مباحث، مارچ ۲۰۱۱ء

مباحث، مارچ ۲۰۱۱ء

مہنگائی، گیس اور بجلی کا بحران

مہنگائی  ملک کا ایک مستقل مسئلہ ہے، اور آئے دن اشیاء صرف اور پٹرولیم  کی قیمتوں میں اضافہ عوام کی مشکلات میں اضافہ کا  باعث بن رہا ہے  اس کے ساتھ ساتھ گیس  اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے ۔دینی جرائد اس حوالے سے تجزیے اور تبصرے  شائع  کرتے رہتے ہیں ۔ رواں دوماہی میں  اگرچہ جرائد کی توجہ اس جانب کم رہی ہے تاہم اس کے باجود  بعض جرائد نے اس صور ت حال پر تنقید کی ہے ۔  ہفت روزہ "الاعتصام "نے شذرہ میں مہنگائی  پر احتجاج کیا ہے ” اس ہوش ربا مہنگائی نے بڑے بڑوں کے کس بل نکال دئیے ہیں ، اس کے باوجود جی ایس ٹی کی باتیں بھی ہورہی ہیں ،اس ملک میں غریب تورو رہا ہے اور وزراءاور مشیر ان کرام کرپشن کے کیسوں پر برطرف ہورہےہیں ۔ غربت مٹانے کے دعویداروں نے اگر اسی طرح مہنگائی کے طومار مارنے جاری رکھے تو ان شاء غریبوں کی آہیں اور ان کے بجھتے ہوئے چولہے اور بھو ک و پیاس سے بلکتے بچوں کی بددعائیں حکومتی کشتی کو ڈبو بھی سکتے ہیں ” توانائی کے بحر ان پر قابو پانے کے لیے جریدے نے مختلف پر وگرامات اور فنکشنز  پر بجلی کے بے تحاشا استعما ل کو روکنے کی  تنبیہ کرتے ہوئے لکھا  کہ "حکومت سے منسلک اور حکمرانوں کی قربت سے بہر ہ ور علماء کو چاہیئے کہ وہ حکمرانوں کو ان خرافات اور بدعات سے بچاکر حقِ علم دین اداکریں اور توانائی کی بچت کروا کر وطن عزیز پر احسان کریں  کہ یہ دین اور وطن کی اہم ضرورت ہے ۔”[16] اس ضمن میں ” ضرب مومن”   لکھتاہے  "ملک میں ایک طرف سیاسی عدم استحکام ہے تو دوسری جانب عوام کے مسائل میں اضافہ ہورہا ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالنے سے لے کر اب تک متوسط اور تیسرے طبقے کے مسائل کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا ۔ سیاسی جماعتیں اگر اپنے گروہی مفادات کی بجائے عوام کے مسائل کو اپنی ترجیحات میں شامل کرلیں تو یہ خود ان کے لیے آئندہ انتخابات میں مفید ہوگا ۔”[17] مہنگائی پر تبصرہ کرتے ہوئے  "اہلحدیث ” لکھتا ہے ” ان مشکل حالات میں ہم حکمرانوں سے گزارش کریں گے کہ وہ صر ف آئی ایم ایف اور دوسرے عالمی اداروں کی رضاجوئی کو نہ دیکھیں  بلکہ عوام کی بدحالی ، افلاس ، پسماندگی ، اور غربت کا بھی کچھ خیال کریں ۔ "[18] جریدے کےخیال میں تما م محب وطن سیاسی ودینی جماعتوں کو پٹرولیم مصنوعات میں کیے گئے اضافے کو واپس لینے  کے لیے حکومت پر دباؤ ڈالنا چاہیے۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے