھریں ، اگر کو ئی مسلمان بھی حضرت عیسی ٰ یا کسی اور پیغمبر کی شان میں گستا خی کا مرتکب ہوتا ہے تو وہ بھی اس سزا کا مستحق ہے لہذا اس معاملے میں اقلیتوں کے تحفظ کی بات بے تکی ہے "۔ "کاروان قمر ” برملالکھتاہے ” حکمران یاد رکھیں کہ یہ قانون الہی ہے اور اسے کوئی ختم نہیں کرسکتا ، اس میں ترمیم و تحریف کا اختیار کسی بندے کو حاصل نہیں ” ۔ ماہنامہ” عر فات” نے گستاخ رسول کی شرعی سزا کے حوالے سے ایک مضمون شائع کیا ہے جس میں مضمون نگار نے احادیث اور اقوال صحابہ سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ گستاخ رسول واجب القتل ہے اور مذکورہ قانون شرعی ہے اور اسے بدلنے کی کوشش نہ کی جائے ۔ "نوید سحر "نے بھی اسی طرح کی احادیث سے اس قانون کے شرعی ہونے پر روشنی ڈالی ہے۔[1]
” البلاغ ” اس ضمن میں اس قانون کے کسی اقلیت کے خلاف ہونے کے دعوے کی نفی کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ” اگر کوئی شخص اس قانون کو کسی خاص طبقے کے خلاف قرار دیتا ہے تو یہ شرانگیز اورخلاف واقعہ بات ہے اس قانون کے نفاذ سے لیکر اب تک شاید چند کیس ہی غیرمسلموں کے خلاف درج ہوئے ہیں ، زیادہ مقدمات کا تعلق ان لوگوں کے ساتھ ہے جو اسلام کی طرف اپنی نسبت کرتے ہیں ،جہاں تک قانون کے غلط استعمال کا تعلق ہے تو شکایت صرف قانون توہین رسالت سے متعلق نہیں دیگر جرائم کے خلاف نافذالعمل قوانین کا جو حال ہے وہ سب جانتے ہیں”۔ ” الخیر ” نے اداریے میں اس قانون کی تاریخی اور شرعی حیثیت کے حوالے سےاٹھائے گئے مختلف سوالات کا جواب دیتے ہوئےاس دعوے کی نفی کی ہے کہ یہ قانون اقلیتوں کے خلاف ہے ۔ [2]
"ماہنامہ محدث ” قانون توہین رسالت میں تبدیلی کے لیے پیپلز پارٹی کی نمایاں خاتون رہنما شیری رحمٰن کی طرف سے پیش کردہ بل پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے "قانون توہین رسالت میں تبدیلی کے حالیہ بل کا مقصد یہ ہے کہ موجودہ امریکہ نواز حکومت سے اور بہت سے ظالمانہ اقدامات کے ساتھ ساتھ قانون توہین رسالت کا خاتمہ بھی کرو ا لیا جائے ،اس وقت اس ضمن میں جاری مباحثے کا یہی پس منظر ہے ” جریدہ مزید لکھتا ہے ” توہین رسالت قانو ن کے خلاف پاکستان کا ملحد اور سیکولر طبقہ اور عالمی قوتیں اس لیے مجتمع ہیں کہ انہیں پاکستان جیسی ایٹمی قوت کا اسلامی تشخص بہت چبھتا ہے ۔ سیکولر نظر یا ت کے ناطے وہ ہر اس قانون اور علامت کو ختم کرنا چاہتے ہیں جو اسلام کے نا م پر وجود میں لائی گئی ہو”[3]
جواب دیں