مباحث، مارچ ۲۰۱۱ء

مباحث، مارچ ۲۰۱۱ء

افریقی عرب ممالک میں تبدیلی کی لہر

افریقی عرب ملک تیونس  کے عوام کی طرف سے اپنے ملک کی آمرانہ حکومت کے خلاف شروع کی گئی تبدیلی کی تحریک  اب مشرق ِوسطیٰ  میں داخل ہو چکی ہے۔ تیونس کے صدر بن علی کے ملک سے فرار کے  بعد اب  مصر کے صدر حسنی مبارک اقتدار سے الگ کر دئیے گئے ہیں ۔ لیبیا،اومان ،بحرین ، مراکش اور الجزائر میں بھی  حکومت مخالف مظاہر و ں میں شدت آرہی ہے  ۔فروری ۲۰۱۱ ءتک شائع  ہونے والے ماہانہ دینی جرائد میں ان امور پر اظہار خیال کم ہی نظر آیا ۔ تاہم دیوبندی  ہفت روزہ ” ضرب مومن”  ،  غیر مسلکی ماہنامہ "میثاق "،  شیعہ جریدے ” افکار العارف”اور "منتظر السحر” نے اس اہم موضوع کو اپنے ہاں جگہ دی ہے۔مذکورہ جرائد عوامی جدوجہد کی تائید کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ اور آمرانہ حکومتوں کی تبدیلی کو ضروری خیال کرتےہیں ۔ البتہ اس تبدیلی کے پس پردہ  بیرونی مداخلت کے حوالے سے جرائد ایک دوسرے سے مختلف نقطہ نظر رکھتےہیں ۔ جرائد کی آراء حسب ذیل ہیں ۔

"ضرب مومن ” تبدیلی کے آغاز کی وجوہات پر بحث کرتے ہوئے لکھتا ہے ” تبدیلی کے لیے اچانک عوامی جدوجہد کے آغاز کا ایک سبب وکی لیکس کے انکشافات  ہیں اور  دوسرے سوشل ویب سائٹس   فیس بک اور ٹوئٹر  نے اس میں بنیادی کردار ادا کیا۔ البتہ عوام کی بیداری میں حکمرانوں کی کرپشن اور بے روزگاری کا حصہ بھی زیادہ ہے ۔ تیونس کے عوامی انقلاب نے دیگر عرب ممالک کی بادشاہتوں کے مستقبل پر ایک سوالیہ نشان کھڑاکردیا ہے۔ ” البتہ جریدہ خدشہ ظاہر کرتے ہوئے لکھتاہے  ” تیونس اور عرب ممالک میں انقلاب کے امکانات گو اس لحاظ سے تو خو ش کن ہیں کہ شخصی آمریتوں کے خلاف شعور پید ا ہورہا ہے ۔لیکن دوسر ی جانب یہ خدشہ بھی موجود  ہے  کہ وکی لیکس جو ان انقلابات کی بنیاد ہے ،  کا بنیادی مقصد مسلمان ممالک میں سیاسی عدم استحکام پید ا کرنا ہے اور یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے خلاف انکشافات کا تاثر دینے کے باوجود ابتدائی چند دنوں کے انکشافات کے بعد اب پے درپے مسلمان حکمرانوں کے بارے میں ہی انکشافات سامنے آرہے  ہیں ” جریدہ اپنی ۴–۱۰ فروری کی  اشاعت میں اس تحریک کے پس منظر کے حوالے سے خدشہ ظاہر کرتے ہوئے لکھتا ہے "امریکا اس وقت مسلم دنیا میں نفرت کا سمبل بن چکاہے ، کسی مسلم ملک کے عوام امریکہ کو پسند نہیں کرتے ، مصر اور تیونس کے انقلاب کو اس تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ امریکہ مسلم دنیا میں اپنے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت کو کم کرنے کے لیے نفسیاتی جنگ جیتنے کی کوششوں میں ہے ۔  تیونس میں امریکہ نے اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو بچانے کے لیے انقلاب کی حمایت کی ہے اور صدر زین العابدین کو   ملک سے فرار ہونے کا مشورہ دیا ہے ۔ یہی کچھ مصر میں دہرایا جارہاہے ، امریکہ نے مصری صدر سے اپنی حمایت واپس لے لی ہے ۔ اور زور وشور سے اصلاحات کا مطالبہ کر رہاہے ۔ یہ خیال بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتاکہ یہ انقلاب اسلام دشمن طاقتوں کی طرف سے سعودی عرب پر دباؤ بڑھانےکی کوشش ہے کہ سعودی عرب میں انقلاب کی آڑ میں خانہ کعبہ پر حملے کی ناپاک جسارت کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے جس کے خواب کافی عرصے سے یہ طاقتیں  دیکھ رہی  ہیں”[24] ماہنامہ "میثاق ” کے خیا ل میں تیونس کا صدر روشن خیالی کے نام پر ملک میں مغربی تہذیب اور بے حیائی کے لیے کوشاں رہااور کرپشن میں بری طرح ملوث رہا ۔ اس ظالم نے اپنی حکومت بچانے کے لیے ہر حربہ استعما ل کیا لیکن عوامی ریلے کے سامنے اس کی ایک نہ چلی اور بالآخر وہ اپنے انجام کو پہنچ گیا ۔”[25]

"افکار العارف ” نے ایک مضمون شائع کیا ہے ۔  مضمون نگار  کے خیال میں  تیونس میں عوامی بیداری کی لہر سے عرب آمریتوں کے تخت لرزہ براندام ہیں ۔ جریدہ عالمی طاقتوں بالخصوص امریکہ کے کردار کا جائزہ لیتے ہوئے لکھتاہے "جب تک بن علی تیونسی باشندوں کے خون سے ہولی کھیلتا رہا تب تک انسانی حقوق کے چمپیئن اور امریکہ کی طرف سے کوئی بیان نہیں آیا لیکن جونہی بن علی کا طیارہ فضا میں بلند ہوا تو اوباما کے پیٹ میں تیونسی عوام کی داد رسی کا مروڑ اٹھا اور انہوں نے عوام سے پُرامن رہنے اور باقی ماندہ حکومت سے نئے انتخابات کروانے کا مطالبہ کیا تاکہ کوئی چہرہ بدلے اور نظام ویسا ہی چلتا رہے البتہ تیونسی عوام نے امریکہ کے اس مطالبے کو اسی طرح ملک سے نکا ل دیا ہے جس طرح بن علی نے اسلا م کو ملک سے نکا ل دیا تھا ” مصرمیں جاری  تحریک   کے حوالے سےمضمون نگار  لکھتےہیں "مصر میں آنے والی تبدیلی کا سب سے بڑا نقصان اسرائیل کو ہوگااور یہی وجہ ہے کہ امریکہ اس احتجاجی تحریک پر سر پیٹ رہا ہے اور اوباما سے لیکر ہیلری کلنٹن تک سب مصری عوام  کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں …… اگر مصر میں یہ عوامی تحریک کامیاب ہوجاتی ہے تو ایک امر یقینی ہے کہ بیداری کی یہ تحریک افریقی عرب ممالک سے نکل کر خطے کے تما م ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی اور تما م آمریتوں کے بت پاش پاش ہو جائیں گے، آزاد حکومتوں کا قیام ناگزیر ہو جائے گا ایسی صور ت میں امریکہ اور مغربی ممالک کو خطے سے اپنا بوریابستر گول کیے بنا چارہ نہیں ہو گا "، "منتظر السحر” نے اس حوالے سے ایک مضمون شائع کیا ہے مضمون نگار لکھتےہیں ” تیونس کے عوام نے بہت بڑاکارنامہ سرانجام دیا ہے اور یہ واقعہ ہمیشہ کے لیے تاریخ میں محفوظ ہوگیا ہے اور یہ واقعہ درحقیقت عرب قوموں کے لیے ایک محرک ہے اوراُن میں یہ جرات پید ا کرتاہے کہ وہ اپنے مطالبات کو بر ملازبان پر لے آئیں۔”[26]

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے