مباحث، مارچ ۲۰۱۱ء
قانون انسداد توہین رسالت میں تبدیلی
آئین پاکستان میں موجود قانون انسداد توہین رسالت میں ترمیم کی بحث تاحال جاری ہے۔ اس ضمن میں دینی جرائد کی آراءکا مفصل احوال گزشتہ اشاعت میں آچکاہے ۔ لیکن۴ جنوری ۲۰۱۱ء کو اسلام آباد میں گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے سرکاری محافظ کے ہاتھوں قتل اور ان کے قاتل کے اس بیان پرکہ” اس نے یہ اقدام گورنر کی طرف سے انسداد ِ توہین ِرسالت قانون کو کالا قانون کہنے پر اٹھایا ہے ” یہ بحث ایک بار پھر موضوع گفتگو بن گئی ۔ دریں اثناء وزیر اعظم نے اس قانون میں ترمیم نہ کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔ تاہم اس کے باوجود بھی دینی جرائد نے اس بحث کو بھر پور اند از میں اپنے ہاں جگہ دی ہے۔ تمام مکاتب فکر کے نمائندہ جرائد نے اس موضوع پر تین حوالوں سے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے یعنی قانون توہین رسالت میں تبدیلی کی بحث ، پوپ بینی ڈکٹ کا بیان اورسلمان تاثیر کا قتل ۔شیعہ کے علاوہ تمام مکاتب کے جرائد توہین رسالت قانون میں تبدیلی کے خلاف ہیں ، پوپ بینی ڈکٹ کے بیان پر سراپا احتجاج ہیں اور سلمان تاثیر کے قتل پر اظہار خیال میں وہ قتل سے زیادہ قتل کی وجوہات پربحث کر تے دکھائی دیتے ہیں ۔ گورنر کے مبینہ قاتل ممتاز قادری کے بارے میں اظہار خیال میں شیعہ کے علاوہ تما م جرائد بین السطور اُس کے اس اقدام کو جراتمندانہ قرار دیتے ہیں اگرچہ کھل کر اس رائے کا بہت زیادہ اظہار نہیں ملتا ،حتی ٰ کے خود بریلوی جرائد بھی اس بارے میں محتاط رویہ اپنائے ہوئے ہیں، البتہ بریلوی مکتب کے ایک جریدے” سوئے حجاز” نے واضح طور پر ممتاز قادری کے اقدام کو نہ صرف سراہا بلکہ انہیں غازی کا لقب بھی دیا۔شیعہ جرائد قانون توہین رسالت میں ایسی تبدیلی کے حق میں دکھائی دیتے ہیں جس سے اس قانون کا غلط استعمال روکنے میں مدد ملے ۔ جبکہ سلمان تاثیر کے قتل کو مذہبی انتہا پسندی کا شاخسانہ سمجھتے ہیں ۔یو ں جرائد کی آراء میں یکسانیت کا عنصر نمایاں ہونے کے باوجود اختلاف رائے کا اظہار بھی ملتاہے۔ دینی جرائد کی آراء کا خلاصہ حسب ذیل ہے۔
جواب دیں