مباحث مارچ ۲۰۱۰ ء

مباحث مارچ ۲۰۱۰ ء

سماجی مسائل

رواں دوماہی میں  کچھ جرائد نےبعض سماجی مسائل پر بھی اظہار خیال کیا ہے جن میں بسنت اور پتنگ بازی ،موبائل فون کمپنیوں کےقابل اعتراض اشتہارات میڈیا پر دکھائے جانے کا معاملہ، نیوایئر نائٹ اورمعصوم بچوں کاقتل شامل ہیں  ۔

  • § بسنت  اور پتنگ بازی: "عرفات” اور "کاروان قمر "نے بسنت اور پتنگ بازی کے حو الے سے  مضامین   شائع کیے ہیں ۔”عرفات "میں شائع مضمون میں علامہ رشید احمدمرتضائی  کے خیا ل میں ہندوتہذیب  کے جس عنصر نے  پاکستانی معاشرے کونسبتاً زیادہ متاثر کیا وہ بسنت ہے ۔ وہ بسنت کو ثقافتی دہشت گردی سے تعبیر کرتے ہیں اور اس تہوار پر ہونے والے اخراجات اور اس کے نتیجے میں ضائع ہونے والی انسانی جانوں کا جائزہ پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں”ہم اس ثقافتی دہشت گردی کی صورت میں۳ لاکھ ۵ ہزار ملین ڈالر کا سرمایہ اپنے مذہبی اورجغرافیائی دشمن (بھارت) کی جھولی میں ڈال چکے ہیں اور ۳۱ ہزار ۴۱۶ قیمتی جانیں اس کی نذر کر چکے ہیں ۔جریدے نےحکومت سےمطالبہ کیا ہے کہ اگر قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ہوسکتاہے تو ثقافتی دہشت گردوں ، انسانی جا ن لینے والوں اور قانون کی رٹ کو چیلنج کرنے والوں کے خلاف آپریشن کیوں نہیں ؟ محض اس لیے کہ اس شیطانی کھیل میں طبقہ اشرافیہ ،حکمرانوں کے لاڈلے ،بگڑے نواب اور رئیس زادے شامل ہوتے ہیں ۔جریدے نے اعلی ٰ عدالتوں کےججوں سے گزارش کی ہے کہ وہ اس معاملے کا از خود نوٹس لے کر متعلقہ حکام کو عدالتی احکامات پر عمل درآمد کا پابندبنائیں۔”کاروان قمر ” میں شائع مضمون میں بھی اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہو ئے مضمون نگار لکھتے ہیں "پتنگ بازی اور بسنت ایک ہندوانہ تہوار ہے اور ہندو دھرم اور ثقا فت کا ایک حصہ ہے  اس کا دین اسلام سے دور کا واسطہ بھی نہیں ۔اسلامیان پاکستان غور کریں کہ وہ یہ تہو ار منا کر اپنے کن آقاؤں کو خوش کر رہے ہیں؟ "۔ [26] 

 

  • § موبائل فون کمپنیوں کا اندازتشہیر: موبائل فون کے جہاں بے شمار فوائد ہیں وہیں پاکستانی معاشرے میں موبائل فون کے باعث اس کی تہذیبی اقدارکے پامال ہونے کا تاثر بھی پایا جاتا ہے ۔اس سلسلے میں "نداء الجامعہ” میں شائع  ہونے والےمضمون کا تجزیہ قابل غور ہے ۔مضمون نگار کے خیال میں کاروبار میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی دوڑ میں میڈیا پر دکھائے جانے والے اشتہارات میں اخلاقی اقدار کو بری طرح پامال کیاجارہاہے۔ اور حکومت کی طرف سے اس کے برے اثرات کا ادراک ہو نے کے باوجود اصلاح احوال کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھا یا جا رہا ۔بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان  موبائل فون کمپنیوں کو حکومت کی آشیر بادحاصل ہے ۔مضمون نگار  لکھتے ہیں "ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت کی طرف سے میڈیا کے لیے بھی کوئی میزان   (Check &Balance)مقرر کیا جائے جو عوام تک پہنچنے سے پہلے ہر چیز کا اچھی طرح جائزہ لے کر صاف ستھرامواد نشر کرے”۔[27]  

  • § کراچی میں معصوم بچی کا قتل : اخباری اطلاعات کے مطابق کراچی میں والدین نے اپنے پیر کے حکم پر نرینہ اولاد کے حصول کے لیے  چلہ کاٹنے کے دوران اپنی چھ ماہ کی بچی کو گلا دبا کر ہلاک کر دیا۔ "صحیفہ اہلحدیث” نے اس سفاکیت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے جہالت کا شاخسانہ قرار دیا ۔ جریدہ لکھتا ہے ” پیر اور مرید دونوں کو اگر کم از کم دنیاوی علوم سے ہی واقفیت ہوتی تو انہیں معلوم ہوتا کہ بیٹیوں کی   پیدائش کسی جادو یا بندش کے باعث نہیں ہوتی بلکہ یہ ایک طبی مسئلہ ہے ، اللہ تعالی ٰ نے ایسی جڑی بوٹیاں پیدا کی ہیں جن کے استعمال سے اولاد نرینہ کی امید کی جاسکتی ہے”۔ ساتھ ہی جریدے نے لوگوں کو پیروں فقیروں کے مشوروں پر عمل سے بچنے کی ترغیب بھی دی ہے ۔[28]  

 

  • § نیوائیر نائٹ : سال نو کے استقبال کے طورپر منائی جانے والی نیو ائیر نائٹ کی رنگا رنگی پر "تعلیم القرآن ” کا تبصرہ سامنے آیا ہے ۔ جریدے نے ایک مضمون میں اس جانب اشارہ کیا ہے ۔مضمون نگا راس رات ہونے والے تفریحی پر وگرامات کو فحاشی اور بے حیائی کے سمندر سے تعبیر کرتے ہوئے  لکھتے ہیں "جدت پسندی اور ذہنی  وفکری آزادی نے ہر گزرتے سال کے بعد ایک نئی سوچ اور نئی تہذیب کو جنم دینا شروع کر دیا ہے جو ایک صاف ستھر ے معاشرے کے لیے ناسور بنتا جا رہا ہے۔۔ ۔ہم یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ گزرتے سال کے بعد ہم اپنی حقیقی منزل آخرت کے کتنے قریب ہو گئے ہیں اورہماری زندگی بجائے بڑھنے کے مزید کم ہو گئی ہے "۔ انکے مطابق نیو ائیر کا تقاضا یہ ہے کہ ہم نئے سال میں اپنے معاملات کو شرعی احکامات کی روشنی میں ترتیب دیں۔[29]  

مذہبی امور

بعض جرائد نے مذہبی اہمیت کے موضوعات  کو موضو ع بحث  بنایا ہے ان میں محرم  الحرام اورمسلکی اختلاف،اعضا ء کی پیوندکاری  اور اسلام اور اتحاد امت  شامل ہیں ۔

  • § محرم الحرام اورمسلکی اختلاف : اسلامی سال کے پہلے مہینے محر م الحرام کے ابتدائی دس دن عاشورہ محرم کے نام سے جانے جاتے ہیں،اور ان دنوں میں شیعہ مسلک کے ہاں پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کے نو اسے حضرت حسین کی شہادت کے سلسلے میں سوگ کا اہتما م ہوتاہے اور ماتمی محافل بھی منعقد کی جاتی ہیں۔ اہل سنت  اس عشرے کو شہادت حسین کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ حضرت عمر فاروق ؓ  کی شہادت کی یاد کے طور پر مناتے ہیں ۔ اس ضمن میں بعض جرائد میں شائع ہونے والی اختلافی آراء کا جائزہ حسب ذیل ہے ۔ 

غیر مسلکی "میثاق”محرم الحرام کے حو الے سے لکھتا ہے کہ اس مہینے میں شہادت حسین ؓ کے علاوہ بھی کئی اہم واقعا ت  ہوئے ہیں اس لیے اس مہینے کو  "محض غم واندوہ کا مہینہ قرار دینا درست نہیں  اس لیے کہ حضرت حسین شہید ہیں اور شہید کو اللہ تعالیٰ نے زندہ قرار دیا ہے "، جریدے کے خیا ل میں ہمیں بدعات کو ترک کر دینا چاہیے۔[30] 

"اسوہ حسنہ "کے خیال میں حضرت حسین ؓ  کی شہادت کا محرم الحرام کی حرمت سے کوئی تعلق نہیں ۔جریدہ لکھتا ہے "یہ واقعہ حضور ﷺ کی وفات کے پچا س سال بعد کا ہے اور اگربعد میں ہونے والی شہادتوں کی کوئی شرعی حیثیت ہو تی یا ماتم کی اجازت ہوتی تو حضرت عمر فاروقؓ اور حضرت عثمانؓ کی شہادتیں اس قابل تھیں کہ مسلمان انکی یاد گار مناتے یا ان پر سینہ کوبی اور ماتم ہ گریہ زاری کرتے ” ۔[31]

"خیر العمل ” نے یکم تادس محرم کو "عشرہ فاروق وحسین ” کے طور پر منائے جانے پر تبصرہ کرتے ہوئے  اسے عزادارئ حسین کی اہمیت اور عظمت کو کم کرنے کی کوشش قرار دیا ۔جریدہ لکھتا ہے "عزاداری حسین کے حاسدوں کا ایک اور جلاپا دیکھئے کہ جب وہ عزادارئ حسین کو نہیں روک سکے تو انہوں نے اسکی اہمیت و عظمت کو کم کرنے کے لیے ایک اور "شہادت” کو جو ڑنے کی کوشش کی ہے” ۔ جریدے نے روزنامہ جنگ لاہور  پر اس اشتہار کو شائع کرنے کی بنا  پر  اسے جنگ گروپ ہی  کا شاخسانہ قرار دیا ۔[32]

 

  • اعضا ء کی پیوندکاری  اور اسلام : اعضاء کی پیوند کاری اور اپنی زندگی میں اپنا کوئی عضو بعد از وفات  ہبہ کرنے کی وصیت  کو اہل سنت کے ہاں انسان کے اپنے جسم میں تصر ف کا استحقاق نہ رکھنے اور مرنے کے بعد جسم سے کسی عضو کو  نکالنے کے نتیجے میں لاش کی بے حرمتی کے سبب شرعاً  جائز نہیں سمجھا جاتا۔غیرمسلکی "اشرا ق”اس نقطہ نظر کا جو اب دیتے ہوئے  یہ مو قف اختیار کرتا ہے   کہ جس طر ح کوئی شخص اپنے ما ل اور  تجہیز و تکفین اورتدفین کا حق وصیت رکھتا ہے بعینہ  اپنا کو ئی عضو کسی کو دینے کی وصیت بھی اسی قبیل سے ہے ۔جہاں تک لاش کی بے حرمتی کا معاملہ  ہے تو اسکا تعلق نیت اور محرکات کے ساتھ ہے۔ کسی شخص کے عضو کو نقصان پہنچانا جرم ہے اور اس کی دیت یا قصا ص ادا کرنا پڑتا ہے لیکن اگر ڈاکٹر مریض کی اجازت سے اس کا ہاتھ کا ٹ دے تو اسے کوئی مجرم نہیں کہتا ۔ اس لیے اگر آدمی اگر اپنا عضو کسی کو وصیت کرے تو اس کو نیکی ہی کہا جائے گا۔[33]

 

  • § اتحاد امت : دینی جرائداتحاد امت کے حوالے سے تجزیے تبصرے اور ادارتی نوٹ شائع کرتے رہتے ہیں ۔رواں دوماہی میں "الشریعہ” اور "وفاق المدارس” نے اس موضوع پر بحث کی ہے۔یہ جرائد اتحاد امت اور بالخصوص اہلسنت کے مختلف مسالک کے اتحاد کے خواہش مند نظر آتے ہیں  ۔”الشریعہ ” کےخیال میں پاکستان میں نفاذ شریعت کے لیےصرف سیاسی اور پارلیمانی جدوجہد کافی نہیں بلکہ عوامی طاقت اور دباؤ اسکی ناگزیر ضرورت ہے ۔اس کے  لیے ضروری ہے کہ غیر سیاسی دینی قوتیں اور جماعتیں بھی میدان میں متحرک رہیں ۔جریدہ لکھتا ہے "دینی جدوجہد کو صحیح رخ پر آگے بڑھانے کے لیے ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرنا،ایک دوسرے کے کام کا احترام کرنا ،اور باہمی مشاورت مفاہمت اور تعاون کی فضاقائم کرنا ضروری ہے ۔اسی طرح نفاذ شریعت کا راستہ روکنے کا کام عالمی سطح پر ہو رہا ہے ، دینی جماعتوں کےلیے  ان قوتوں کے طریقہ واردات کو سمجھنا اور اسکے سد باب کی منصوبہ بندی کرنا بھی اہم ہے”۔[34]  

اسی ضمن میں "وفاق المدارس ” نے مولانا محمدحنیف جالندھری کا ایک مضمون اداریے کےطور پر شائع کیا ہے ۔مضمون نگار کے خیال میں” دنیا میں مسلمانوں کے خلاف جو کچھ ہو رہا ہے  اور اسلامی سلطنتوں میں غیر مسلم یا بے ضمیرمسلمان سر براہ مسلط کرنے کی جو سازش تیار ہوچکی ہے اس کے پیش نظر اتحاد اسلامی ہماری ضرورت ہی نہیں بلکہ فرض عین ہے……بھا رت میں جس طرح ہندو مسلم فساد کی آڑ میں بلاامتیاز سنی ،حنفی، دیوبندی،  بریلوی اور اہلحدیث سب کو تہ تیغ کر دیا گیا۔ ان پر آ شوب حالات میں تمام مسلمانوں کی آنکھیں کھل جانی چاہیں۔ اسی طرح وطن عزیز کی موجودہ صورتحال متقاضی ہے کہ اپنے تمام فروعی اختلافات کو نظرانداز کرکے محبت واخوت اور یگانگت اور بھائی چارےکوفروغ دیا جائے  "۔[35]

دوسری جانب "اہلحدیث” نے ایک مضمون میں امت میں انتشار کی وجوہات پر بحث کی ہے ۔ مضمون نگار لکھتے ہیں "یوں تو  امت مسلمہ کی کمزوری اور تفرقہ بازی کی کئی وجوہات ہیں لیکن ان میں سے ایک مصلحین امت میں سنجیدہ پن اور خیر خواہانہ طرز عمل کی کمی ہے،دینی سمجھ بوجھ کا فرق ذاتی دشمنی کا سبب بن گیا ہے ،اس طرز عمل نے مسلمانوں کی یکجہتی اور آپس میں حسن ظن کو ناپید کر دیاہے "۔[36]

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے