مباحث، مارچ ۲۰۱۱ء

مباحث، مارچ ۲۰۱۱ء

حرف اول

سال ۲۰۱۱ ء کی پہلی  دوماہی (جنوری، فروری) میں قومی اور بین الاقوامی نوعیت کے اہم موضوعات اور واقعات  پر  دینی مکاتب فکر کے  نمائندہ جرائد  میں پیش کیے گئے تجزیوں اور تبصروں کا خلاصہ  آئند ہ صفحات میں پیش کیا گیا ہے۔ قارئین کی سہولت کے پیش نظر یہاں اس کی تلخیص  پیش کی جارہی ہے۔

زیر نظرعرصہ میں دینی جرائد نے قومی امو ر کے ذیل  میں قانون ِ انسدادِ توہین رسالت   کے خاتمے یا اس میں تبدیلی کے حوالے سے عیسائی اقلیت اور  بعض سیکولر حلقوں کی جانب سے کیے جانے والے مطالبے کا شدت سے رد کیا ہے اور اس نوعیت کی کسی بھی تبدیلی کو ناممکن قرار دیا ہے ۔نیز اس ضمن میں گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل کو بھی  اسی قانون کو کالاقانون کہنے کا شاخسانہ قر ار دیاگیا ۔ پوپ کی جانب کے اس قانون میں تبدیلی کے مطالبے کو ملکی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے اسے بھر پور طریقے سے رد کیاگیا ۔ لاہور میں دو بےگناہ پاکستانیوں کے قاتل ریمنڈ ڈیوس کی  رہائی  اور استثناء کے سلسلے میں امریکی کوششوں کو سفارتی  آدا ب کی خلاف ورزی قرار دیاگیا نیز اس سلسلے میں حکومت کو عوامی خواہش کے علی الرغم کسی بھی فیصلے سے باز رہنے کا مشورہ دیا گیاہے ۔  پاکستان کی سیاسی صورت حال میں ایوان اقتدا ر میں سیاسی جوڑ توڑ  کو گروہی مفادات کے حصول کی کوشش قراردیاگیا ۔ مہنگائی ، بجلی اور گیس کے بحران پر تشویش کا اظہار کیا گیا  ۔ حج کر پشن اسکینڈل کی بحث کو زندہ رکھتے ہوئےاس پر کرپشن کے ذمہ داران کو لعن طعن کی گئی ۔ سرحدوں کی صورتحا ل اور خصوصا شمالی وزیرستان میں آپریشن کے حکومتی ارادوں کو نقصان دہ خیال کرتے ہوئے حکومت سے  اس آپریشن کے ارادہ کو  ترک کرنے کا مطالبہ کیا گیا ۔

بین  الاقوامی نوعیت کے امور میں افریقی ممالک تیونس اور مصر میں عوامی احتجاج کو خوش آئند قرار دینے کے ساتھ ساتھ کسی بیرونی قوت کے اس صورت حال سے فائدہ اٹھالینے کے خدشے کا اظہار بھی کیا گیا ہے ۔ وکی لیکس کے انکشافات کو مسلمان ممالک کے خلاف ایک ممکنہ  سازش قراردیا گیا ۔ امریکہ کی طرف سے اپنی تجارتی کمپنیوں کو ایران میں تجارت کی اجازت کے امریکی فیصلے پر تعجب کا اظہار کیاگیا البتہ اسے امریکہ کی ایک سفارتی حکمت عملی قرار دیا گیا ہے۔ صحابہ کرام کے حوالے سے ایرانی رہبر کے  ایک فتویٰ کو شیعہ سنی اختلاف کو کم کرنے کے لیے ممد قرار دیاگیا۔ نیز افغانستان میں امریکی حکمت عملی کو ناکام قرار دینے کے ساتھ مغربی ذرائع ابلاغ  کے حوالے سے اس بات کا اظہار بھی کیا گیا ہے کہ امریکی عوام بھی افغانستان  میں امریکی حکمت عملی سے مطمئن نہیں ہیں۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے