مباحث، مارچ ۲۰۱۱ء
ایران اور امریکی سیاست
"نوائے اسلام” نے امریکی محکمہ خزانہ کی طرف سے امریکی کمپنیوں کو ایران سمیت تمام بلیک لسٹ ممالک میں تجارت کرنے کی اجازت کی خبر پر تبصرہ کیا ہے ۔ جریدے کے خیال میں امریکہ کا یہ فیصلہ حیران کن ہے ۔ جریدہ لکھتا ہے ” ایک جانب تو امریکہ ایران پر مزید پابندیوں کے لیے اقدامات اٹھا رہا ہے اور دوسری جانب وہ اپنی کمپنیوں کو ایران میں تجارت کی اجازت دے رہا ہے ۔ یہ پالیسیاں واضح کر تی ہیں کہ امریکہ کو ایران کے مقابلے میں مسلسل ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اقتصادی پابندیوں کے باعث امریکی کمپنیاں ایران جیسی بڑی مارکیٹ سے محروم ہوچکی ہیں ۔امریکہ کے ماضی کو سامنے رکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ فیصلہ جہاں امریکہ نے اپنی کمپنیوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے کیا ہے وہیں وہ خارجہ پالیسی کے مقاصد بھی حاصل کرنا چاہتاہے لیکن ایران کے معاملے میں جس طرح امریکہ کے سابقہ منصوبے ناکامی سے دوچار ہوئے ہیں یہ سازش بھی کامیاب نہیں ہوسکے گی ۔ [28]
جنوری ۲۰۱۱ء میں امریکی وزیر خارجہ ہیلر ی کلنٹن کے عرب ممالک کے دورے کا ذکر کرتے ہوئے ” نوائے اسلام” ان کے اس دورے کو ۲۱ جنوری کو ایران کے ایٹمی پروگرام پر ہونے والے مذاکرات سے قبل ایران کے خلاف عربوں کی حمایت حاصل کرنےکی کوشش خیال کرتا ہے۔ جریدہ لکھتاہے ” امریکہ نے ایران کے ایٹمی پر وگرام کو عربوں کے سامنے ایک بہت بڑے خطر ے کے طور پر پیش کیا ، لیکن اسرائیل کی لبنا ن اور غزہ پر جارحیت اور حزب اللہ کی تاریخی کامیابی نے امریکی منصوبوں کوخاک میں ملادیا ہے۔ عرب ممالک کو اندازہ ہو گیا ہے کہ خطرہ ایران نہیں اسرائیل ہے ۔ دریں اثناء ایران نے عرب ممالک کو اپنی ایٹمی تنصیبات کے معائنے کی دعوت دے کر ہیلر ی کلنٹن کے دورے کو اور مشکل بنادیا ہے اس بات کے بہت کم امکانات ہیں کہ وہ عرب خطے سے کچھ فائدہ حاصل کر کے لوٹیں گی ۔ [29]
جواب دیں